زر تلافی

اتوار 8 ستمبر 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

من ریت سودھی مصنفہ نے پٹھا ن جیسی شخصیت کے بارے میں کہا ہے کہ آپ پیار سے اسے دوزخ میں بھی جانے پر آمادہ کر سکتے ہیں لیکن طاقت کے استعمال سے یہ جنت میں جانے سے بھی انکار کر سکتا ہے، انکا اشارہ اہل افغانستان کی طرف ہے جس سر زمین پے تین بڑی سپر پاور نے حملہ آور ہونے کی حماقت کی اور بدترین شکست تینوں کا مقدر ٹھہری ، نہتے پشتونوں نے برطانیہ اور روس کو ناکوں چنے چبوائے اور اب امریکہ ذلت آمیز انداز میں راہ فرار اختیار کرنے کی کاوش میں مصروف ہے مسٹر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ وہ ناکامی کا ” میڈل“ گلے میں ڈال کر واشنگٹن داخل نہ ہوں ،مذاکرات کے نام پر کچھ لو اور دو کی پالیسی اپنا کر اہل امریکہ کو رام کر نے کی کاوش کی جائے وہ اس قیادت سے اپنی فوج کا تحفظ چاہتے ہیں جو کل تک اس کی نظر میں دہشت گرد قرار پائی تھی، جھوٹے پروپیگنڈے کے نام پر انکل سام نے نہ صرف پورے عالم کو گمراہ کیا بلکہ امت مسلمہ کو بڑے جانی اور معاشی نقصان سے دوچار بھی کیا ، معصوم اور بے گناہ افغانیوں پر بم بر سائے ، طاقت کے نشے میں بد مست ہاتھی کی طرح چڑھ دوڑ ا تھا تواسے یہ انداز ہ نہیں تھا کہ عبرت ناک ناکامی تاریخ کا حصہ بنے گی اس کے بحری بیڑے، جدید جنگی آلات، انسانی جذبوں کے سامنے سرنڈر کر گئے ،تمام اتحادی افواج جو صرف کمزور ممالک پے حملہ آور ہونے ہی کو بہادری سمجھتے تھے انکی طاقت کی بھی قطعی کھل گئی گمان یہی ہے کہ اب نہ تو اقوام متحدہ ان گماشتوں کو” قیام امن “کے نام سے حملہ آور ہونے کاپر وا نہ جاری کرے گا نہ ہی یہ خود حو صلہ پائیں گے ۔

(جاری ہے)


افغانستا ن میں جن قو توں نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو کندھا فراہم کیا تھا وہ بھی اپنے اقتدار کو کا بل سے باہر نافذ نہ کر سکے انہیں بھی قلق ہے کہ انکی رضامندی کے بغیر مزاکرا ت کی محفل سجائی جارہی ہے ۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ گفت و شنید کے مثبت نتائج بر آمداور ، طالبان بھی سرخرو ہوں گے ۔ تاہم اس خیر سے شر بھی برآمد ہونے کے بھی امکانات واضع ہیں، بعض حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اتحادی افواج کے انخلاء کے بعدطالبان کی قیادت بلاشرکت غیرے اس سر زمین پے پوری طاقت سے اقتدار حاصل کر نے کی سعی کر ے گی ،وہ ااس وقت افغانستان کی یونٹی حکومت کو خاطر میں نہیں لا رہی نہ ہی ان کے ساتھ بات چیت پے آمادہ ہے ان حالات میں پھر سے سول واربڑھنے کے امکانات پیدا ہوں گے ،افغانی سماج کیلئے یہ بڑا ہی تکلیف دہ مر حلہ ہوگاغربت کے نیچے دبی عوام اور معیشت دونوں متاثر ہوں گے۔


 افغان سماج گذشتہ کئی دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے جسکے اثرات تمام طبقات پے مرتب ہوئے ہیں لیکن خوش قسمتی سے اللہ تعالیٰ نے اسکو نسل نو کی وہ افرادی قوت عطا ء کی ہے جو باصلاحیت ، تنو منداورمحنتی ہے وہ کسی بھی کام کے کرنے کو عار نہیں سمجھتی ۔ اک محتاط انداز کے مطابق دو تہائی آبادی نو جوانان قوم پے مشتمل ہے ، بدقسمتی سے اس نے جنگ و جدل کے ماحول میں آنکھ کھولی ، تاہم عالمی سطح پربد لتے حالات سو،شل میڈیا کی موجودگی ، جدید ذرائع ابلاغ نے اس کی فکر اورسوچ کو بدل دیاہے ۔

نوجوا نان کو 2002ءء سے انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب ہے، کم و بیش دس لاکھ صارفین فیس بک سے وابستہ ہیں ، ٹیوٹر ، انسٹاگرام تک بھی انکی دسترس میں ہیں۔
 اقوام متحدہ کی قرار داد 2250کے تحت عالمی برادری نے افغانی ذمہ داران سے کہا ہے کہ وہ قومی اہمیت کے فیصلہ جات میں نوجوانان کو بھی شامل کریں ۔ کچھ عرصہ قبل ہلمند سے کابل تک نوجوانان قوم نے بغیر جوتوں کے امن کی بحالی کیلئے مارچ کیا ہے اس طرح کابل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی کاوش سے قومی” امن کانفرنس “بھی انعقاد پذیر ہوئی ہے جس میں جامعہ کے طلباو طالبات نے“ کلچر آف پیس” کو پروان چرھانے کی ضرورت پر زور دیاہے، اطلاعات کے مطابق دو روزہ کانفرنس میں قانون کی حکمرانی ، گڈ گورننس اوراحتساب جیسے موضوعات زیر بحث رہے ۔


افغانستان کا نیا آئین بھی وجود میں آ چکا ہے اور شہری حقوق کی مکمل ضمانت دیتا ہے، یہ ریاست معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے اسکی جغرافیائی اہمیت مسلمہ ہے یہ دو بڑے بر اعظموں کی ریاستوں کے درمیان واقع ہے ہر چند اسکی خواندگی انتہائی کم ہے جسکی وجہ بدامنی اور محدود وسائل ہیں تاہم قابل تحسین یہ ہے کہ نسل نو گو لہ بارود کی فضاء سے نکل کر خوشگوار ماحو ل میں زندگی بسر کرنے کی آرزو مند ہیں ۔

لیکن دستیاب حالات بڑے کٹھن ہیں ۔سماج بھی امیر اورغریب کی بنیاد پرمنقسم ہے زیادہ طا قتور ہی بڑا سرمایہ کار ہے ،وار لارڈزکی اپنی دنیا ہے، قانون کی عدم حکمرانی کے سبب نو جوانا ن کیلئے راستہ بنانا ذرا مشکل ہے، اگر جزبے سچے ہوں تو منزل مل سکتی ہے انکی خواہش ہے کہ وہ اپنا سفر خود کفالت کی جانب شروع کریں، اس کیلئے انھیں مالی ،اخلاقی اورسیاسی معاونت کی از حد ضرور ت ہے ۔


اس میں دو رائے نہیں کہ طالبان افغانستان کی اک بڑ ی سیاسی قوت ہیں انھیں عوام کا اعتماد بھی حاصل ہے بعض علاقہ جات پرانکی حکو مت قائم ہے انکی طاقت سے تواب زمانہ لرزچکا ہے توا نکے ناتواں کندھوں پربھاری ذمہ داری ہے کہ وہ نسل نو کی موجودگی کا فائدہ اٹھاکر انہیں قومی اہمیت کے فیصلہ جات میں جگہ دیں، تعلیم یافتہ طبقہ کی خدمات حاصل کر تے ہوئے معاشرہ میں امن کے کلچر کو فروغ دیں خواتین کی تعلیم اور ترقی پرتوجہ دیں ۔

تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں، عالمی تنظیموں کو کام کرنے کا موقع دیں تاکہ سماجی دھانچہ قائم ہو، باہمی مشاورت سے کوئی سا بھی طرز حکومت اپنا لیں۔ ماضی کے ماحول نے نسل نو بیرو ن ملک پناہ لینے پرمجبور کر دیاتھااک انداز ے کے مطابق کم و بیش78ممالک میں افغانی شہری پناہ گزیر ہیں ان میں بعض سیاسی پناہ کے متلاشی بھی ہیں ۔
حالیہ سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اک تہائی آبادی ملک کو خیر آبادکہنے کیلئے بے تاب ہیں ،طالبا ن نے میدان جنگ میں فتح کاجھنڈا گاڑھ دیا ہے تو اسے مذاکرات کی میزپر جانی مالی نقصان کی زر تلافی کا مطالبہ بھی کر ناچاہے ،جرمنی کی جانب سے یہودیوں کو حر جانہ دینے کی روایت موجود ہے ۔


عالمی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سماج کی ترقی کیلئے تعلیم یافتہ طبقہ کے ہاتھ مضبوط کر ے، نواجوان کی مثبت سوچ اورفکر کی پذیرائی کی جانی چاہیے، بھاری بھر سرمایہ امن کے نام پر شہریو ں کی ہلاکت اور جنگ و جدل پے خرچ کیاجا سکتا ہے تو تعلیم کے فروغ کیلئے کیوں صر ف نہیں ہو سکتا ؟۔عالمی برادری نے ان کے خلاف طاقت استعمال کر کے دیکھ کی ہے اب ذرا پیار کر کے آزمالیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :