خواب

ہفتہ 16 فروری 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

کہاں جاتا ہے کہ خواب وہ نہیں ہوتے جو نیند میں دیکھے جاتے ہیں بلکہ وہ ہوتے ہیں جو سونے نہیں دیتے کچھ اس طرح کے خواب دکھانے کا فریضہ ارباب اختیار نے انجام دیا۔یہ خواب حقیقت سے کتنے دور ہیں اس اک اندازہ تو زمینی حقائق سے ہوہی رہا ہے اندازہ ہے کہ خواب دیکھنے اور دکھانے میں بڑا فرق ہوتا ہے اب تلک تو عوام کو سبز باغ کی ماند ہی خواب دکھائے گئے اور اسی طرز تکلم کو ہر مقتدر طبقہ نے اپنایا یہی” طریقہ واردات “تاحال جاری ہے۔


اس وقت بھی کپتان کو وہ خواب سونے نہیں دے رہے جو انہوں نے کنٹینر پر کھڑے ہوکرعوام کو دکھائے تھے اور اسی کی درویشی دیکھیں اس نے بھی یہ سوچ کر سچ مان لیاکہ خواب لانے والا تعبیر بھی دے گا۔
دل کی روشنی میں اک خواب تو یہ دکھایا گیا کہ جونہی کپتان جی مسند اقتدار پر قدم رکھیں گے ڈالروں کی بارش کا آغاز ہوجائے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری وساری رہے گا جب تلک قومی قرض کا آخری روپیہ ادا نہیں ہوجاتا ۔

(جاری ہے)


دوسرا خواب یہ دکھایا گیا کہ قرض مانگنے اور کشکول کی روایت کو سرے سے ہی ختم کردیا جائے گا جو ملک و قوم کی بے قدری کا سبب بن رہی ہے، تیسرا خواب یہ دکھایا گیا کہ کپتان کے منصب سنبھالتے ہی قانون کی حکمرانی کا بول بالا ہو جائیگا۔کسی کو قانون توڑنے کی جرات نہ ہوگی اور چوتھا یہ کہ سرمایہ کارہماری سرزمین پر بھاگے چلیں آئیں گے اور بھاری بھر سرمایہ کاری سے روزگار کے نئے امکانات پیدا ہوں گے ا فرط جذبات کی اسی ترنگ میں لاکھوں افراد کو روزگار دینے کی نوید بھی سنادی گئی۔


اگرچہ کپتان جی کو حکومت کے زینہ پر قدم رکھے زیادہ مدت نہیں گذری اس لیے ان خوابوں کی تعبیر کے لیے قوم کو پرامید تو رہنا ہی چاہیے۔ہمارا وہم ہے کہ کپتان جی اور انکی ٹیم نے غلط مفروضہ قائم کرکے خوابوں کی بنیاد رکھی ان کی ٹیم کے ذمہ داران جنہیں منزل اقتدار صاف دکھائی دے رہی تھی حقائق سے کیونکر لاعلم رہے ؟ پہلے سے ہوم ورک کرنا کیوں مناسب نہ سمجھا۔

آج کپتان سمیت سبھی قومی خزانہ خالی ہونے کا واویلا کررہے ہیں۔
خواب کی دنیا میں مگن اس قوم کو کیا معلوم کہ یہ آب مزید مقروض ہورہی ہے سود در سود کی ادائیگی کی بدوت اسکے مستقبل بعید میں بھی ہمیشہ مقروض رہنے کے قومی امکانات ہیں ۔کپتان جی اور ان کے متوقع وزراء قوم کو شاندار مستقبل کے خواب دکھا رہے تھے تو عوام کو خوش فہمی تھی کہ ان کے رفقاء محترم نے سارے اندازے لگا لئے ہوں گے لہذا آپ انکی تمام تر محرومیاں ختم ہوجائیں گی مگر بڑھتے ہوئے اندرونی اور بیرونی قرضے ان خوابوں پے اوس ڈالنے کے مترادف ہے۔


ہمیں اس سے مفر نہیں کہ قرض لینا قطعی بری بات نہیں لیکن اس کا غلط استعمال ہی قوم کی مشکلات میں اضافہ کا باعث بنتا ہے ماضی میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ، ارباب اختیار قرض کی مہ پی کر فاقہ مستی میں رنگ لانے کی امید سے رہے اور قوم کو بھی اس صورت حال سے لاعلم رکھا۔ملکی معیشت میں کئی مقام ایسے آئے جب ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات منڈلاتے رہے، ہماری اس مجبوری اور بے بسی کا فائدہ عالمی مالیاتی اداروں نے خواب اٹھایا اور روز بروز کڑی سے کڑی شرائط عائد کرنے کے بعد قرض کے اجراء کی حامی بھر ی ۔

کپتان جی کو بھی کچھ ایسی ہی صورت حال سے سابقہ پیش آرہا ہے۔شائد اس لئے انھیں خود آئی ۔ایم۔ایف کے در تک جانا پڑا۔کسی ریاست کے سربراہ کی اس انداز میں حاضری کی یہ پہلی روایت ہو گی۔
کپتان جی سرکار سے اب بھی بہت سے امیدیں قوم نے وابستہ کررکھی ہیں انکے بھر آنے کی توقع صرف اسی صورت ممکن ہے کہ کپتان جی اک قومی ایکشن پلان مرتب کریں اور بتدریج اسکی جانب بڑھیں اس ضمن میں انہیں لانگ اور شارٹ ،مڈٹرم پالیسی بنانا ہوگی۔


شارٹ ٹرم میں انہیں وہ اقدامات اٹھانا ہوں گے جس کے نتیجہ میں عوام کو فوری ریلیف مل سکے جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار پر بہت سے طبقات تحفظات کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن اسکی بڑی خوبی بھی رہی کہ انہوں نے روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں پر حد سے زیاد ہ کنٹرول رکھا اور برس ہا برس تک ان میں تبدیلی نہی کی گئی اگر ہوئی بھی تو نہایت معمولی نوعیت کی تھی اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے وزیر خزانہ محبوب الحق مرحوم گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے حالانکہ اس وقت ملک حالت جنگ میں بھی تھا لاکھوں افغانی ہمارے مجبوری کے مہمان بھی تھے۔


کہا جاتا ہے کہ مہاتما گاندھی نے نہرو کو وصیت کی نہرو دیکھو تم جب تک بھارت میں آٹے، سائیکل اور سینما کے ٹکٹ کی قیمتی نیچے رکھو گے تمہاری حکومت چلتی رہے گی نہرو نے گاندھی سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا یہ وہ اشیاء ہیں جو اس ملک کا غریب شہری استعمال کرتا ہے نہرو نے یہ بات پلے باندھ لی لہذا وہ موت تک بھارت کا وزیراعظم رہا۔
اب تک کی آمدہ خبروں کے مطابق بجلی اور گیس کے مہنگے ہونیکی بھی اطلاعات آرہی ہیں جو اچھا شگون نہیں ہے ضروریات زندگی کی اشیاء میں کمی کے ساتھ ساتھ ناجائز منافع خوری پر کنٹرول بھی سرکار کی رٹ کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔

علاوہ ازیں سرکار مڈٹرم پالیسی کے طور پر عوام کو مہنگی تعلیم اور صحت سے نجات دلانے کی سبیل نکالیں سرمایہ کاری اور قرض کی صورت میں آمدہ رقوم کو خالصتاً ترقیاتی کاموں میں صرف کرنے کی منصوبہ بندی کر ے جس میں فوقیت زراعت کو دینا ہی لازم ہے ملک کی غالب آبادی کی خوشحالی ہی سے ملک کی خوشحالی ممکن ہے ۔
لانگ ٹرم پالیسی کے طور پر سرکان ان تمام سابقہ قرضوں کا جائزہ لے جو ادارے ،شخصیات قومی قرضہ جات کو ذاتی مقاصد کے لیے زیراستعمال لاتے رہے ان سے آہنی ہاتھ سے پیش آئے ان سے وصولی کو یقینی بنا کر قومی خزانہ میں جمع کروانے کی طرح ڈالیں۔

یہ فعل قومی جرم کے مترادف ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔
بدعنوانی کے خاتمے کا جو علم سرکار نے بلند کیا ہے اسے ہر حال میں اونچا رکھتا حالات کا تقاضا ہے البتہ اسکی آڑ میں خوف کی فضاء کو ختم کرنا اور ان تمام کاروباری حضرات کو تحفظ کا یقین دلانا لازم ہے تاکہ فی الوقت ٹھہری ہوئی کاروباری سرگرمیاں تیز تر ہوسکیں گی۔مزید براں ایماندار طبقہ کی تحسین کرنے کی روایات ڈال کر سماج میں اپنے ہمنوا پیدا کرے جو بدعنوانی کی اس جنگ میں سرکار کے ساتھ کھڑے ہوں۔


اس سے زیادہ اہم قانون سازی ہے جس میں سرکار تاحال ناکام نظر آرہی ہے اسے ذریعہ سے بھی عوام کی مشکلات کوکم کیا جاسکتا ہے چند ماہ کے بعد نیا مالی سال شروع ہونے کو ہے نئے پاکستان کا خواب سرکار نے عوام کو دکھایا ہے اس نے اسی حساب سے سالانہ بجٹ میں توقعات وابستہ کررکھی ہیں اس کیلئے ابھی سے پلاننگ کرنا بھی سرکار کے فرائض میں شامل ہے تاکہ اسکا پہلا مالی بجٹ قابل تقلید اورمثالی ہو۔


ہماری خواہش ہے کہ سرکار سوشل میڈیا کے صارفین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی بجائے گورننس پر توجہ مرکوز کرے نیز سیاسی مخالفت میں حد کراس نہ کرے اسکے معاملات نیب پر چھوڑے البتہ اسکے معاملات میں سیاسی مداخلت سے باز رہے۔سورج کی روشنی میں قوم کو دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر کا قرض اس سرکار پرہے جو اسے مزید مقروض کرنے میں مصروف ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :