خود آگاہی

ہفتہ 16 مارچ 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہمیں ان روشن ، آزاد خیال جنہیں عرف عام میں لبرل کہتے ہیں خواتین سے انتہائی ہمدردی ہے، جنہوں نے انتہائی محنت اور شبانہ روز کاوش سے اک مارچ کا اہتمام کیا ۔ارض پاک کے دو بڑے شہروں میں ہم خیال خواتین کو اس” کارخیر“ میں شریک ہونے پر آمادہ کیا اور خواتین کے عالمی دن پے ایسی سرگرمی کے ذریعہ توجہ حاصل کی۔ ان کی جانب سے اس ریلی کو جو منعقد ہوئی” عورت مارچ“ کا نام دیا گیا ۔

ہماری بدقسمتی دیکھیئے کہ ہم اس میں شریک نہ ہو کر اس ” ثواب “ سے محروم رہ گئے جو حقوق کی فراہمی اورخدمت انسانیت کے نام پر ”بٹ“ رہا تھا اس محرومی کا تذکرہ ہم نے اپنے دیرینہ دوست سے کیا تو انہوں نے ہماری اصلاح کرتے ہوئے کہا کہ صنفی طور پر آ پ اس میں شریک ہونے کے اہل ہی نہ تھے کیونکہ یہ خالصتاً عورتوں کا مارچ تھا ،جب ہم نے اس میں شریک مردوں کاحوالہ ان کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا اسکی وجہ کچھ” غیر شرعی “سی ہے جسکا تذکرہ اس مقام پر درست نہیں۔

(جاری ہے)


 ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ اس مارچ کے انعقاد کے کیامقاصد تھے اور منتظمین اس میں کس حد تک کامیاب ہوئے؟ لیکن اس کے” آفٹر شاکس“ سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام میں یہ پذیرائی حاصل نہیں کرسکا بلکہ سوشل میڈیا پر ان کے وہ پوسٹرز جو معصوم بچیوں کے ہاتھوں میں تھما رکھے تھے حرف تنقید رہے اور عوام کی زبان میں ”آنٹیوں “ کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی جو اس شو کو کامیاب بنانے کی آرزو مند تھیں۔

سماج نے اس فعل کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا غیر فطری اور غیر اخلاقی پوسٹرز اور ان پر اشکال کو ناپسند کرتے ہوئے شدید ردعمل کا اظہار کیا بعض حلقوں نے تو سرکار سے مطالبہ بھی کرڈالا اس کے پس پردہ ہاتھوں کو بے نقاب کرکے قرار واقعی سزاد ی جائے جو قوم کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو گمراہ کر رہے ہیں انکی یہ سرگرمی ہمارے آئین ہی سے متصادم ہے عمومی یہ رائے ہے کہ اگر مطالبات میں تعلیم کا یکساں حق، وراثت میں حصہ جہیز کی لعنت سے چھٹکار حق مہرا اور آسان نکاح کی تحریک ہوتی تو یہ معاشرہ کے لیے قابل قبول ہی نہ ہوتا بلکہ حقیقی طور پر عورت مارچ ہی کہلاتا ۔

سماج کی روایت سے ہٹ کر پیش کیے گئے مطالبات کسی اور کاایجنڈہ دکھائی دے رہے تھے۔اس سرگرمی پے علماء کرام بھی خاموش نہ رہ سکے اور انہوں نے بھی مطالبہ داغ دیا کہ اگر اس مارچ کے منتظمین کے خلاف کاروائی نہ ہوئی تو وہ بھی پر امن نہیں رہ سکیں گے۔
وفاقی دارالحکومت میں سرکار کی ناک کے نیچے اس نوع کی سرگرمی اسکی لاعلمی کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ ہم ان آزاد خیال”وومن“ کی اور تو کوئی انجام خدمت دینے سے قاصر ہیں البتہ انکی خودآگاہی کیلئے دو خواتین کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں جو روشن خیالی کی آخری حدوں کو چھو کر اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اس کے دائرہ میں داخل ہوکر مطمئن زندگی بسر کررہی ہیں۔


 ان میں اک نام ہمارے ہی خطہ انڈیا سے ہاکی سپر سٹار پریتی ہیں جنکا نیا نام عفیفہ ہے ان کا تذکرہ میڈیا میں بھی ملتا ہے۔ان کے بقول وہ مردوں سے آگے نکلنے کا شوق رکھتی تھیں یو ں انہوں نے ہاکی کھیلنے سے آغاز کیا بہت جلد وہ ہندوستان کی ہاکی ٹیم کاحصہ بن گئیں اور پھر آزاد خیالی ان پر غالب آگئی۔ ان کی ٹیم میں وہ لڑکیاں بھی شامل تھیں جو ہر حد کراس کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتی تھیں ان کے مرد کوچ بھی انکی آزادی خیالی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے تھے انکا کہنا تھا کہ اک دفعہ انکی ٹیم ڈنمارک گئی وہاں جاکر معلوم ہوا کہ وہاں کی ٹیم کی سنٹر فارورڈ نے ایک پاکستانی لڑکے سے شادی کرکے اسلام قبول کرلیا ہے اور ہاکی چھوڑ دی ہے۔

وہاں مشہور تھا کہ اس نے لڑکے کی محبت میں اسلام قبول کیا ہے اس جستجو نے ان سے ملاقات پر آمادہ کیا جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ دستانے اور برقع میں ملبوس شوہر کے ساتھ جانے کی تیاری کررہی تھی ہمیں دیکھ کر وہ رک گئیں اور بتانے لگی کہ میں نے شادی کیلئے نہیں بلکہ اپنی شرم، عصمت اور عزت کی حفاظت کیلئے اسلام قبول کیا ہے اور اسلام کیلئے شادی کی ہے اب اس کا نام سعدیہ ہے اس ملاقات کے بعد میں انڈیا واپس آگئی،سعدیہ نے مجھے بھی اسلام کی دعوت دی۔

میرے ساتھ والے گاؤں کی لڑکی بھی ہاکی کھیلتی تھی جس کے والدین 77ویں ہندو ہوئے اور پھر بعد میں مولانا کلیم کے ہاتھوں مسلمان ہوگئے اس سے ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ روس کھیلنے جانے والی تھی اس نے مجھ سے مشورہ لینا تھا اس موقع پر میں نے ڈنمارک کی کھلاڑی بریٹنی کا تذکرہ رشکیہ انداز میں کیا، اس نے ساری بات اپنے والد کو بتائی کہ وہ مجھ سے ملنے آئے اور مولانا کی اک کتاب ”آپکی امانت“ تھما دی اس کتاب میں برقع کے قانون نے میرے دل میں بٹھا دیا میں نے بھی مولانا سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور پھر انہوں نے مجھے کلمہ پڑھا دیا میرانام عفیفہ رکھا،کھلاڑی کے خیال میں عورت کا بے پردہ ہونا اسکی حددرجہ تو ہین ہے۔


اس طرح امریکہ کی ریاست سے تعلق رکھنے والی امینہ جنان جو پروٹسٹنٹ عیسائی تھیں شادی کے بعد ماڈلنگ کے شعبہ سے وابستہ ہوگئیں اچھی شخصیت کی مالکہ تھیں انکا کاروبار خوب چمکا، زندگی کی تمام تر سہولیات انہیں میسر تھیں، شوفر گاڑیاں، آسائش کا ہر سامان دستیاب تھا ،آزاد خیال بن گئیں دل کا اطمینان حاصل نہ ہوا۔ مذہبی زندگی اختیار کرلی رضا کارانہ طور پر لوگوں کو مذہبی تعلیم دینے لگی ۔

خود کو مزید مصروف رکھنے کیلئے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اس کلاس میں سیاہ فام اور ایشیائی طالب علم بھی تھے موصوفہ مسلمانوں سے شدید نفرت کرتی تھیں اسلام جہالت ، وحشت کامذہب ہے یورپ کے عام مصنفین اور مورخ یہی کچھ لکھتے آرہے تھے مسلمان طالب علموں کا سیاہ فام نوجوانوں سے رویہ بڑا مثبت تھا وہ آزاد منش اور عیش پسند بھی نہ تھے میں نے بھی تبلیغی جذبے سے عیسائیت کی خوبیان ان کے سامنے رکھنا شروع کردیں تو وہ بڑے وقار سے ملتے اور الجھنے کی بجائے مسکرا کر خاموش ہوجاتے اپنی کاوشوں کو بیکار جاتا دیکھ کر موصوفہ نے اسلام کا مطالعہ شروع کردیا۔


 بقول اس کے سب سے پہلے قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھا تو بہت سے سوالات جن کا جواب بائبل میں نہ ملا وہاں مل گیا پھر میں سیرت کی کتاب خریدی اس کا مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ نبی آخرالزماں نوع انسانی کے عظیم محسن اور سچے خیرخواہ ہیں موصوفہ کہتی ہیں کہ میں ذاتی طور پر شرمیلی تھی اور خاوند کے سوا کسی دوسرے سے میل جول پسند نہیں کرتی تھی البتہ ماحول کی مجبوری دوسری بات تھی۔

میں نے جب سیرت کو پڑھا تو پتہ چلا کہ نبی آخرالزماں خود بے حد حیادار تھے خصوصاً عورتوں کیلئے عفت و پاکیزگی اور حیا کی تاکید کرتے تو میں بے حد متاثر ہوئی اسے عورت کی ضرورت اور نفسیات کے عین مطابق پایا آپ نے حد درجہ فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے یہ پڑھ کر خوشی کی انتہاء نہ رہی کیونکہ میں خود بھی اک ماں تھی آپ نے یہ بھی فرمایا تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی اورگھروالوں سے اچھا سلوک کرتا ہے۔


 اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر میں نے اسلام قبول کیا ان کے بقول امریکہ اور یورپ میں عورت دوسرے درجے کی شہری ہے وہ مردوں کے برابر کام کرتی ہے معاوضہ کم ملتا ہے وہ ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے پندرہ سال کے بعد والدین بھی اس کی کفالت کا ذمہ نہیں لیتے اور اسے خود ملازمت کرکے اپنے پاؤں پے کھڑا ہونا پڑتا ہے شادی کے بعد طلاق کا خوف اسے ہر وقت گھیرے رکھتا ہے طلاق کے بعد اسکا سابقہ شوہر بچوں کا مشکل 30% خرچہ برداشت کرتا ہے جس میں اک جوتا خریدنا بھی مشکل ہے۔


اس میں دورائے نہیں کی فی زمانہ جتنا احترام اور تحفظ عورت کو اسلام نے عطا کیا ہے اسکا تصور بھی دوسرے مذاہب میں ممکن نہیں لہذا سماجی خرافات کو اسلام سے منسوب کرنا محض لاعلمی ہے۔
نہیں معلوم شرکاء عورت مارچ کے لواحقین ان کی اس سرگرمی سے آگاہ بھی تھے یا نہیں ،سوشل میڈیا میں ان پر تنقید کے بعد انہیں وہ حقوق حاصل ہوئے جسکا وہ مطالبہ کررہے تھے۔
 تاہم ہم یہ عرض کیے دیتے ہیں کہ فطرت، قدرت اور حقیقت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا انجام ہمیشہ عبرت ناک ہوا ایسے افراد اوراقوام کی تاریخ قرآ ن حکیم میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہے جس سے آگاہی ہی آپکی صحیح راہنمائی کرسکتی ہے بشرطیکہ دل میں اسکی تڑپ اور خواہش موجود ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :