تو جہ طلب

اتوار 6 اکتوبر 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہم اپنے تجر بہ کی بنیاد پر یہ کہنے میں حق بجا نب ہیں کہ آپ کسی بھی تعلیمی ادار ہ کا رخ کریں ، کسی بھی کلاس سے پوچھیں یا لا ئبریری میں قدم رنجہ فرمائیں اور طلبا ء طالبات سے سوال پوچھیں کہ آپ میں سے کون کو ن روزانہ کی بنیا د پر مطالعہ اخبار کر تا ہے تو آپکو جو اب سن کر انتہائی مایوسی ہو گی ، طلبا ء و طالبا ت کی غالب اکثر یت کا جواب نفی میں ہو گا ۔

حالانکہ اخبار ہی وہ میڈیا ہے جس میں زندگی کے تمام شعبہ جات سے متعلق آپ کو معلومات انتہائی ازاں نرخو ں پے دستیا ب ہو تی ہیں۔ آپ کی دلچسپی سیاست ، ادب ، تاریخ ، معیشت ،آرٹ ، سپورٹس، فنون لطیفہ ، مذہب ، اخلاق ، قانون ہی سے کیوں نہ ہو یہ اخبار ہی آپکو ان موضوعات کا بنیادی لٹریچر فراہم کر نے میں کارساز ہو تا ہے، ورنہ بھاری بھر سرمایہ خرچ کر کے ہمیں ان کتب تک رسائی حاصل کر نا پڑتی ہے ۔

(جاری ہے)

مطالعہ اخبار ہی کتب بینی کے ذوق کو پر وان چڑھا تا ہے ہماری ذہن سازی کر تا ہے، رائے عامہ ہموار ہوتی ہے، عالمی حالات سے واقفیت اسی کے ذریعہ ممکن ہے ، جب تعلیمی اداروں میں نا گفتہ بہر صورت حال ہو تو پھر ہم عام شہری سے اس کے مطالعہ کی توقع کیسے کر سکتے ہیں ۔
ہماری غالب آبادی دیہاتوں میں مقیم ہے وہاں تو اخبار پڑھنے کا تصور سر ے سے ہی نہیں ، اگر کسی مقام پے کوئی پڑھا لکھا فرد موجود ہو تو وہ ذاتی طور پر ہر ایک آدھ اخبار اپنی ضرورت کیلئے خرید کرتا ہے یا کسی دوکاندار کی ضرورت ہو تو وہ اسے خرید کر” اجتما عی مطالعہ“ کی سہولت فراہم کر تا ، اک عوامی تاثر یہ بھی ہے کہ اخبار پڑھنے سے بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے اس میں خبریں ہی کچھ اس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ غم زدہ کر تی ہیں ، مایوسی پھیلا تی ہیں ، لڑائی جھگڑے کی بنیاد بنتی ہیں اور اسے ہوا دیتی ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ایک جیسی خبریں بوریت بھی پیدا کر تی ہیں اس رائے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے ہمارے ہاں اخبارپڑھنے کا کلچر نہ ہونے کے برابر ہے ، اردو اخبار تو پھر بھی عام طبقات میں پڑھا جاتا ہے لیکن انگریزی اخبار محض محدود اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کے زیر مطا لعہ رہتا ہے اسکی ما لیت دیگر اخبارات سے کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔

ہمارے مقابلہ میں ترقی یافتہ ممالک میں اخبار پڑھنے کا رجحان زیادہ ہے گھروں ، ریسٹورانوں ، ہوٹلوں ، اور دوران سفر باقاعدہ مطالعہ اخبار کا ذوق پایا جاتا ہے ۔
جب سے انفار میشن ٹیکنا لو جی نے اپنا لو ہا منوا یاہے اخبار پڑھنا بھی قدرے آسان ہوگیا ہے ۔ اب آپ انٹر نیٹ کے ذریعہ گھر بیٹھے دنیا جہا ں کے اخبارات کا مطالعہ کر سکتے ہیں لیکن یہ بھی تبھی ممکن ہے اگر آپ کے پاس انفار میشن ٹیکنا لوجی سے مستفید ہو نے کے تمام لوازمات موجود ہیں ،اس طرز کا مطا لعہ بھی اخبار کی اشاعت کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

اک زمانہ تھا جب ہمارے تعلیمی اداروں کی لائبریریاں آباد ہو ا کر تی تھیں ٹائم ٹیبل میں باقاعدہ اسکا پیریڈ رکھا جاتا ہے اور طلباء و طالبات اس میں جانے اور وہاں مطالعہ کر نے کے پابند ہوا کر تے تھے، آہستہ آہستہ سنہری روایت دم تو ڑ گئی اب نہ انتظامیہ کی اس میں کوئی دلچسپی رہی نہ ہی طلبا و طالبات میں مطالعہ کا شوق و ذو ق رہا ، سوشل میڈیا نے انھیں مطا لعہ کی نئی جہت اور سمت عطا کر دی ہے ہمارے سماج میں اخباری مطا لعہ جو پہلے ہی انتہائی محدود تھا اب سوشل میڈیا کی موجودگی میں اس میں شدید کمی آئی ہے حالانکہ سوشل میڈیا اور اس پے موجود مواد کسی طور پر بھی کسی اخبار یا کتاب کا نعم البدل نہیں ہو سکتا ۔

یہ لٹریچر اورمعلومات انتہائی سطحی قسم کی ہو تی ہیں جن کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں کوئی حتمٰی رائے قائم نہیں کی جا سکتی عمومی طورپر اخبار میں خبریں پڑھنا ہی مطالعہ اخبار تصور کیا جاتا ہے لیکن اصل مطالعہ تو کالم، اداریہ ، مضامین ، فیچر ، انٹرویو،شذرات پڑھنا ہے جو قاری کے علم میں اضافہ کا موجب بنتا ہے، اس سے آئندہ کے حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔

ان دنوں قریبا ً تمام اخبارات بڑے بحرانوں سے گزر رہے ہیں جس کے منفی اثرات ان کے مالکان سے زیا دہ ملا زمین ، صحافی حضرات پر مر تب ہو رہے ہیں بیک جنبش قلم انہیں ملازمت سے فارغ کیا جا رہا ہے بعض اپنے تحفظ کیلئے عدالت درپے دستک بھی دے رہے ہیں مگر نا خوشگوار فضا جنم لے رہی ہے اس گرانی کے دور میں کسی سے روز گار چھیننا کسی بڑے سانحہ سے کم نہیں ہے، کسی بھی صحافی کی بنیادی ضروریات وہی ہیں جو کسی سرکاری محکمہ میں کام کرنے والے دوسرے ملازم کی ہیں ، انکی غالب اکثریت اب اس عمر کو پہنچ چکی ہے کہ اب انہیں دوسرا روزگار ملنا قریبا ً نا ممکن ہے ہرچند کہ انکی اپنی اپنی ایسو سی ایشن موجود ہیں جوان کے تحفظ کیلئے صدا حق بلند کر تی نظر آتی ہیں لیکن کسی بھی اخبار کی ڈوبتی ناؤ پے اخباری کارکنان کابوجھ اخباری مالکان کو بڑا ہی ہی ناگوار گزرتا ہے باوجو د اس کے ان نامسد حالات میں بھی باقاعد گی سے انہیں اشتہارات بھی مل رہے ہیں ، لیکن وہ سابقہ آمدنی کے تقا بلی جائزہ کی وجہ سے کم آمدنی کو اپنے ما لی خسارے سے تعبیرکر رہے ہیں ۔

 
ہماری جمہوریت کی بد قسمتی ہے کہ ہر سر کار ان اشتہارا ت کی تقسیم کو اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتی ہے اخبار کو اگرچہ صنعت کادرجہ حاصل ہے لیکن اس کو اپنے قدموں پے کھڑا کرنے میں سرکا ر کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے دوسری بڑی وجہ الیکٹرانک میڈیا ہے جس نے تازہ تا زہ کی بنیاد پر سر کا ر کی” حمایت“ کا خاصا سامان فراہم کر رکھا ہے اس میدان میں پسند اور نا پسند کے پیمانے بھی رائج ہیں ۔

بحیثیت شہری اک عام صحافی کی جب بنیاد ی ضروریات ہی پوری نہیں ہو گی ، اسکو ہر دم روزگار کا دھڑکا لگا رہے گا تو اس کی پر یشانی میں اضافہ لازمی امر ہے، وہ روزی ،روٹی پیدا کرنے کیلئے تما م ذرائع استعما ل کرنے پے مجبور ہوگا ، جس طرح پوراسماج وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کاشکارہے اس طرح صحافی برادری میں یہ طبقات صا ف دکھائی دیتے ہیں ان کی اک عمر ویج بورڈ کے اطلاق کے انتظار میں گذری ہے، بنیاد ی ضروریات کی فراہمی ریاست کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔

 صحافی برادری بھی اس معاشرہ کاحصہ ہے ، انکے بیوی، بچوں کی ضروریات اورجذبات اسی طرح ہیں جس طرح افسرشاہی ، عدلیہ اورعسکری قیادت سے وابستہ افراد کے بیوی، بچوں کے ہیں ۔فراہمی روزگار کی دعوی دار سرکار کی ناک کے نیچے ہزاروں اخباری کارکنان اورصحافی بیروزگار ہور رہے ہیں ۔ جس سے نہ صرف انکی گورننس کی قلعی کھل رہی ہے بلکہ بے روزگاری میں خاطر خواہ اضافہ ہورہاہے ، سرکار کے ناتواں کندھوں پے ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صحافتی تنظیموں، اخباری مالکان سے مشاورت کر کے اخباری صنعت کو دوام بخشے اخبارات کی بندش سے اک منفی پیغا م پورے عالم میں جائے گا ، جہاں پہلے ہی مطا لعہ اخبار کا کوئی ذوق نہیں وہ مزید دم توڑ جائے گا ۔

 اخباری مالکان کو بھی اپنی پالیسی اور اشاعت کا جائز ہ ضرور لینا چاہیے کہ وہ اپنے اپنے اخبارات کو عوام میں مقبول عام کرنے میں
 کیوں ناکام رہے کیا اسکی بڑی وجہ بھاری بھر اشتہارات کے ساتھ چندخبروں کی اشاعت تو نہیں ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :