فلاح

ہفتہ 13 اپریل 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ماہ شعبان میں ا ک منفرد سرگرمی دیکھنے کو ملتی ہے اسکا تعلق ہماری مالی عبادت سے ہے اس کا مرکز ہمارا بینکنگ نظام ہوتا ہے جہاں زکوة کی کٹوتی کی بابت بیان حلفی کا داخل ہونا ہے جس کی روح سے صارف بنک انتظامیہ سے یہ درخواست کرتا ہے کہ بینک میں موجود اسکی رقم سے زکوة کی کٹوتی نہ کی جائے بلکہ وہ یہ فریضہ خود بااحسن خوبی انجام دے کر ثواب دارین حاصل کرنا چاہتا ہے اسے یہ نیکی کسی دوسرے کے ہاتھ سے قبول نہیں گویا ضمیر جعفری مرحوم کے اس شعر کا وہ مصداق بنتا ہے کہ اسے کاٹتا کوئی اور ہے بانٹتا کوئی اور۔


کہا جاتا ہے کہ بنک کی وساطت سے زکوة کی کٹوتی کا نظام” خود ساختہ امیر المومنین “کے عہداقتدار میں وضع کیا گیا تھا۔اسکو بنیاد بنا کر اب ہر سال ماہ شعبان کی آمد پر رمضان المبارک سے قبل ہر بینک کی انتظامیہ از خود بنک اکاؤنٹ سے زکوة کی رقم منہا کرکے بقیہ رقم صارف کے اکاوئنٹ جمع رہنے دیتی ہے ،صارف کے بنک اکاؤنٹ میں ایک روز پہلے جمع ہونے والی رقم بھی زکوة کی کٹوتی کی مد میں آتی ہے۔

(جاری ہے)


گذشتہ دنوں ہمیں اس حوالہ سے مصروف بنک کے افسران سے تبادلہ خیال کا موقع ملا تو انکا موقف تھا کہ صارف ماہ شعبان سے چند روز قبل بھی بھاری رقم ڈیپازٹ کروائے تو ہم ضابطہ کے مطابق اس میں سے زکوة وصولی کے ذمہ دار قرار پاتے ہیں حالانکہ زکوة کٹوتی کے اعتبار سے شرعی طور پر ایسا کرنا مناسب نہیں ہے، محتاط اندازے کے مطابق اس مال کیلئے کم از کم ایک سال کی مدت درکار ہے نجانے یہ کیسے اخذ کرلیا جاتا ہے کہ صارف سال بھر کی کما ئی بنک میں جمع کروارہا ہے اس طرز عمل کو دیکھتے ہوئے ،اب صارفین نے بھی رویہ بدل لیا ہے یا تو ہ یکم شعبان سے قبل ہی بیا ن حلفی جمع کروا کر بنک انتظامیہ کو پابند کرتے ہیں کہ انکی رقم سے زکوةنہ کاٹی جائے یاپھر وہ اس رقم کو نکلوا کر چند روز کیلئے کہیں اور منتقل کردیتے ہیں۔

اسلامی ملک کہلوانے والی اس ریاست میں یہ فعل مذہبی ،قانونی،اخلاقی لحاظ سے قطعی درست قرار نہیں دیاجاسکتا اس سے عمومی تاثر یہ ملتا ہے کہ شاید صارفین زکوة دینے سے انکاری ہیں جو کہ درست نہیں۔
زکوة جو اسلام کا بنیادی رکن ہے اس کی ادائیگی سے راہ فرار ممکن ہی نہیں اصل اختلاف طر یقہ کٹوتی پر ہے اس عمل کو اسلامی روح کے عین مطابق ڈھالنا اور شرعی ضوابط کو سامنے رکھ کر جمع شدہ رقوم سے کٹوتی کرنا یہ نہ صرف سرکار کی ذمہ داری ہے بلکہ علماء کرام اور اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض میں بھی شامل ہے کہ اسلام کے اس اہم رکن اور مالی عبادت کی ادائیگی کے طریقہ کار کو قابل عمل اور سہل بنائے نیز رقوم سے وصول شدہ زکوة کی تقسیم اور ترسیل کا شفاف نظام وضع کرے ۔


مدینہ کی جس ریاست کا ڈھنڈورہ پیٹا جارہا ہے تو ارباب اختیار کی اولین ذمہ داری ہے کہ اصلاح احوال کی جانب توجہ مرکوز کریں۔
زکوة اور عشر پر مشتمل اسلامی معاشی نظام اپنے اندر اتنی صلاحیت اور گنجائش رکھتا ہے کہ اسکی وساطت سے مساکین، غربا اور سماج کے پسماندہ طبقات کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ دونوں شعبہ جات ماضی میں بھی سیاست کی نذر ہوتے رہے ہیں، زکوة کی کٹوتی سے لے کر زکوة کمیٹیوں تک کے نظام پر تمام مکاتب فکر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

اب اس سے صرف نظر کیا جا رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین پر بے پناہ وسائل فراہم کیے ہیں ایک اندازے کے مطابق پانچ کروڑ ایکڑ سے زائد رقبہ قابل کاشت ہے اس کے علاوہ معدنیات کے وسائل بھی دستیاب ہیں۔زرعی رقبہ سے سال بھر میں دو فصلیں ربیع اور خریف حاصل ہوتی ہیں مال مویشی اس کے علاوہ ہیں۔عشر کی وصولی کا ایک منظم اورمربوط نظام وضع کردیا جائے تو ایک بڑی معاشی سرگرمی وقوع پذیر ہوسکتی ہے۔


کہا جارہا ہے کہ اس وقت ملک کا اک بڑا مسئلہ فصلوں کا تحفظ بھی ہے گندم، چاول اور چینی کی وسیع پیداوار نے انکی سٹوریج کاایشو کھڑا کردیا ہے سابق مشق بھی یہی رہی ہے کہ گندم کی فصل کو کھلے آسمان کے تلے سٹور کیا جاتا ہے اسکی بناء پر فصل خاصی مقدار میں یہ خراب ہوجاتی ہے نئی فصل سے قبل اس کو ہر حال میں شفٹ کیا جاتا ہے، یہ ریاست کے کام آتی ہے نہ ہی پسماندہ طبقات اس سے مستفید ہوسکتے ہیں اسکا اک راستہ نظام عشر کا قیام ہے، فصل کی صورت پسماندہ طبقات کو مقررہ نصاب کے مطابق فصل سے جو حصہ ملے گا وہ اسے اپنے مصرف میں لاکر ضروریات زندگی خرید سکیں ،گے یہی معاملہ زکوة کے نظام کا بھی ہے اسکی کٹوتی کے غیر بہم طریقہ کار کی بدولت غالباً تعداد اس نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہے اور یوں زکوة کے پیسے مستحق افراد تک نہیں پہنچ پاتے البتہ جو افراد اپنی مدد آپ کے تحت زکوة کی رقوم تقسیم کرتے ہیں اس سے سماج کی قلیل تعداد ہی فائدہ اٹھا سکتی ہے اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ خلفاء راشدین کے عہد میں زکوة کی کٹوتی ، تقسیم اور ترسیل کاایک موثر نظام ریاست میں مرکزی سطح پر موجود تھا تو اک و قت ایسا بھی آیا جب لاکھوں میل رقبہ پر محیط اسلامی ریاست میں کوئی شہری زکوة کامستحق نہیں تھا۔

قابل بھروسہ زکوة کا نظا م اگر عملی طور پر نافذ ہو جاتا ہے تو لاکھوں اہل وطن اپنی زکوة پسماندہ طبقات کے لیے بھجوا کر سرکار کے معاشی بوجھ میں معاون ہو سکتے ہیں۔
اسلامی معاشی نظام جسکو سنہری ادوار میں آزمایا جا چکا ہے اسکو رائج کرنے میں کیا امر مخفی ہے؟۔اس وقت سرکار جھولی پھیلائے دیگر ممالک سے بھیک مانگنے میں مصروف ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کے سامنے سرنگوں ہے، دوسری طرف مہنگائی نے سراٹھا رکھا ہے، روز مرہ کی ضروریات عام فرد کی پہنچ سے باہر جارہی ہیں، ٹیکسوں کی مد میں اضافہ کی نئی شکلیں دریافت کی جارہی ہیں، سرمایہ کاروں کو دعوت عام دی جارہی ہے۔

تاکہ معاشی سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضا فہ ہوسکے، ایمنسٹی کی سکیم متعارف کروانے کی تیاری بھی جاری ہے اس کے باوجود قومی معیشت کی بحالی ایک خواب ہی دکھائی دیتی ہے کیونکہ یہ تمام حربے ماضی کی حکومتیں بھی آزما تی رہی ہیں لیکن اس حکومت کا خاص وصف یہ ہے کہ اس نے مدینہ کی ریاست کے خطوط پر اسلامی ریاست کے قیام کا مژد ہ بنایا ہے اس میں اسلامی صدارتی نظام اب نیا اضافہ ہے ان حالات میں سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے اسلامی نظام معیشت کو فروغ دے کر عام آدمی کے زندگی کو باوقار اور آسان بنائے زکوة اور عشر کے آزمودہ نظام کے نفاذ ہی میں ہماری دنیاوی اور اخروی فلاح ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :