ریلیف

پیر 18 نومبر 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

یہ اس زمانے کی بات ہے جب ذرائع مواصلات اتنے جدید نہیں تھے، تاج برطانیہ کا راج تھا،اس دور میں میرے دادا چوہدری اللہ داد خاں جن کا خمیر گجرات کے گاؤں عموآنہ سے اٹھا تھا، انھیں بعض ناگزیر وجوہات پر وہاں سے ضلع وہاڑی کے دیہات 190/W.B ہجرت کرنا پڑی ان پڑھ ہونے کے باوجود انھوں نے اپنی اولاد کو پڑھایا جس دور میں لارڈ صاحب ہاتھ دیکھ کر زمین دیا کرتے تھے انھوں نے نقد رقم دے کر25 ایکڑ زمین خریدی، ان کے بڑے بیٹے ہمارے تایا جی چوہدری اسماعیل نے برطانوی فوج میں ملازمت کی اور دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا ،صوبیدار میجر کی حثیت سے ریٹائرڈ ہوئے، انکی ملازمت کے دوران داداجی کی گاؤں میں برادری کے چند افراد کے ساتھ کسی بات پر ان بن ہوگئی وہ دادا جی کو تنگ کرتے، فوج کے ملازم ہونے کی بنا پر انھوں نے درخواست گزار کی،اس عہد میں گڑھاموڑ جو کہ معمولی مقام تھا آج بڑا کاروباری مرکز ہے وہاں تھانہ مترو کے تھانیدار نے فریقین کو طلب کیا اور معاملہ رفع دفع کروادیا،ہزاروں میل دور بیٹھی انتظامیہ نے اپنے ملازم کی قدر یوں کی محض اک درخواست پر کاروائی کرنے کو انپی” گوورننس“ خیال کیا،آج بھی بڑے بزرگ انگریز بہادر کے طرز حکومت کی تعریف کرتے دکھائی دیتے ہیں عوامی داد رسی ہی نے ان کے اقتدار کو طوالت بخشی،ہر چند کہ اس حکومت کا کام ہی سرکاری وسائل پر قبضہ کرناتھا ۔

(جاری ہے)


 نواب آف کالا باغ سے سیاسی اختلاف کی گنجائش تو موجود لیکن ان کی گوورننس کا بھی شہرہ رہا،اک بڑے علاقہ پے انکی رٹ دکھائی دیتی تھی،مذکورہ بالا واقعہ رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فی زمانہ نہ تو سرکار کی رٹ کہیں دکھائی دیتی ہے نہ ہی عوام کا کوئی پرسان حال ہے،تاج برطانیہ ہی کے قائم کردہ دفتری نظام میں فائل کو” پہیہ“ لگانے کی اصطلاح کو ایجاد کر کے ہم نے چند افسران اور اہلکاروں کی معاشی ترقی کی راہ ہموار کی جو اب” نذرانہ“ کی شکل میں حق تسلیم کیا جانے لگا ہے ،اب کوئی فائل بغیر پہیہ کے دفتر کی ایک برانچ سے دوسری میں حرکت نہی کرتی ،سائل کو بھی اس کے ساتھ سفر کرنا پڑتا ہے، کیا آج کوئی عام شہری یہ تصور کر سکتا ہے کہ محض اک درخواست دینے سے اس کو ریلیف مل سکے گا؟ پردیس میں بیٹھے ہزاروں اہل وطن قبضہ مافیہ کے ہاتھوں لٹتے رہے،ہر فورم پر انھوں نے صدائے احتجاج بلند کی،شنوائی نہ ہونے پر چپ سادھ لی، رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی کافی گنجائش موجود ہے لیکن دفتری نظام آڑے آرہا ہے۔


روایتی چال ڈھال ہر سرکاری دفتر میں تاحال اپنا اثر دکھا رہی ہے باوجود اس کے ”گورننس“ اب اس سرکار کے ہاتھ میں ہے جس نے تبدیلی کا خواب دکھایا تھا۔ اس وقت وزراء کی فوج ظفر موج موجود ہے، اراکین اسمبلی اس کے علاوہ ہیں،ذرائع مواصلات جدید تر ہیں پھر بھی لاکھوں شہری روزانہ کی بنیاد پر پردھان منتری کو پورٹل پر شکایات درج کروارہے ہیں یہ اس بات کی علامت ہے کہ عام شہری کے مسائل اس کی دہلیزپے حل نہیں کئے جارہے۔


حلقہ احباب میں برادر پروفیسر عبدالقیوم چوہدری بھی ہیں گورنمنٹ کالج آف کامرس وہاڑی میں وائس پرنسپل کے فرائض انجام دے رہے ہیں اپنی عزیزہ کے جی پی فنڈ کی وہاڑی سے ملتان ٹرانسفر شدہ رقم کا تحریری حکم نامہ بھجوانے کی ذمہ داری انھیں سونپی، باوجود اس کے خزانہ دفتر وہاڑی میں ان کے شاگرد بھی ہیں مگر اس معمولی کام کی انجام دہی میں اک ماہ سے زائد مدت صرف ہوگئی،جب بھی وہ دفتر جاتے تو اک نیا بہانہ سننے کو ملتا کیونکہ بغیر پہیہ کے فائل کا سفر محال تھا،بعد ازاں انھوں نے اپنے کالج کی مصروفیات کی بدولت یہ کام اپنے بھانجے عمر کے ذمہ لگایا وہ بھی اسی صورت حال سے دوچار رہا،اس حکم نامہ کی روانگی کے بعد ساری داستان اس وعدہ کے ساتھ سنائی کہ اس طرزعمل پر سرکار کو لازم متوجہ کیا جائے، اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ بہاولنگر دفترخزانہ کا رویہ بھی اس سے مختلف نہ تھا جہاں انھیں اپنی بہن کے جی پی فنڈ کی منتقلی کا معاملہ درپیش تھا وہ بھی ہماری طرح دفتری نظام کے ستائے ہوئے تھے۔

یہ کسی ایک دفتر کی کہانی نہی بلکہ ہر اس محکمہ کی داستان ہے جو پبلک ڈیلینگ سے متعلقہ ہے،بجلی کے میٹر کی تنصیب سے لے کر سوئی گیس کے کنکشن تک ہر شہری نئی داستان رکھتا ہے۔
اک زمانہ تھا جب ریاست کی ذمہ داری صرف امن وامان کو برقرار رکھنا ہوتا تھا، اس کے لیئے ہر سامراجی طریقہ اس بابت اختیار کیا جاتا تھا۔ قبائلی ریاست سے شروع ہونے والا سفر اب فلاحی مملکت کی طرف رواں دواں ہے اب منتظم کی ذمہ داری محض امن و امان برقرار رکھنا ہی نہیں بلکہ عام شہری کے لئے ہر سہولت فراہم کرنا ، اس کا معیار زندگی بہتر کرنابھی ہے،بچے کی پیدائش سے لے کر اس پوشاک،رہائش،خوراک حتیٰ کہ بڑھاپے کے بعد موت کی صورت میں اس کی تدفین کا بوجھ بھی اس کے کاندھوں پے ہے،ان حالات میں روایتی دفتری نظام عام شہری کی مشکلات میں کیونکر معاون ہو سکتا ہے؟۔

دنیا تو بہت سارا سفر ای۔گورننس کی طرف کر چکی ہے،ہماری انتظامی مشینری اب تلک” سرخ فیتہ “کے گرد گھوم رہی ہے، جدید رحجانات اور قومی خدمت سے عاری افسران اور اہلکار جب تلک اپنے پیٹ سے سوچیں گے تب تلک عوام کے مقدر میں صرف رسوائی ہی آئے گی، اس کی کھوکھ سے مصنوعی مہنگائی جنم لیتی رہے گی، بدعنوانی کا راستہ کھلا رہے گا، ماحولیات سے لے کر حادثات تک مسائل بڑھتے رہیں گے، ارباب اختیار کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتی رہے گی۔

ہمہ قسم کے مافیا کو پروان چڑھنے کا موقع ملتارہے گا،دوسرا المیہ یہ ہے وہ افسران،اہلکاران جو اپنی ملازمت کو اک نعمت سمجھتے ہیں عوامی خدمت کے جذبہ سے سر شار ہیں لیکن اس نظام میں” فٹ“ نہیں ہیں انکا قصور صرف یہ ہے کہ وہ ایماندار ہیں، قومی وسائل کو امانت سمجھتے ہیں، فرسودہ طرزعمل کو بدلنے کی آرزو رکھتے ہیں لیکن انکی ایمانداری انکی راہ میں رکاوٹ بنا دی جاتی ہے، ہر دفتر میں اس طرح کے افراد کو کھڈے لائن لگادیا جاتا ہے تاکہ صرف روایتی کام میں انھیں مصروف رکھا جائے۔


 نئی سرکار کے اس عہد میں عوامی مشکلات میں کمی اس لیے نہی آسکی روایتی دفتری طرز عمل ہی سے عوام کو سابقہ پیش آرہا ہے ،بدعنوان مافیا کا جادو سر چڑھ کر اب بھی بول رہا ہے،فائلوں کی حرکت اب بھی سست تر ہے۔ دفتری طرز عمل میں تبدیلی ہی سے عوام کو بدلا ہوا سماج محسوس ہو سکتا تھا۔ سرکار کو بھی اس بدگمانی سے باہر آنا ہوگا کہ افسر شاہی سابقین کے لیے ہمدردی رکھتی ہے اس طرز کے جذبات سے اسکی رٹ از خود کمزور تصور ہوگی، ایک طرف سرکار کو ان تمام افسران اور اہلکاران کو تحفظ فراہم کرنا ،ان پے دست شفقت رکھنا ہوگا جو ایمانداری کا شہرہ اور عوامی خدمت پر ایمان رکھتے ہیں، دوسری طرف بدعنوانوں کے گر گھیرا تنگ کرنا ہوگا، نیز ای گوورننس کے ذریعے شہریوں کو ہر سہولت انکی دہلیز پے دینا ہوگی تاکہ وزیراعظم کے پورٹل پے عوامی شکایات میں کمی آسکے،ایک صدی گذرنے کے باوجود اگر عوام برطانوی سرکار کو اسکی گوورننس کی بدولت یاد رکھ رہے ہیں تو اسکی بڑی وجہ ہر شہری کی درخواست پر انکے افسران کی فوری کاروائی اور ریلیف ہے، ہم برطانیہ سے مستعار لئے دفتری نظام میں وہ جدت نہیں لا سکے جو اک شہری کی مشکلات کو کم کرتا باوجود اس کے اب ہم آزاد شہری ہیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :