پوجا پاٹ

پیر 29 اپریل 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

نیوزی لینڈ کے بعد سری لنکا میں دہشت گردی کی واردات میں مسجد اور چرچ کو نشانہ بنانے کا عمل خاص ذہن کی عکاسی کرتا ہے اسکا اک مقصد تو مذہبی منافرت پھیلانا دوسرا عبادت گاہ سے و ابستہ افراد کے جذبات کو مشتعل کرنا بھی ہے ۔
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے بروقت اور مثبت اقدام سے دہشت گردوں کو نہ صرف قوم کے متحد ہونے کا پیغام ملا بلکہ اس سے مسلم کمیونٹی کو بھی حوصلے اور تحفظ کا احساس ہوا۔

کسی بھی کمیونٹی کی عبادت گاہ وہ مقام ہے جہاں روحانی تسکین کے لیئے اجتماع ہوتا ہے اس میں شامل مردو خواتین اور بچے پرامن ہوتے ہیں یہ سب غیر مسلح بھی ہوتے اور وہاں اپنی دنیا میں گم رہتے ہیں جس کا فائدہ دہشت گرد اٹھاتے ہیں جب سے نقص امن کو فروغ ملا تب سے عبادت گاہیں بھی بعض ناگزیر پابندیوں کی زد میں ہیں۔

(جاری ہے)

عبادت کے دوران مسلح افراد کا پہرہ نسل نو کے اذہان میں مختلف سوالات کو جنم دیتا ہے بالخصوص مساجد کے باہر باوردی افراد کی موجودگی اسلام کی امن پسندی پے سوالیہ نشان ہے۔

مساجد کی حیثیت دیگر عبادت گاہوں سے اس لئے بھی مختلف ہیں کہ یہاں پانچ اوقات میں ادائیگی نماز کے علاوہ ذکر و اذکار، تلاوت قرآن پاک و دیگر محافل کیلئے وقت کی کوئی پابندی ممکن نہیں جبکہ دیگر اسلامی مذاہب میں ہفتہ وار یا مخصوص ایام میں عبادت کا تصور ملتا ہے جہاں پو جا پاٹ کے علاوہ سروس کے نام پر طرز عبادت رائج العمل ہے ۔جزو وقتی عبادات اور روزانہ کی بنیادپر مسجد میں حاضری ہی مساجد کو دیگر عبادت گاہوں سے ممتاز کرتی ہے جہاں نمازی باجماعت نماز ادا کرنے کے پابند ہیں۔

چشم فلک نے دیکھا کہ نیوزی لینڈ میں مسجد میں بڑے سانحہ کے باوجو د اگلی نماز کیلئے باقاعدہ اذان اور بعدازاں جماعت ادا کی گئی جس نے اہل نیوزی لینڈ کو اپنی جانب توجہ کیا۔
تاریخ کے تناظر کو دیکھیں تو مسجد محض عبادت گاہ نہیں ہے بلکہ اسکی حیثیت ایک ادارہ کی سی ہے عہد نبوی میں جہاں سماجی، معاشی، قانونی، اخلاقی، جہادی، سیاسی اور روحانی سرگرمیاں فروغ پاتی رہی ہیں ہماری نسل نو آج بندوقوں کے سائے میں جو نماز ادا کررہی ہے اور جو کلچر ہماری مسجد میں فروغ پارہا ہے یہ اس تہذیب، اقدار روایات سے قطعی سے قطعی مختلف ہے جسکی شہادت ہمیں عہد نبوی میں ملتی ہے آپ نے جب ہجرت مدینہ کی تو سب سے پہلے مسجد قباء کی بنیاد رکھی اور گھر کی تعمیر سے قبل مسجد نبوی قائم کی جو انفرادی اور اجتماعی معاملات کا مرکز قرار پائی ۔

کہا جاتا ہے کہ امام بخاری نے مسجد کی سماج کیلئے اہمیت کے پیش نظر اپنی کتاب ” الجامع الصیح“میں کئی باب رقم کئے۔تاریخ میں ہمیں پہلی تربیتی جس درس گاہ کا نشان ملتا ہے وہ مسجد نبوی ہی میں مقام صفہ ہے جہاں نہ صرف تعلیم و تربیت کا فیض جاری تھا بلکہ یہاں قیام کی بھی اجازت تھی۔ اہل مدینہ اپنی فیاضی سے زیر تعلیم طلباء کی ضروریات کو پورا کرتے اس مثالی درسگاہ سے جو نامور شخصیات پیدا ہوئیں ۔

عبداللہ بن مسعود  ،سعد ابی وقاص،حضرت بلال ،ابوذر غفاری، صہیب رومی، قابل ذکر ہیں۔مسجد نبوی میں درس و تدریس کے علاوہ جسمانی تربیت کا بھی انتظام ہوتا آپ ورزش کی ترغیب دیتے۔کشتی کے مقابلے کرواتے یہ بھی روایت ہے کہ اس مذکوررہ مسجد میں آپ کے خطبات کے علاوہ ادب اور شعرو شاعری کی بھی محافل منعقد ہوتیں علاوہ ازیں کسی کو مالی مشکل کاسامنا ہوتا تو وہ بھی آپ سے استدعاکرتا اور اوقات نماز میں اسکی حاجت روائی کی جاتی بلکہ بعض روایات ایسی بھی ہیں کہ آپ اس طرز کے افراد کو اپنی مدد آپ کے تحت اپنے پاؤں پے کھڑا کرنے میں مدد فرماتے تاکہ ہاتھ پھیلانے کے عمل کی حوصلہ شکنی ہوسکے فی زمانہ اس سے مائیکرو فنانس کی ترغیب ملتی ہے۔


چونکہ مسجد نبوی اجتماعی سرگرمیوں کا مرکز تھا اس لیے جہاد میں شریک زخمی بھی یہاں لائے جاتے اور اسکا علاج کیا جاتا گویا اس میں شفاخانہ بھی قا ئم تھا۔ بیرونی مقامات سے آنے والے وفود بھی مسجد میں ہی آپ سے شرف ملاقات حاصل کرتے اور بعض یہاں ہی قیام کرتے۔ جہاد کی تیاری کیلئے بھی مسجد ہی سے شریک دعوت دی جاتی اور وسائل اکٹھے کیے جاتے آپ کا معمول تھا کہ مسجد میں ہی بیٹھ کر فیصلے سناتے گویا یہاں عدالت بھی لگتی تھی ایک روایت یہ بھی ہے کہ جو قیدی لائے جاتے انہیں بھی اسی مسجد میں رکھا جاتا تھا ان کے کھانے پینے کا اہتمام بھی یہی ہوتا تھا۔


عورتوں اور بچوں کا مسجد میں داخلہ بھی روایات سے ثابت ہے کہ فرض نمازوں بالخصوص فجر اور عشاء کی نماز میں خواتین مسجد میں ادا کرتیں آپ نے انہیں انفاق فی سبیل اللہ کی ایک مرتبہ ترغیب بھی دی تو انہوں نے اپنے زیورات اتار کر حضر ت بلال  کے حوالے کردیئے۔
ان روایات کو ر قم کرنے کا مقصد نسل نو کو یہ بتاتا مقصود ہے مسجد نہ تو لڑائی جھگڑا کا مقام ہے نہ ہی کسی فروعی، مسلکی، سرگرمی کا یہ مرکز ہے اور نہ یہ پوجا پاٹ کا گھر ہے بلکہ اسکی حیثیت ایک سماجی ادارہ کی سی ہے جس سے ہر مومن فائدہ اٹھا سکتا ہے فی زمانہ ہمارے ہاں بھاری بھر پیسہ محض انکی ظاہری بناوٹ پر خرچ کیا جاتا ہے اور اونچے سے اونچے قیمتی مینار تعمیر کرنے پر صلاحتییں صرف کی جاتی ہیں اس سے بڑھ کر المیہ یہ ہے وہ امام جسکی بدولت مساجد کی سرگرمیاں بحال رہتی ہیں اسکی سماجی خدمت کو بھی لازم نہیں سمجھا جاتا ایک بھاری بھر ذمہ داری کے عوض اسے چند ہزار ماہانہ تنخواہ دے کر اک بڑی معاشی کاروائی خیال کیا جاتا ہے ہر فرقہ تمام تر صلاحیتیں صرف اپنے مسلک کو فروغ دینے پر سرمایہ کاری کرتا ہے۔


روایات یہ بھی ہیں کہ بہت سی مساجد سرکاری اراضی پر قائم ہیں بعض طاقتور گروہوں نے بذریعہ قبضہ جگہ حاصل کرکے اسے” خانہ خدا “میں بدل دیا ہے یہی کچھ معاملہ مزاروں کا بھی یہی ہے کہ جہاں بھاری بھر جمع ہونے والے” نذرانے“ بھی مخصوص ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں اس رقم سے کوئی بھی ا نسانی خدمت انجام دی ہی نہیں جاتی ،یوں مدارس اور مساجد جو اک بڑے مراکز کا درجہ رکھتے ہیں وہاں کی سماجی اور معاشی سرگرمیاں مخصوص طبقہ کیلئے ہیں ان میں قائم کمیٹیاں بھی اتنا وژن نہیں رکھتیں کہ وہ عہد نبوی کی طرز پر مسجد کے فعال اور حرکی تصور کو دوبارہ زندہ کریں جو اسلام کے دور عروج میں قائم تھا۔

جہاں مساجد میں وسیع دارالمطالعہ اور کتب کا خزینہ ہوتا تھا ، صدقات زکوة کی وصولی اور تقسیم کا با قا عدہ نظام موجود تھا۔
کہا جاتا ہے کہ بعض مغربی ممالک میں مساجد اسلامک سنٹر کے نام سے موسوم ہیں وہاں تہہ خانوں میں بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور مختلف کھیلوں کا اہتمام ہوتا۔علاوہ ازیں کھانے پینے کے اسٹال موجود ہوتے ہیں سوشل میڈیا کی وساطت سے معلوم ہوا کہ بچوں کو نماز کی جانب راغب کرنے کیلئے انعامی سکیم متعارف کروائی گئی ہے ہر چند یہ اک اچھا عمل ہے لیکن زیادہ مناسب ہے کہ مساجد کو سماجی،ثقافتی اور اسلامی روایات کا مرکز بنایا جائے جسکی شہادت عہد نبوی سے ملتی ہے اور اس کے ذریعہ نسل نو اسکی جانب راغب کیا جائے کہ وہ عبادات کے ساتھ ساتھ سماجی علوم ، کتب بینی ،خدمت خلق اور کھیل میں شریک ہوسکیں۔

بچوں کی تفریح کا اہتمام بھی انہیں ترغیب کیلئے کافی ہوگا یہ تبھی ممکن ہے جب اہل دانش اپنے مسلک اور فرقہ سے بالا تر ہوکر مسجد کی بنیاد اک ادارہ کے طور ر رکھیں گے جو فی الوقت محض پوجا پاٹ کا مقام بن کررہ گیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :