ایڈ یا ک ازم

پیر 16 ستمبر 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

جب بھی کسی پاکستا نی نثراد طالب علم کی کامیابی کی خبر دیار غیر سے ملتی ہے تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے ان میں وہ گو ہر نایا ب بھی شامل ہیں جو یہاں کے پسماندہ علاقہ جات سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ان طلباء و طالبات میں نمایاں پوزیشن حاصل کر تے ہیں جن کے ہاں مثالی نظام تعلیم موجود ہے اس میں اپنی جگہ بنانا اوران سب کو مات دینا کسی بڑی” بریکنگ نیوز“ سے کم نہیں ہر چند انہیں زبان کے مسائل سے بھی سابقہ پیش ہو گا ۔

اللہ تعالیٰ نے ارض پاک میں بہت ہی باصلاحیت ، ذہن فطین انسان پیدا کیے ہیں جو بیرون ملک اپنی قابلیت کا لوہا منواتے ہیں ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ان ترقی یافتہ ممالک کا نظام تعلیم ہی انکی صلاحیتوں کو جلاء بخشا ، انہیں جدید رجحانات سے روشناس کرا تا ، ان کے وژن کو نمایا ں کرتا ، سوچنے اورسمجھنے کی قوت کو دو بالا کر دیتا ہے اور وہ بد یشی ماحو ل ہی میں رہ کر اول پوزیشن حاصل کر کے عالمی ریکارد بنا ڈالتے ہیں ۔

(جاری ہے)

اس نوع کی سر گرمی کو دیکھ کر یہ سوال ضروو پیدا ہو تا ہے کہ اغیار کے دیئے ہوئے نظام تعلیم میں کونسا سقم ہے کہ ہمارے ہاں طلباء طا لبات کی تعلیمی کارکر دگی قابل رشک دکھائی نہیں دیتی ہماری ڈگریوں اور سر ٹیفکیٹس ، ڈپلومہ کو بیرو ن ملک شرف قبو لیت حاصل نہیں ہو تا ۔ بسلسلہ رو ز گار یا اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے جانے والے طلبا ء طالبات کو مسا بقت کیلئے پھر کسی نہ کسی امتحانی مر حلہ سے گزر نا پڑتا ہے ۔

اس سر زمین میں آخر کس چیز کی کمی ہے یہاں عالمی ریکارڈ قائم کر نے کی کو ئی روایت سرے سے ہی دکھائی نہیں دیتی ۔ ہمارے طلبا و طالبات دیا ر غیر علم کی پیاس بجھانے کیلئے رخت سفر تو باندھتے ہیں لیکن وہاں سے طلباء ہمارے اداروں کا رخ نہیں کرتے کیا اسکی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم ہی ہمیشہ سے تختہ مشق بنتا آیاہے یہی روایت تا حال جاری ہے۔


 ہماری بد قسمتی دیکھیے ہم تاحال طے نہیں کر سکے کہ درس و تدریس کیلئے کونسی زبان کو اہمیت دینی ہے؟ طریقہ تدریس کیا ہو گا، انتظامی طور پر اداروں کی حوالگی، نصاب میں تبدیلی ، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ این ۔ جی ۔ او ز کی مداخلت نجانے کتنے رو گ ہیں جو اس نظام کے ساتھ نتھی ہیں ۔
اب تو یہ عالم ہے کہ پرائیویت تعلیمی اداروں کی فیس طے کر نے کیلئے عدالت عظمیٰ کو مداخلت کر نا پڑی ہے، عوامی سطح پر یہ تاثر بھی پختہ ہو رہا ہے کہ تعلیم ہی وہ واحد تجارت ہے جس کے زینے پے قدم رکھ کر آپ” اشرافیہ“ کی کلاس میں داخل ہو سکتے ہیں ۔

وفاقی وزیر تعلیم نے گذشتہ دنوں اک با ر پھر مژدہ سنایاہے کہ بتدریج یکساں نظام نافذ کر دیا جائے گا، پنجاب کی سطح پر کلاس پنجم تک طریقہ تدریس بھی بدل دیاگیا ہے تمام مضامین قومی زبان میں پڑھائے جانے کا حکم نامہ صادر ہو ا ہے ، لیکن عوامی سطح پر قائم ان گنت ادارے ہیں جو بد یشی زبان میں تعلیم دینے کو اپنا فخرمحسوس کرتے ہیں ان میں سماج کے اسی طبقہ کے بچے زیر تعلیم ہیں جنکا تعلق خواص سے ہے ۔

اب بڑی کلا سز میڈیکل اورانجینئر نگ و دیگر سماجی علوم کے ایسے ادارے وجود میں آگئے ہیں ۔ جہاں تعلیمی اخراجات کا بوجھ عام شہر ی برداشت کرہی نہیں سکتا دوسری طرف عالم یہ ہے کہ بھاری بھر نمبر حاصل کرنے کے باوجود طبی تعلیمی ادارہ جات میں طلباء و طالبات کاداخلہ ہی ممکن نہیں اسکی بڑی و جہ نشستوں کی کمی ہے، بڑھتی ہو ئی آبادی کے ساتھ سرکار نے انکے اضافہ کی ضرور ت ہی محسوس نہیں کی اب تلک جتنی بھی حکومتیں بر سراقتدار آئی ہیں تعلیم کا شعبہ کبھی بھی انکی ترجیح نہیں رہی انھوں نے ایڈیاک ازم کے راہنماء اصول ہی پیش نظر رکھے ہیں اور اس نظام کو اس امداد سے سے ہانکنے کی بھو نڈی کاوش کی ہے جو عالمی اداروں سے ملتی رہی ہے کسی بھی حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کو ضرور ی نہیں سمجھا اسکی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی کہ اس بوجھ کو اپنے کندھوں سے اتار کر پرائیویٹ سیکٹر پے ڈال دیا جائے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معیار تعلیم میں بھی خا صی کمی آچکی ہے، جس کی جھلک مقابلہ جات کے امتحان نتائج اور ریمارکس میں دیکھی جا سکتی ہے ۔

عمومی تاثریہ ہے کہ رٹا پر مبنی طریقہ تدریس ہی کا فیض ہے کہ عام طالب علم کی تخلیقی صلاحیت میں کمی کا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے کتاب بینی کی روایت ویسے بھی دم توڑ رہی ہے جس کے باعث اخلاقی اقدار بھی زوال پذیر ہیں ۔
براد ر عزیز عامر اصغر مانچسٹر رہائش پذیر ہیں انکی بیٹی روئل اصغر اور فرزند عیسیٰ اصغر وہاں ابتدائی کلاسز میں زیرتعلیم ہیں ان سے گفتگو کے بعد یہ اندازہ تو ضرور ہو تاہے کہ انہیں اس علم کی سمجھ بوجھ ضرور ہے جو وہ حاصل کر رہے ہیں ۔

حلقہ احباب میں سے سلطان محمود جو اہل خانہ کے ساتھ امریکہ شفٹ ہو گئے گذشتہ دنوں پاکستان آمدپر ان سے وہاں تعلیمی ، تدریسی نظام پر اظہار خیال ہوا تو گو یا ہوئے کہ سکو ل کی سطح پر ہی ریسرچ کلچر کو پروان چڑھا یا جاتا ہے ۔ فرمانے لگے ان کے بیٹے فہد کو کلاس نہم ہی میں اک رپورٹ لکھنے کو دی گئی جس کا تعلق نصاب مگر عام مشاہدے سے تھا ۔میڈیا کی وساطت سے آنے والی رپورٹ ، ڈاکو منٹری سے عیاں ہوتا ہے کہ طلبا ء طالبات میں اس مہم کو اجاگر کر نے کی کاوش کی جاتی ہے جو فطری ضرورت ہے علاوہ ازیں نصاب پر مبنی گیمز تیار کی جاتی ہیں تاکہ کھیل ہی کھیل میں طلباء کی لرننگ ہو جائے ۔

رٹا بازی کی نسبت ان کے Conceptکو واضع کر نے کی حتی المقدور کاوش کی جاتی ہے ۔ہمارے ہاں بھاری بھر نصاب کے بو جھ تلے طلبا و طالبات دب جاتے ہیں انہیں ابتدائی کلاسز میں ان گنت مضامین کو پڑ ھنا پڑتا ہے لیکن وہ ان کے مفہوم سے عاری ہو تے ہیں۔    
 مقام حیرت ہے کہ موجود ہ سرکار جس نے ہر شعبہ ہائے زندگی میں بلند با نگ دعوے کیے تھے اس نے بھی تعلیم جیسے بنیادی اورحساس ادار ہ کو نظر انداز کر دیا ہے ۔

اب تو زد عام ہے کہ اگرآپ امارت چاہتے ہیں تو شعبہ تعلیم کو اپنا لیجیے، اس سے بڑھ کرکوئی کارو بار نہیں ۔ یہ پرائیویٹ اداروں کا حال نہیں سر کاری اداروں میں بھی بھاری بھرواجبات وصول کیے جارہے ہیں اب تو عالم یہ ہے کہ جامعات ” کما ؤ پتر“ بنانے کی پالیسی اپنائی جارہی ہے ۔ماضی میں نصاب میں مرکز یت مضمون کو حاصل تھی فی زمانہ نصاب میں طالب علم اورعملی مہارت کو فوقیت حاصل ہو نی چاہیے تھی مگر اسکی کوئی شکل سا منے نہیں آرہی ہمارے مقابلہ میں ہندو ستان کی نسل نو فنی اعتبار سے ، مہارت اور جدید علوم سے آراستہ ہیں اوراسکی وساطت سے نہ صرف روز گار حاصل کر رہے ہیں بلکہ بھاری بھر زرمبادلہ بھی ۔

نجانے ہم کب خواب غفلت سے بیدار ہوں گے ہماری سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ کوئی مستند تعلیمی پالیس بنانے میں ہم تاحال نا کام رہے ہیں اور حسب روایت اس شعبہ میں ایڈیاک ازم ہی دکھا ئی دیتا ہے جو ہمارا قومی وطیرہ ہے ۔ چند اداروں کی کامیابی جامع نظام تعلیم کا عکس قرار نہیں دی جا سکتی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :