حساب

اتوار 28 جولائی 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

حلقہ احباب میں سے حافظ عبدا لقیوم ہی ہیں، تعلیم یافتہ ہونے کے سبب یہ کافی عرصہ قومی اخبار سے وابستہ رہے، بعد ازاں اپنا کاروبار کرنے کی ٹھان لی کچھ سر مایہ انھوں نے جمع کیا اور پھر معمولی سطح کے کام آغاز کیاان کا کاروبا ر چل نکلا اسے مزیدوسعت دینے کیلئے انھیں سر مایہ کی ضرورت پیش آئی تو بینک کی خدمات حاصل کی گئیں، اس وقت وہ شاہ رکن عالم کالونی ملتان کی اک چھوٹی سی مارکیٹ میں شبانہ روز محنت سے اپنے خاندان کا ایک مضبوط سہارا ہیں ، موبائل شاپ کے ساتھ ساتھ ایزی پیسہ ، ریلوے بکنگ اور یو ٹیلٹی بلز کی وصولی جیسی سروسز عوام کو فراہم کر رہے ہیں، فرصت کے لمحات میں ہم بھی کچھ وقت کبھی کبھا ر ان کی رفاقت میں صرف کر تے ہیں، ان کے والد گرامی ، اس پیرانہ سالی میں بھی اخباری کارکن کے طور پرگھر گھر اخبار کی فراہمی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ،انھوں نے محنت سے ہی اپنے گھر کو گلشن بنا کے رکھا ہے ، موصوف کے کاندھوں پے گھر کی دیگر ذمہ داریاں بھی ہی، یہ روایتی دُکاندار نہیں بلکہ اپنے گاہکوں کیلئے نرم گوشہ رکھتے اور ناجائز منا فع خوری سے اجتنا ب کر تے ہیں ،اسکی بدولت نئی مارکیٹ میں انکی شاپ خاصی مصروف بھی ہے۔

(جاری ہے)


 گذشتہ ہفتہ کے دوران جس روزتاجر برادری کی جانب سے ہڑتال کی کال دی گئی انھوں نے بھی ”لبیک “کہتے ہوئے کاروبار بند رکھا ، سہ پہر گاہکوں کے اصرار پر دُکان کھو ل لی ، ہم بھی ان سے علیک سلیک کر نے پہنچ گئے لیکن جلد اجازت لے کر کسی کام کی غرض سے چل پڑے، جب وآپس ہوئے تو منظر ہی بدلہ ہوا تھا ، عوام کا ایک ہجوم دُکا ن کے سامنے تھا فرنٹ کا شیشہ چکنا چور تھا اور پو لیس کی ایک وین دُکان کے سامنے تھی ،ڈولفن فور س بھی سائرن بجاتی آرہی تھی ان کے برادر حافظ سمیع سے ملاقات ہو گئی، معلوم ہوا کہ ڈکیتی ہو گئی ہے ، ڈاکو ؤ ں نے تمام نقدی لوٹ لی اور جاتے ہوئے ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے ۔

انھوں نے گولی ٹانگوں میں ماری خو ش قسمتی سے ٹانگ میں فریکچر نہیں ہوا ریسکیو کی گاڑی حافظ عبدالقیوم کو نشتر ہسپتال لے جاچکی تھی بذریعہ فون خیریت دریافت کی وہ خاصے حو صلے میں دکھائی دے رہے تھے اس وقت پولیس کی نفری ان کے پاس حسب روایت بیانات لینے پہنچ چکی تھی ۔مذکورہ مارکیٹ کی باضابطہ کوئی ٹریڈ یونین نہیں ہے رسمی طور پر کچھ افراد مارکیٹ کے نما ئندگان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر ز نے انھیں ہفتہ بھر کیلئے آرام کا مشورہ دیا ۔ جب ہم نے ان سے واردات کی حقیقت جانی تو گو یا ہوئے، اس وقت دُکان میں دو نو عمر جوان کھڑے تھے جونہی یہ باہر گئے تو دو لڑکے جو قریبا چو بیس سال کی عمرکے ہوں گے، اندرداخل ہوئے دروازے کو بند کیا اور مجھ پے پسٹل تان لیا اس وقت آدھی مارکیٹ کھلی تھی ،گرمی کے سبب زیادہ نقل و حرکت نہ تھی لہذا میں نے بے بسی سے لاکر اٹھا کر ان کے سامنے رکھ دیا ،انھوں نے سارا مال سمیٹ لیا اور پھر مزید مطالبہ کرنے لگے میں نے کہا اس کے سوا نقدی اورنہیں ہے تو ایک نے جمپ کر کے کاؤنٹر سے چھلانگ لگائی اور تلاشی شروع کر دی اسی دوران اک ادھیٹر عمر خاتون نے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو کھڑے ڈاکو نے سختی سے منع کر دیا اس نے دوبارہ کاوش کی اس نے مزید سختی سے جواب دیا وہ صورت حال کو بھانپ گئی اور باہر فروٹ والے کو اس سے آگاہ کیا اس دوران یہ خبر بھائی تک پہنچی مگر اس وقت وہ مال لوٹ کر فرار ہو چکے تھے، اک محتاط انداز ے کیمطابق ایک لاکھ سے زائد کا نقصان ہوچکا تھا،وہ بستر پے پڑے تاسف کر رہے تھے کہ دن رات محنت کی کمائی اگر یوں لٹ جائے تو پھر کاروبار کرنے کا کیا فائدہ ؟ٹیکس سرکار کو دیا جائے یا بھتہ ڈاکو اس طرح وصول کرتے رہیں گے؟ 
اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس ڈکیتی کے مجر م پکڑے نہیں گئے، چند ماہ قبل بھی اسی مارکیٹ میں اک اور دُکان پے اس طرز کی ڈکیتی ہوئی تھی اسکا بھی کچھ نہ بن سکا ،مذکورہ علاقہ پر امن شہریوں کی آماجگاہ ہے ۔

تعلیم یافتہ ، سرکاری ملازمین اور کاروباری طبقہ یہاں رہائش پذیرہے ، یہ کام مقامی نوجوانان کا تو قطعی نہیں ہو سکتا البتہ شہر میں جو جرائم پیشہ افراد پر مشتمل گینگ ہیں انکی شرکت کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے ،جرائم کی بیخ کنی کیلئے سرکار روز بروز نئی نئی فورسز بھر تی کر رہی ہے لیکن معاملہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہے ہڑتال ہی کے روز شہر میں اخباری اطلاعات کے مطابق پندرہ سے بیس وارداتیں ہوئی ہیں ۔

ا ک ایسا تعلیم یافتہ فرد جس نے محنت پر یقین رکھتے ہوئے بینک سے قرض لے کر کاروبار ککا آغاز کیاہو اور اس انداز سے اسے بھاری بھر کم نقصان اٹھانا پڑ ے تو اسکی کیفیت کیاہو گی۔ اس واردات کے اثرات کاروبارپر بھی مرتب ہو تے ہیں ، خوف کی اک فضاء بہر حال موجود رہتی ہے۔
اس نوع کی وارداتوں کے حوالہ سے بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ بے روز گاری بڑھ گئی ہے مہنگائی نے زندگی اجیرن کر دی ہے اس لیے وارداتیں عام ہو جاتی ہیں بالخصوص سٹریٹ کرائم بڑھ جاتا ہے، اک لمحہ کیلئے اس بھونڈی دلیل کومان بھی لیا جائے تو کیاوالدین کو اپنے بچوں کی سرگرمیوں سے لاعلم ہو نا چاہیے اگر وہ خود محنت کر کے انھیں پال پوس کربڑا کر چکے تو محنت کی جانب راغب کر نا انکے فرائض میں شامل نہیں ہے ؟دوسری جانب عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی شہر کی غالب اکثریت پُر امن شہری کے طور پر رہتی ہے اسکے مقابلہ میں جرائم پیشہ افراد توگنتی کے ہوتے ہیں ان کو قابو میں رکھنا کون سا مشکل کام ہے، بجا طور پر ان کے فرائض کے اوقات کی مشکلات سے ہمیں مفرنہیں لیکن شہری حدود میں جہاں جا بجا کیمرے نصب ہیں پولیس کی فورسزحرکت میں رہتی ہیں وہ کیونکر بغیر نمبر پلیٹ موٹر سائیکل پے وارداتیں کرتے پائے جائیں ۔

سال میں ایک دوبار بریکنگ نیوز کے طور پر بڑے گینگ کے پکڑے جانے کی خبر نشر ہو تی ہے اس وقت تک متاثرین اپنے ساتھ پیش آنے والی واردات بھی بھول جاتے ہیں، اب قانو ن نافذ کرنے والے اداروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ سٹاف موجود تو ہے لیکن روایتی چال چلن میں کوئی مو ثر تبدیلی دکھائی نہیں دیتی ۔
اگر عوام نے بچوں کو پڑھانے کیلئے پرائیویٹ اداروں کا رخ کر نا ہے، علاج بھی غیر سرکاری ہسپتالوں میں کروانا ہے حادثات کے خوف سے نجی سروس میں سفر کر نا ہے ، اپنی حفاظت کیلئے از خود سیکورٹی کا اہتمام کرنا ہے، نجی اداروں میں ملازمت کر نی ہے، کرائے کے مکانوں میں ہی رہنا ہے تو پھر سرکار اور ریاست کے کیا فرائض رہ جاتے ہیں؟ جسکی ادائیگی کیلئے اسے بھاری بھر کم ٹیکس کی وصولی درکار ہے ،ٹیکس ادائیگی سے کوئی محب وطن شہری راہ فرار اختیار نہیں کر نا چا ہتا اگر اسے یہ یقین ہو کہ اسکی جان، مال ،عزت آبرو کی حفاظت ریاست بخوبی انجام دے گی ۔

ہمارے کپتا ن جی ان دنوں قومی دولت لوٹنے کا حساب بڑی تندہی اور سختی سے لے رہے ہیں ان کے اس قدم کو ضرور سراہا جا نا چاہیے سوچنا تو یہ
 ہے کہ مذکور ہ وارداتوں میں لٹنے والے شہریوں کی دولت کاحساب کون دے گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :