ناٹک

پیر 8 جولائی 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

گزشتہ دنوں ہماری ملاقات ایک نیم عمر رسیدہ جوڑے سے ہو گئی ، وضع قطع سے و ہ جانے پہچانے دکھائی دیتے تھے۔ سلام دُعا کے بعد عقدہ کھلا کہ ان کا تعلق فنون لطیفہ سے ہے ،یہاں روزی روٹی کی غرض سے آئے ہیں، ہماری حماقت دیکھیے ہم نے حالات حاضرہ پر سوال داغ دیا ہمارا گمان تھا کہ ہم اپنی علمیت جھاڑ کر انہیں اپنا مرید بنا لیں گے ،لیکن معاملہ گلے پڑ گیا ، فلمی دُنیا کے سینئر اداکار گویا ہوئے کہ آپ کونسے حالات کا ذکر فرما رہے تھے عرض کیا ہر سو ”تبدیلی“، کی دھوم مچی ہے۔

اس سماج میں رہتے ہوئے آپ اتنے بے خبر، کس دُنیا میں رہتے ہیں بیشتر اس کے موصوف جواب دیتے ، موصوفہ بول پڑیں، ہم سے اچھاناٹک کر لیتے ہیں یہ حکمران ۔
 عرض کیا آہستہ بولیے اس ہوٹل میں ”خفیہ والے“ بھی آتے ہیں آپ تو پھر بھی بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ اداکاری کر رہے تھے ریمانڈ تو ہمارا لیا جائے گا۔

(جاری ہے)

خالصتاً سرد لہجے میں بولے ، میاں بات تو ٹھیک ہے تم ایسے ہی نہ سمجھو محترمہ نے تاریخ میں ماسٹر کر رکھا ہے ۔

اک زمانہ تک تو سکول پڑھاتی رہی ہیں، بچپن کا شوق انہیں اداکاری کی طرف لے آیا ورنہ یہ آج کسی سیاسی جماعت میں کلیدی عہدے پے فائز ہوتیں اک آدھ وزارت تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ لیکن ہر کوئی مقدر کا سکندر نہیں ہوا کرتا، حالات حاضرہ پے آج ان کا امتحان ہی لے لیتے ہیں اور سیر حاصل لیکچر سنتے ہیں، ویٹر چائے کے بعد باربی کیو کا آرڈرلے چکا تھا۔


اب موصوفہ کے چہرے سے سنجیدگی ڈھلک رہی تھی، تاریخ سے اوراق پلٹتے بولی ،مجھ سے زیادہ کون اس مٹی سے پیارے کرے گا جس کے آباؤ اجداد کا خون اس میں شامل ہے ،انھوں نے ہجرت کا دکھ اُٹھایا تھا، بانی پاکستان کے بعد سیاسی ابتری کو اک طرف رکھ دو اگرچہ بعد کے حالات نے اس کوکھ سے جنم لیا تھا ،لیکن پہلی آمرانہ حکومت کی ترقی کے واویلا کے نیچے سے اُٹھنے والے عوامی احتجاج نے ملک کے دو لخت ہونے کی راہ ہموار کی ، نام نہاد ترقی سے غبارے سے ہوا نکل گئی ، بنیادی جمہورتوں کے دعویداروں نے اقتدار کسی جمہوری جماعت یا فرد کو منتقل کرنے کی بجائے ”باوردی سرکار“ کے حوالہ کر کے نئی دلدل میں دھکیل گیا۔

پانچویں بڑی اسلامی ریاست کا انجام اک عبرت ناک شکست کی صورت میں نکلا ، ماحول رقت آمیزی کی جانب ڈھلک پڑا، باربی کی خوشبو نے تبدیلی کے اثرات مرتب کیے ، موصوفہ نے اک گلا س ٹھنڈا پانی پیا۔پلیٹوں کو سیدھا کیا اور جمہوریت کی گاڑی چلا دی ۔ مخاطب ہوتے ہوئے بولیں آپ کواسلامی سوشلزم کا نعرہ تو یاد ہی ہو گا، جمہوریت نے اس سماج میں کیا کیا گل نہیں کھلائے ، قومی صنعتوں کی تباہی سے لے کر تعلیمی نظام کی ابتری تک، کیا کچھ اس عوام نے نہیں دیکھا،سیاسی انتقام کا ڈنکا، اس عہد میں خوب چلتا رہا۔


 طرز حکمرانی کو تو رکھو اک طرف تم اداروں کی بات کر لو ، اس عوامی عہد میں بھینس چوری کے ایسے بھونڈے کیس بنائے گئے کہ آج بھی سن کر شرمانے کو جی چاہتا ہے۔ انہماک سے گفتگو سنتے اداکار نے کولڈ ڈرنکس کی فرمائش کر دی کچھ توقف کے بعد موصوفہ بولی ، ایسے جمہوری عہد میں بڑے بڑے غیر جمہوری کام ہوئے۔
جس نے عزیزم ہم وطنوا کی صدا بلند کروائی، چشم فلک نے اس عہد میں وعدہ خلافی کی وہ” سیریز“ دیکھی کہ انتخابات کے انعقاد ہی سے اعتماد اُٹھ گیا ، اک طرف سیاسی ورکر ٹکٹکی سے ساتھ بندھے دکھائی دیتے تو دوسری جانب وفاداریوں بدلنے والوں کے گلے میں ہار ڈالے جاتے ۔

اسلامی سوشلزم سے اک طرف اگر ریاسست کے نقص امن کو خطرہ تھا تو دوسری طرف لسانیت کے فروغ میں پناہ تلاش کی جا رہی تھی۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کے لئے بذریعہ صدارتی مشین آرڈینینس کا اجراء جاری تھا، ساتھ ساتھ فرقہ واریت کی فضا بھی عروج حاصل کر رہی تھی ۔ اسلام پسندوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسلامی نظام کے وعدہ کی حمایت کریں یا اپنا وزن فرقہ واریت کے پلڑے میں ڈالیں۔


 ہم تینوں ہوٹل کے اک کونے میں بیٹھے تاریخ کھنگال رہے تھے۔ ویٹر نے برتن اُٹھاتے ہوئے کچھ اورکھانے کی پیش کش کر دی جسے بخوشی قبول کر لیا گیا۔ چاولوں کی خوشبو نے بریانی کی طلب بڑھا دی اور موصوفہ نے پانی کا گلاس غٹا غٹ کر کے اندر اُتارا اور پھر تازہ دم ہو کر بولیں کہ غیر جماعتی انتخابات نے قومی سیاست کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اگر طیارہ کا سانحہ نہ ہوتا تو آج یہ ریاست بادشاہت کا روپ دھار چکی ہوتی ، موصوف نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی عجیب ہیں ہر آمر پے کھل کے برستے ہیں لیکن جمہوری ادوار کی خرافات فراموش کر دیتے ہیں۔

اسی دہائی تو رکھو اک طرف تم میثاق جمہوریت کے بعد ہی کا رویہ دیکھ لو۔ دونوں بڑی جماعتوں کو اک سے زائد بار حکمرانی کرنے کا سنہری موقع ملا ، کتنا ریلیف فراہم کر سکے عوام کو ، پوری قوم کو قرضوں تلے دبا کے رکھ دیا جس کی سانس بھی نکلنا اب محال ہے
آزاد عدلیہ ، الیکشن کمیشن، آئین کی بالا دستی سب دعوے اور وعدے ہوا ہو گئے ، دونوں کرپشن کے اعتبار سے اک پیج پے ہیں۔

قومی وسائل کی بندر بانٹ ، میرٹ کی پامالی ، قومی اداروں کا زوال انہیں کے عہد کی نمایاں نشانیاں ہیں، سول سپر میسی کے نام پے بے قوف بنایا گیا ، جب اقتدار کے گھورٹے پر سوار تھے تو انہیں عوامی مشکلات سے کوئی سرو کار نہیں تھا ۔ جونہی ان کی کرسی کے پنجے سے قالیں کھینچا گیا انہیں وہ تمام اُصول ضابطے اور قوانین ،معاہدے یاد آگئے جس کی تکمیل” میثاق جمہوریت “کا خواب تھی ۔


ہماری گفتگو کو غور سے سنتے موصوفہ تجزیہ کرتے ہوئے بول پڑیں ، ہمارے ہاں ہر آمر نے احتساب کا نعرہ بلند کیا ۔ لیکن اس کی آڑ میں مخصوص کلاس ہی کو نوازا گیا، ”سب سے پہلے پاکستان“ کا سبق پڑھانے والوں نے اس ریاست کے ساتھ کیا کیا؟۔آمر کی پالیسیوں نے ہمیں لاشے اُٹھانے پر مجبور کر دیا ۔ وہ قبائل طبقہ جس کی حب الوطنی پے کسی کو شک نہیں تھا اور ہماری شمالی سرحد مضبوط سمجھی جاتی تھی اسی کو غیر محفوظ کرنے کا احمقانہ فریضہ انجام دیا ، ڈالروں کے عوض ریاست کی سالمیت پے سوالیہ اُٹھا دیا ،تاریخ کے آئینے میں دیکھو وہ جنہیں دہشت گرد جانا جاتا تھا۔

انکل سام کے ساتھ مذاکرات کی میز پے ہیں اور ہم کس مقام پے کھڑے ہیں، جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ہم نے کولڈ ڈرنکس آفر کر دی۔
ارض پاکستان میں کونسا الیکشن نہیں جس کو متنازعہ نہ بنایا گیا ہو ، حالیہ انتخابات کے نتیجہ میں جو سرکار براجمان ہے اس کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، عالمی اداروں کی معاشی پالیسیوں کا نفاذ،ہارس ٹریڈنگ ،اداروں کی اک دوسرے میں مداخلت،” نئی بوتل میں پرانی شراب “دکھائی دیتی ہے۔

اب تو شراب بھی یہاں شہد کی مانند سمجھی جاتی ہے۔ بریانی کی بھینی خوشبو نے ہمیں اپنی جانب متوجہ کیا موصوفہ نے بحث کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس سے مفر نہیں کہ ترقی نہیں ہو رہی۔ لیکن معاشی ،آئینی اعتبار سے ہم ان ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں جو ہمارے ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ وہاں طرز حکمرانی” ناٹک “دکھائی نہیں دیتا، ۔
اب توہماری بھی خواہش ہے کہ ہمیں بھی حکمرانی کا حق تفویض کیا جائے ۔

عوام کے ان روپ کے بہروپ دیکھے ہیں تو ہماری اداکاری بھی دیکھ لیں گے، آخر ہم بھی اس ریاست کے شہری ہیں ان کو آزمانے کے بعد ہمیں موقع فراہم کرنے میں کیا حرج ہے؟۔ دونوں نے گھڑ ی پے نظر ڈالی ، کافی وقت ہو چکا تھا، باتوں میں کافی وزن تھا ،اجازت لینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ہم یہ سوچ کر غم میں ڈوب رہے تھے کہ عوام کے ساتھ کب تک ناٹک کھیلا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :