ناراضگی

پیر 26 اگست 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

موجود ہ سرکار کی کاروباری طبقہ کو ٹیکس نیٹ ورک میں لانے کی سنجیدہ کاوش لائق تحسین ہے اور بہت سے عوامی حلقے اس عمل کو پسند ید گی کی نگا ہ سے بھی دیکھ رہے ہیں ۔ مہنگائی کی چکی میں پستی عوام بھی خواہاں ہے کہ ٹیکس کی مد میں بھا ری بھر مالی بوجھ عام آدمی پر ڈالنے کی بجائے مراعات یافتہ طبقہ سے وصول کیا جائے، تا کہ ان رقوم کی واپسی ممکن ہو سکے جو قرض کی صورت میں سابقہ حکمرانوں نے لیے جس کا فائد ہ بھی عوام کی بجائے خواص کو ملتا رہا ۔


حکوم ت اور نیب کے مشتر کہ اقدامات نے اگر چہ بد عنوانی کی روک تھام میں کچھ کردار تو ادا کیا ہے لیکن اس عمل سے بھی خوف کی فضا نے جنم لیا ہے جس سے کاروباری سر گرمیاں محدود ہو گئی ہیں ،بے رو ز گاری میں اضافہ بھی دیکھنے کو مل رہا جو نسل نو میں مایو سی کا اک سبب بھی ہے عمومی تاثر یہی ہے کہ جب بے روزگاری برھتی ہے تو سٹریٹ کرائم میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

وزرا ء کرام کی فوج ظفر موج بھی حسب روایت اس سرکار کا حصہ ہے مگر اک آدھ وزارت کے علاوہ کہیں بھی بڑی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی ،کپتان جی کی وزراء سے ”رپورٹ کارکردگی“ بھی روایتی ہی نظر آرہی ہے ،سماج کا اک بڑا طبقہ شاکی ہے کہ گورننس بھی رینگ رینگ کے چل رہی ہے ہر چند کہ اک سال کا عرصہ زیادہ مدت توخیال نہیں کی جاسکتی ہے لیکن بہتر حکومت کے کچھ خدو خال کا واضع ہو نا ضروری ہے ۔

تاجر برادری اور سر کا رکے ذمہ داران کے مابین کامیاب مذاکرات نے فی الوقت اس ہڑتا ل کو ٹال دیا ہے جسکی کال اس طبقہ کی جانب سے دی گئی،ماضی میں بھی سر کا ر اور تاجروں کا یہی چلن رہا ہے ، کچھ لو اور دو کی بنیاد پر معاملا ت طے کیے جاتے رہے۔
 عوامی شکو ہ یہ ہے کہ تاجر برادری اس ر یلیف کو فراہم نہیں کرتی جو سرکار کی طرف سے اسے دیا جاتا ہے لیکن اشیاء کو فوراً مہنگا کر کے عوام پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا ہے اور مصنو عی مہنگائی سے تو جینا دوبھر ہو جا تا ہے تاجروں کی اس من مانی پر سرکار کا بھی کو ئی کنٹرول نہیں ۔


تاجر برادری کے ذہنوں میں یہ خوف بہر حال موجود ہے کہ حکومتی ادارے ٹیکس نیٹ ورک میں لا کر انھیں بلیک میل کر تے ہوئے تنگ کریں گے جب بھی انھیں کاروبار میں تو سیع کی ضرورت محسوس ہو گی سر کاری اداروں کا خوف انھیں روکے رکھے گا ،یوں کاروباری سرگرمی فروغ نہیں پا سکے گی ۔ اس کے مقابلہ میں سرکار کا موقف ہے کہ ٹیکس کی ادائیگی ہی سے سماجی معاشی ترقی ممکن ہے اور عوام کو بھی سرکار کے ہاتھ مضبوط کر نا چاہیے کسی ریسٹورینٹ میں کھا نے سے لے کر شاپنگ کر نے تک عوام کاروباری طبقہ کو مجبور کریں وہ ٹیکس ادا کر کے قومی خزانہ کی آسودگی کا باعث بنیں۔

عملایہ سردجنگ گذشتہ کئی سالوں سے مذاکرات کی میز پر لڑی جارہی ہے ۔
ترقی یا فتہ ممالک میں بنیادی حکو متیں ریڑھی بان ، خوانچہ فروش سے لے کر پرچون فروش تک سے ٹیکس وصول کر تی اور اسکو عوامی فلاح کے لیے استعمال کر تی ہیں۔ ہمارے ہاں عہد ایوبی میں اک ریڑھی بان کو بھی کارپوریشن کی طرف سے نمبرآلاٹ کر دیا جاتا اور رسید تھماد ی جاتی تھی وہ ماہانہ کی بنیاد پر ٹیکس اد ا کر تا تھا ۔

اس مشق کو اب بھی جاری کیا جا سکتا ہے لیکن جو تحفظات تاجر برادری کے ہیں وہی خوانچہ فروش کے بھی ہو سکتے ہیں کہ ٹیکس کی مد میں ادا شدہ رقم سرکار کے خزانے کی بجائے مخصوص افسران اور اہلکاروں کی جیب میں چلے جا تی ہے ۔
مغربی ممالک گذشہ کئی دہائیوں سے ٹیکس اکٹھا کرنے کی کامیاب مشق کر رہے ہیں اور انکی معیشت کا بڑا انحصا ر ٹیکس وصولی پر ہی ہے اس کے نتیجہ میں عوام کو سہولیا ت بھی فراہم کی جا رہی ہیں ۔

عوام کا اک بڑا طبقہ اب اسکو بوجھ خیال کر رہا ہے اسکی رائے یہ ہے کہ ٹیکس کٹو تی کے عوض انھیں وہ تمام تر سہولیات میسر نہیں ،جو اک فلاحی ریاست میں ناگزیر ہیں ،لیکن ٹیکس کی ادائیگی کے بعد باقی ما ندہ رقم سے زندگی اور روح کا رشتہ برقرار رکھنا ناممکن سا ہو جاتا ہے ۔اور شہری کوہلوں کے بیل کی طرح زندگی بسر کر نے پے مجبور ہو رہا ہے ۔ٹیکس کی کٹو تی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی کو کھ سے پیدا ہوئی ہے جس سے کاروبار مملکت چلایا جاتاہے ،جب بچت ہی کم ہو جائے گی تو پھر عام فرد کہاں سے سرمایہ کاری کر پائے گا اس کے مقابلہ میں جن کے ذرائع آمدنی زیادہ ہیں وہی دولت سے دولت کما کر سرمایہ کا ر ٹھہریں گے، جس سے احساس محرو می پیدا ہو نا لازمی امر ہے ۔

اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ ٹیکس کی کٹوتی کے با وجود سماج امیر اور غریب طبقات میں تقسیم ہو تا ہے تو بے جانہ ہو گا۔ ہمارے ہاں ٹیکس کٹوتی کی بابت بد اعتمادی کی اس فضاء کو ختم کرنے کا اک نادر نسخہ آز مانے میں کوئی حرج نہیں ہے جسکا ذکر ذیل میں آرہا ہے ،دو لت مند طبقہ کو آگر ایسامصرف بتادیاجائے کہ جس کی ادائیگی کو وہ بخو شی قبو ل کر لے اور اس کے نتیجہ میں اک فرض کی ادائیگی ممکن ہو اور اس سے انسانیت کا بھی بھلا ہو اور اسکا اجراسے اخروی زندگی میں بھی مل سکے تو وہ اسکی ادائیگی کو بوجھ تصورنہیں کرے گا۔


ہماری ناقص رائے میں سرکار کو زکو ةٰ اور عشر کا ایک مربوط نظام وضع کر نا چاہیے جس میں سیاسی مداخلت قطعی نہ ہو ، تجر باتی طور پر سرکار کسی ایک خطہ ، علاقہ، یو نین کونسل کو بنیاد بنا کر اس میں سے ٹیکس کی بجائے کسانوں سے عشر، کاروباری طبقہ سے زکوةٰ وصول کر ے تو گمان ہے کہ ہمارے معاشی حالات میں خاطر خواہ تبدیلی آسکتی ہے اس مشق کی کامیابی کے بعد اسکو ملک کے بڑے حصہ میں نافذ کر دیا جائے اسکی کٹو تی ترسیل اور تقسیم کا نظام بڑا ہی شفاف ، قابل عمل ہو، اس ضمن میں دانشور طبقہ، جید علما ء کرام ،مفتی صاحبان کی خدمات بلا امتیا ز حاصل کی جاسکتی ہیں اور سیاست سے با لا تر ہو کر انھیں ٹاسک دیا جا ئے وہ زکوةٰ اور عشر کا ایسا نظام وضع کر دیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو ۔

سرکار اک ایسا سافٹ وئیر بھی وجود میں لائے جسکی بدولت عام شہری ، تاجر اور اہل نصاب کو زکوةٰ اور عشر کی شرح کی ادائیگی سمجھنا انتہائی آسان ہو ۔ خلفائے راشدین کے دور میں جبکہ ذرائع نقل وحمل اتنے جدید تھے نہ ہی وسائل، اس وقت بھی یہ نظام اس کرہ ارض پے موجود تھا اور اسکا عام مسلم ہی کو نہیں بلکہ غیر مسلم کو بھی فائدہ مل رہا تھا ۔
مغربی ممالک سیاسی پناہ اور تحفظ کے نام پر” اجنبیوں “کی اجرت سے بے پناہ ٹیکس کاٹ لیتے ہیں ۔

اور انھیں اپنے شہر یوں کے ہم پلہ نہ تو روز گاری کی سہو لیات فراہم کر تے ہیں اور نہ ہی رہا ئش اور پوشاک کی۔ یہ اپنی صلاحیتوں کاخراج اد ا کر تے کرتے اولڈ ہاوسز پہنچ جاتے ہیں ۔وہ معاشی ادارے جو ہماری مالی معاونت کر تے ہیں وہی بھاری بھر ٹیکس کی وصولی کا درس دیتے ہیں تاکہ ان کے قرضوں کی ادائیگی ہو تی رہے انہوں نے اسی نظام کو دیکھا ہے جبکہ اسلامی معاشی نظام میں زکوةٰ اور عشر کانظام کسی فرد کی ایجاد نہیں یہ الہامی اور حکم خداوندی ہے اس میں غلطی کی گنجا ئش ممکن نہیں البتہ اسکا انحصار ہمارے اخلاص پر ہے کہ ہم اس نظام کو قابل عمل بنانے میں کتنی کاوش کر تے ہیں لیکن اسکا نفاذ تبھی ممکن ہے جب ہم مغرب کے ٹیکس کے نظام سے رو گردانی کریں،عا لمی مالیاتی اداروں کی ناراضگی مول لیں، ریا ست مدینہ جس کے قیام کا بیڑہ سرکار نے اٹھا یا ہے ۔

اس میں زکوة اور عشرکا نظام نافذالعمل رہا ہے کیا اب بھی کسی اور شہادت کی ضرورت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :