سبق آموز

ہفتہ 4 مئی 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

کہا جاتا ہے کہ سترھویں صدی میں فرانس میں جو انقلاب رونما ہوااسکی پانچ بنیادی وجوہات قابل ذکر ہیں سماجی اعتبار سے یہ سماج غیر متوازن معاشرتی ڈھانچہ رکھتا تھا۔ معاشی لحاظ سے دولت صرف بادشاہ کی دسترس میں تھی جسے وہ اپنی مرضی سے استعمال کرتا تھا جنگی مہمات کی بدولت وہ آرمی کو بھاری بجٹ عطا کرتا اور پھر خزانہ میں دولت کی ترسیل کیلئے معاشرہ کے پسماندہ طبقات تک بھاری بھر ٹیکس عائد کرتا ۔

سیاسی طور پروہ اپنی مخصوص لابی سے مشورہ کرتا اور ان کے فیصلہ جات ہی کو اہمیت دیتا تھا، اشرافیہ خود ٹیکس ادا نہیں کرتی تھیں اور معاشرہ طبقاتی زون میں منقسم تھا۔
اس انقلاب کے مابعد اثرات باقی دنیا پر بھی مرتب ہوئے ،جر من نژاد کارل مارکس کی فکر اور دیگر ہم عصر مفکرین کی تحریروں نے بھی اس انقلاب کی راہ ہموار کی۔

(جاری ہے)

یہ بھی روایت ہے کہ فرانس میں مجبور و محکوم مزدور طبقہ اور آسائش پسند صفت کاروں اور مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری ہی نے کارل مارکس کو سوشلزم کے تخیل کو جنم دینے اور نظریاتی لحاظ سے سماجی اونچ نیچ سے بغاوت پر اکسایا تھا۔

اس لیے اس نے سماجی طبقات سے مبرا معاشرہ کا وژن پیش کیا اور class less society کی فکر پروان چڑھایا جسکو بعدازاں روس میں عملی شکل دے دی گئی۔
برطانوی سامراج جس کا نعرہ تھا کہ اسکی سرزمین پے کبھی سورج غروب نہیں ہوتااسکی انتظامیہ نے بھی اپنا تسلط قائم رکھنے کیلئے سماج کو طبقات میں تقسیم کیا اور اپنے وفاداروں پے عنایات کی بارش کردی اور اس کے خلاف آواز حق بلند کرنے والوں پے زمین تنگ کردی۔

تاہم عوام الناس کو اپنا ہمنوا بنانے کیلئے اپنی گورننس پر بھی توجہ مرکوز کی۔ا ک طرف انتظامی مشینری برصغیر کے سارے وسائل سمیٹ کر مانچسٹر منتقل کررہی تھی تو دوسری طرف اک عام شہری کی درخواست پر داد رسی کے ذریعہ داد بھی سمیٹیں جارہی تھی۔
 قریباً اک سو سال تک برطانوی سامراج نے اپنی تمام تر توجہ تجارت تک مرکوز کیے رکھی بعدازاں تعلیمی ضرورت کے پیش نظر اداروں کی بنیادی رکھی گئی، انہیں اداروں اور عالمی حالات نے اس شعور کو اجاگر کیا جو آزادی کیلئے ناگزیر تھا۔

مغربی ممالک میں روشن خیالی کی ذہنی تحریک نے وہ حالات پیدا کردیئے کہ انیسویں صدی پوری خطے کیلئے آزادی کی تحریک ثابت ہوئی ۔کہاجاتا ہے کہ برطانوی سامراج نے ان تمام افسران بشمول وائسرائے کو جبری رخصت دی اور یہ کہہ کر فارغ کردیا کہ ان کی تربیت سامراجی ریاستوں پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے تھی، اب انہیں اس کی ضرورت نہیں۔ طبقاتی معاشرہ ہمارا ہدف نہیں، ہماری بدقسمتی دیکھئے کہ ہم نے اسی ایکٹ کو اپنے قانون کی بنیاد بنا کر ریاستی اور سامراجی ڈھانچہ کو انہی خطوط پر چلانے کی دانستہ کاوش کی ہے۔

 آج کے مقتدر طبقہ میں آپ کو وہی چہرے دکھائی دیں گے جن کے ابا کبھی سامراج کے وفاداروں میں شمار کیے جاتے تھے ہماری کسی سرکار نے اس رویہ کو بدلنے ، سماجی امتیازی فرق کو ختم یا کم از کم سطح پر رکھنے کی کبھی کاوش نہیں کی اس حماقت کی کھو کھ سے سانحہ مشرق پاکستان نے جنم لیا اک دوسرے پر الزام تراشی کے کھیل کی مٹی میں ہم نے حقائق کو بھی دفن کردیا۔

فی زمانہ یہ دعوی تو کیا جارہا ہے کہ سماج کے متوسط طبقہ نے سماجی ،معاشی اور تعلیمی ترقی میں اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے اس کے اثرات محسوس بھی کیے جارہے ہیں ،لیکن سرکار کے دست شفقت سے سماج اک بار پھر تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذر رہا ہے، ماضی میں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ فضاؤں میں بلند تو ہوا مگر عملی شکل نہ پاسکا۔آج مکانوں ہی بابت اک نئی تقسیم اس پسماندہ اور اس طبقہ میں احساس محرومی پیدا کررہی ہے، جس کے بڑوں نے اس سرزمین کیلئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

آج اس دھرتی پے بڑے جید اداروں کی سرپرستی میں ہاؤسنگ کالونیاں پروان چڑھ رہی ہیں جہاں پہنچ کر اک بار پھر سامراجی ذہنیت آشکار ہوجاتی ہے، ایلیٹ کلاس کی ان رہائشی کالونیوں میں مکان بنانا اک خواب ہی دکھائی دیتا ہے، اک طرف بدبودار فضا میں موجود محلہ داری، دوسری طرف صاحب ثروت اور بااختیار اداروں سے وابستہ افسران کے رہاشی بنگلے، سماجی اور معاشی تفاوت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

 
اس میں صرف گذرنے کی حسرت رکھنے والے یہ تو ضرور سوچتے ہیں کہ کیا اس سرزمین کے وسائل میں انکا حق نہیں کہ وہ بھی اس طرح کے شفاف، صاف ،محفوظ ترین اور ، لگثری علاقہ میں رہائش پذیر ہوسکیں ۔کیا ریاست صرف انکی ہی ماں ہے ہمارا ایمان ہے کہ بانی پاکستان نے اس مقصد کیلئے یہ سرزمین حاصل ہی نہیں کی تھی کہ جہاں” مخصوص کلاس‘ ‘ اور ادارے از خود طے کردہ اصولوں کی بنیاد پر رعایتی نرخوں کو پلاٹوں کی بندر بانٹ کرتے ہوئے اپنے لیے شاہانہ زندگی برائے رہائش کا انتخاب کرے ۔

فلاحی ریاستوں میں اسکا تصور ہی نہیں یہ وصف بھی اسلامی ریاستوں کے حصہ میں آرہا ہے۔
راقم کے ابا کا خمیر گجرات کی مٹی سے اٹھا ہے جن کے ہاں ظاہری بناوٹ کا بھی ایک خاصہ پایا جاتا ہے میرے عزیز برادر محمد آصف عموانیہ حال مقیم اٹلی، برسبیل تذکرہ فرمانے لگے کہ اٹلی میں ان کے مکان کے قریب گجرات سے ان کے دوست کچھ ماربل ٹائلز لے گئے اور انہیں مکان کی پیشانی پر اپنے نام سے نسب کردیا، جب بلدیہ والوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے فورا ٹائیل کو اتارنے کے ساتھ ساتھ انہیں جرمانہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان مکانوں میں کوئی سماجی تقسیم قابل قبول نہیں اس لئے یہ اک ہی رنگ اور ڈیزائن اور رقبہ پر مشتمل ہیں جس میں بلامتیاز شہری رہائش پذیر ہیں۔

ہمارے ہاں ناجائز تجاوازات سرکاری اداروں کا منہ چڑھارہی ہوتی ہیں۔ اک طرف بڑے بڑے محلات میں رہائش پذیر اشرافیہ ہے دوسری طرف چند گز زمین پر ایک سے زائد مقیم خاندان اور اس سے بڑھ کر ستم ظریفی بلند و بالا مکانات کے مابین جھونپڑیوں میں بستے انسان۔
وہ ریاست جسے ماں کا درجہ حاصل ہے اس کی نظر میں محمود ایاز تو ایک ہی ہوا کرتے ہیں۔ فطرت کی تقسیم کے علاوہ کوئی سماجی ، معاشی اور قانونی تفریق نہیں ہوسکتی۔

اگر مقتدر طبقات اس طرز کی طبقاتی تقسیم کو بڑھاوا دینے میں از خود معاونت کر کے مراعات فراہمی کے مرتکب ہورہے ہوں تو پھر خونی انقلاب کے رونما ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگا کرتی۔ اگر آج کا مقتدر طبقہ آسائش پسند،محفوظ اور آرام دہ زندگی بسر کرکے رخصت بھی ہوجائے گا تو اسکی آنے والی نسلوں کو اسکا اخراج ضرور ادا کرنا پڑے گا۔ یہی تلخ حقیقت ہے۔ جو طبقاتی تقسیم، معاشی تفاوت،لا قانونیت عہد انقلاب فرانس میں تھی وہ ہمارے سماج میں اب بھی موجود ہیں۔عام شہری کا ہاتھ رد عمل کے طور پرریاستی اداروں کے گریبان تک جانا بھی سبق آموز نہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :