ٹیسٹ کیس

ہفتہ 30 مارچ 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہفتہ رفتہ میں بہاولپور کے ایک معروف قدیمی ، تعلیمی ادارہ میں طالب علم کے ہاتھوں ایک استاد محترم کی ہلاکت کی بازگشت عالمی سطح تک سنی گئی، غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے اس” سٹوری“ کو اپنی رپورٹنگ کا حصہ بنایا۔ذرائع بتاتے ہیں کہ شہر بھر میں کئی روز تک سوگ کا ساماں رہا اور صادق ایجرٹن کالج میں تو ہر شخص دکھی دکھائی دیا اس فضاء کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہر شخص اپنی زبان حال سے یہ کہہ رہا ہو کہ مرحوم میرے گھر کا فرد تھا۔

قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پروفیسر خالد حمید نے اپنے وارثان میں سے دو بیٹے ، دوبیٹیاں اور بیوہ چھوڑی ہے ان کا چھوٹا بیٹا تاحال غیر شادی شدہ ہے مرحوم جب صبح گھر سے تیار ہوکر اپنی علمی دانش گاہ کی طرف روانہ ہوئے ہوں گے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ انکی اہل خانہ سے یہ آخری ملاقات ہے نہ ہی انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والے المیہ کا تصور کیا ہوگا ان کے تحت وشعور میں بھی نہیں ہوگا وہ طلباء و طالبات جنہیں وہ اولاد کا درجہ دیتے ہیں ،جن کے کر دار کی تعمیر کی بھاری ذمہ داری ان کے کاندھوں پر ہے جنکی ترتیب کا بار قوم نے ان پے ڈالا گیا ہے ان ہی میں سے ایک نوعمر طالب علم انکا شاگرد انکی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا ۔

(جاری ہے)


ہمارا کامل یقین ہے کہ سماج میں اس نوع کے واقعات کو پڑھنے اور سننے کے بعدموصوف ضرور شعوری طورپر ان کو اپنے لیکچر کا حصہ بناتے ہوں گے اور یہ احساس ان کے دل میں ہمیشہ رہتا ہوگا کہ ان کے طلباء طالبات کسی بے راہ روی کا شکار نہ ہوجائیں اور کسی ایسے واقعہ میں شامل نہ ہوں جو انکی اور ان کے والدین اور سماج کی تضحیک کا باعث ہو۔ لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ انہی کے کلاس کے طالب علم کا ہاتھ ان کے گریبان تک آن پہنچے گا پروفیسر خالد حمید مرحوم ہی نہیں کوئی ا ستاد بھی اس خیال کو اک لمحہ کیلئے سوچ بھی نہیں سکتا۔


اک ایسی درسگاہ جس کے سماج کیلئے نابعضہ روزگار شخصیات پیدا کی ہوں، پر امن تعلیمی ماحول اسکی پہچان ہو، انتظامیہ پر والدین اعتماد کرتے ہوئے اپنی بچیوں کو اساتذہ کرام کے حوالے کرتے ہوں ،ایسے ادارہ میں اک انسان کا اذیت ناک قتل، جو دھیمے اندازاور مزاج میں بولنے کی شہرت رکھتا ہواک بڑا سانحہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
 اس کے بعد بہت سے وسوسوں کا پیدا ہونا لازمی امر ہے ان کے بچے یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ کاش ان کے والد طلباء کے ساتھ کسی بھی پرخاش کا تذکرہ گھر کردیتے تو یوں نہ ہوتا،ان کے عزیز و اقرباء کا دھیان اس طرف جاتا ہوگا کہ خالد حمید کبھی بھی انتہا پسند نہیں رہا کہ مذہب کا یوں کھلا مذاق اڑاتا اور پھر عمر کے اس حصہ میں جب کہ وہ خود بھی دل کے عارضہ میں مبتلا تھا۔

اک لمحہ کیلئے سوچئے کہ جب ان کے بیٹے کو بیرون ملک خبر ملی ہوگی کہ ان کے شاگرد نے ان کا خون کردیا ہے تو اس کے دل پے کیا بیتی ہوگی؟ کیا اس واقعہ کے بعد روحانی باپ جیسے مقدس رشتہ کے تقدس کوئی گنجائش رہ جاتی ہے۔
اس سے بڑا یہ المیہ ہے کہ قاتل بھی اک استاد کا بیٹا ہے عہد شباب میں اس نے جو گھناونا جرم کیا ہے اس کااحساس شاید اسے کبھی زندگی میں ہوجائے لیکن اس نے اپنے ریٹائرڈ والد کو جیتے جی مارد دیا ہے میڈیا ذرائع بتاتے ہیں کہ متوسط خاندان سے اس 19سالہ بچے کا تعلق ہے اس خاندان کے وسائل اب عدالتی انصاف کی نذر ہوجائیں گے اس کے جرم کی بھاری قیمت اس سمیت پورے خاندان کو ادا کرنا پڑے گی۔


عینی شاہدین کہتے ہیں کہ فرط جذبات سے مغلوب یہ نوجوان جونہی پروفیسر جی کے دفتر میں داخل ہوا تو اک بڑا تالا ان کے سر پر دے مارا دل کے عارضہ میں مبتلا خالد حمید اپنا توازن برقرار نہ ر کھ سکے اور گر گئے بعدازاں اس نے ان پے اس طرح وار کئے، کوئی سنگدل سے سنگدل شخص بھی اپنے دشمن پر اس طرح وار نہیں کرتا جس طرح یہ طالب علم اپنے استاد پر کررہا تھا اس وقت وہ اخلاقی انحطاط کے آخری درجہ پے تھا ۔


اس سانحہ نے سماج کے تمام طبقات کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر نوجوان قوم کی تربیت میں کہاں سقم رہ گیا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کرام کی جان لینے سے بھی نہیں چوکتے۔خرابی کہاں ہے ؟تلخ حقیقت یہ ہے کہ محض اک واقعہ نہیں بلکہ پورے معاشرہ کیلئے ٹسٹ کیس ہے نسل نو کی غالب اکثریت محض چند گھنٹے مادر علمی میں گذارتی ہے، بقیہ مدت وہ اپنے گھر وں میں رہتے ہیں۔

اس دوران انکی کونسی سرگرمیاں ہوتی ہیں، یہ کن افراد سے ملتے ہیں، کون کون سے لوگ ان کے حلقہ احباب میں ہیں، یہ کن نظریات سے متاثر ہیں، کون کونسی شخصیات انکی آئیڈیل ہیں ،کس طرز کی کتابیں اور لٹریچر ان کے زیر مطالعہ رہتا ہے،کون سی یہ فلمیں دیکھتے ہیں، ان کے رویوں میں کیا تبدیلی آتی جارہی ہے ۔کس طرز کی محافل میں جانا زیادہ پسند کرتے ہیں ان سب باتوں کا جائزہ لینا سماجی، اخلاقی ، قانونی اعتبار سے والدین کی ذمہ داری ہے اگر کوئی فرد یا جماعت ان کے نظریات کو گمراہ کرنے میں مصروف ہے تو اسکی روک تھام بھی والدین ہی کرسکتے ہیں بھلا دوسرا کیونکر یہ فریضہ انجا م دے گا ؟ کیونکہ ہمارا مذہب قطعی طور پر ان رجحانات کو فروغ دینے ، اپنانے کا درس ہی نہیں دیتا جو کسی کی جان لینے کا باعث بنتے ہوں۔

کاش! اس کے والدین نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ہوتا تو انھیں آج یہ دکھ نہ اٹھانا پڑتا۔
 بعض طبقات پر واقعہ کو مذہب کے ساتھ نتھی کرکے اصل حقائق پے پردہ ڈال دیتے ہیں نہ تو قرآن اور نہ ہی سیرت سرور عالم میں اس طرز تعلیمات کا درس ملتا ہے جس کے مرتکب بعض” جنونی “افراد ہوتے ہیں۔
اک زمانہ تھا جب تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیاں ، نصاب کی طرح اہمیت پاتی تھیں ان کی وساطت سے طلباء وطالبات کو اپنی اپنی صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کا موقع ملتا تھا اس مشق کی بدولت نسل نو ہی میں سے قومی سطح کے حامل کھلاڑی ، قلم کار، ادیب ، مصنف ، محقق ، مبلغ ،سیاسی راہنماء ان اداروں سے پیدا ہوتے تھے۔

جب سے تعلیم کو تجارت بنا کے رکھ دیا ہے تب سے طلباء ، اساتذہ کرام کو اپنی اپنی تجوری کے ترازو میں تولنے لگے ہیں۔ اخلاقی اقدار زوال پذیر ہیں طلباء کے ہاتھوں اساتذہ کرام کی رسوائی کے واقعات اخبارات میں رپورٹ ہورہے ہیں ،ہمارا نظام اتنا بانجھ ہے کہ وہ اک ہجوم کو قوم بنانے سے قاصر ہے، دوسری طرف ریاستی پالیسیاں اسکی معاون ہیں اک طرف طلباء و طالبات کی مشترکہ تقریب کے تناظر میں استاد محترم کا قتل تو دوسری طرف ہندورسم ہولی کی سرکاری جامعہ میں اجازت انتہائی قابل توجہ امر ہے ۔

سب سے زیادہ افسوسناک یہ ہے کہ کلچر کے فروع کے نام لسانی، نسلی گروہوں کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور انتہا پسندانہ مزاج کے حامل مذہبی پیشوؤں کی مالی معاونت کی جاتی ہے اس ماحول میں نوجوانان قوم کے اذہان پر اساتذہ کرام کس طرح قدغن لگا سکتے ہیں انکی فکر اور سوچ کو بدل سکتے ہیں؟سرکار پروفیسر خالد حمید کے واقعہ کو ٹیسٹ کیس بنا قانون پر مکمل عمل داری کرے اور نسل نو کی مثبت تربیت کیلئے ایسے اقدامات اٹھائے جو اس ہجوم کو اعلیٰ اخلاق کی حامل قوم بنا دے ۔سیرت پاک کو نصاب کا حصہ بنائے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :