تہذیب

پیر 25 نومبر 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہمارا شمار ان خوش قسمت اقوام میں ہوتا ہے جنکی غالب آبادی نواجانان پر مشتمل ہے، قومی اہمیت کے فیصلوں میں اب یہ طبقہ فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے ،عمومی رائے یہ بھی ہے کہ موجودہ سرکار کو مسند اقتدر تک لانے میں نسل نو کلیدی رول ادا کیا ہے۔ اسکی بڑی وجہ اس کا سابقہ سیاسی حالات سے مایوس ہونا بھی تھا، جس مقصد کے لئے انھوں نے اس حکومت کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالا اور بہت سی امیدیں اس سرکار سے وابستہ کیں کیا وہ انکی امیدوں پے پورا اتر سکی یہ ایک طویل بحث ہے، لیکن اہم سوال یہ ہے کیا اس بڑی آبادی کی تربیت کا کوئی سماں یہ سرکار کر سکی، اس کے ناقدین نسل نو میں باغیانہ رویہ پروان چڑھانے پر صاحبان اقتدار کو ذمہ دار ٹھراتے ہیں،یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ” سٹیٹس کو“ میں عدم تبدیلی نے” برین ڈرین“ کو بیرون ملک جانے پے مجبور کر دیا ہے،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، گلیمر کلچر نے بھی ان کو محنت سے عاری کر کے شارٹ کٹ طرز زندگی اپنانے کی راہ پے ڈال دیا ہے۔

(جاری ہے)


ریاست کے فرائض منصبی میں انکی تربیت کرنا بھی ہے لیکن سماجی حالا ت بتاتے ہیں کہ پڑھا لکھا طبقہ ہی جرائم میں ملوث دکھائی دیتا ہے، فی زمانہ میڈیا ہی وہ ذریعہ ہے جس کے اثرات اس وقت سب سے زیادہ نسل نو پے مرتب ہو رہے ہیں لیکن اس کی ہی کوئی کل سیدھی نہیں، تعلیمی اداروں میں بھی اس طرز کی اخلاقی تربیت کا کوئی منظم اہتمام نہیں جس کے مثبت اثرات محسوس کیے جاسکیں ،جب سے تعلیم بنی تجارت کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اساتذہ کرام کو اپنی عزت بچانا مشکل ہو رہا ہے، تعلیمی اداروں میں اساتذہ پر طلبہ کی جانب سے حملے اور طلبہ کے باہمی لڑائی جھگڑے ،اس بات کے غماز ہیں کہ ہم ایک منظم افراد کی بجائے اک ہجوم تیار کر رہے ہیں۔

ہر چند ہماری ایک زرخیز تہذیب اور خوبصورت کلچر ہماری تاریخ کا حصہ رہا ہے لیکن اب ہم اس سے کوسوں دور ہیں، اس میں بڑے ،چھوٹے کا احترام، باہمی ادب، اخوت،عقیدت، محبت ،احساس ہماری پہچان ہوا کرتے تھے، درخشاں روایات اب ہمارے قومی منظر نامہ ہی سے غائب ہیں، المیہ تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت از خود احترام کے رشتوں کو سبوتاژ کر کے نسل نو کو بے راہ روی پے ڈا ل رہی ہے، سیاسی کلچر میں عدم برداشت نے نئے رویہ کو جنم دیا ہے جس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے۔


دلچسپ امر یہ ہے کہ ہماری تہذہب کسی مستعار لی ہوئی نہیں بلکہ اس رب کریم کی عطا کردہ ہے جس نے ہماری تخلیق کی ہے، تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں عرب کی سر زمین پے وہ میلے، ٹھیلے ملتے ہیں جس میں ہر طرح کی خرافات ہوتی تھیں، عورت کی خردوفروخت سے لے کر اسکی ناموس پر حملے تک کا سارا سامان ہوتا تھا اللہ تعالی نے اس نوع کی تفریح کو انسانیت کی تذلیل قرار دے کر اس کواس خوشی میں بدل دیا جس میں شکر اور اسکی کبریائی شامل کر دی دو عیدین کے واجب ہونے سے اس کلچر کو ہی بدل دیا جو میلہ عکاظ میں رواں رکھا جاتا تھا۔

یہ پیغام آنے والی پوری انسانیت کے لیے ہے کہ اپنی تفریح کو بھی پاکیزہ رکھو جس میں شکر کے ساتھ ہمدردی، محبت ، عقیدت،احساس کا جزبہ پوری طرح غالب ہو، عورت کو وہی عزت احترام حاصل ہو، امیر ،غریب کی تفریح کا یکساں خیال رکھا جائے، فی زمانہ میڈیا ہی وہ ذریعہ ہے جو تفریح کا بڑا سورس ہے ،اس کی وساطت سے جو تفریح فراہم کی جارہی ہے کیا وہ ہماری اس تہذیب پے پورا اترتی ہے؟ جس کی راہنمائی ہمیں مسلم کلچر سے ملتی ہے وہ تمام پروگرامات، ڈرامے اور فلم کیا ان اصولوں کو سامنے رکھ کر تحریر کیے جارہے ہیں جو ہماری روایات کے امین ہونے چاہیے؟ سب کچھ عوام کی منشاء کے عین مطابق دکھا یا جا رہا ہے جو ہمارے مسائل کی درست عکاسی کرتی ہے؟ ہر گز نہیں، روایت ہے کہ اس زمانے میں جب صرف پی ٹی وی ہی صرف اس قوم کا اکلوتا الیکٹرونک میڈیا ہوا کرتا تھا اس وقت ایک معروف ہدایت کار ایک بڑے ڈرامہ نگار کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ڈرامہ لکھنے کی استدعا کی انھوں نے اس شرط پے حامی بھری کہ اگر اس میں گلیمر نہ دکھائیں تو وہ یہ خدمت انجام دیں گے اس زمانے میں جب اک آمر کا طوطی بولتا تھا اس دور میں ہمارے ڈرامے ہر اس ریاست میں مقبول تھے جہاں اردود بولی اور سمجھی جاتی تھی ، اس وقت ریٹنگ کی درڑ میں اس کلچر کو تباہ کیا جارہا ہے جو ہماری پہچان ہے وہ کچھ دکھایا جا رہا ہے جس کا ہماری تہذہب سے اور زمینی حقائق سے دور دوربھی واسطہ نہیں۔

کیا ڈرامہ نگار اس سماج کا حصہ نہیں جس ملک کی 37 فیصد آبادی صرف خواندہ ہوں اور وسائل کی شرح کا تناسب بیس اور اسی فیصد کا ہو، جو سبزی کی مہنگائی کی تاب نہ لا سکتی ہو اس کو گلیمر کی دینا کے آسیب میں مبتلا رکھنا کتنا بڑا جرم ہے؟ بڑے بڑے محلات آبادی کے کتنے طبقہ کو میسر ہیں، وہ ڈریسنگ جو شرکاء ڈرامہ، فنکار زیب تن کیے ہوتے ہیں اس کو خرید کرنے کی قوت کتنے فیصد کو حاصل ہے؟ کیا اس طرزعمل سے ڈرامہ نگار سماج میں احساس محرومی نہیں بڑھا رہے اس کے حصول کی خواہش کو پروان نہیں چڑھا رہے کیا اس سے جرائم جنم نہیں لیں گے، ہمارے ڈرامہ نگار ان مسائل کو زیر بحث کیوں نہیں لاتے جو ہمیں در پیش ہیں، کیا س سماج کا بڑا مسئلہ محض شادی رہ گیا ہے، ان دنوں جس بھی ٹی وی چینل سے ڈرامے پیش کیے جارہے ہیں اس کے ذریعہ سے نسل نو کی یہ ذہن سازی کرنی کی دانستہ کاوش کی جارہی ہے کہ والدین پرانے زمانے کے ہیں یہ نئی اقدار کو سمجھنے سے قاصر ہیں لہذا بچے اور بچیوں کو اپنے فیصلے از خود کرنے ہیں ان کو بڑا”دانشور“ دکھایا جاتا ہے نیز انھیں خود سر بنایا جارہا ہے تاکہ والدین کے سامنے لا کھڑا کیا جائے۔


جس عہد میں ہمیں اسلامی تہذیب سے روشناس کرایا گیا اس وقت قیصرو کسری کی حکومتیں تھیں انکا کلچر طول وعرض میں عروج پے تھا جس میں غلامی کا دور تھا،عزت صرف امراء کی تھی ، محکوم مردوں اور عورتوں سے بیگار لی جاتی تھی انکی عزت بھی محفوظ نہ تھی اس کے برعکس اک صاف ستھرا اخوت ، محبت احترام پر مبنی کلچر دیا گیا ہماری یہ کیا ترقی ہے کہ قلمکار پھر سے ہمیں عہد جہالت میں بھیجنا چاہتے ہیں موجودہ ڈراموں میں جھوٹ۔

دھوکہ دہی ،فریب اور رشتوں کے تقدس کی پامالی کو فروغ دے کر کس قسم کی تربیت دی جارہی ہے۔
 آپ قوم کی کوئی خدمت انجام دینا چاہتے ہیں تو ان موضوعات کو اپنے ڈراموں کا حصہ بنایئں جن کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہے، اس وقت ہمارے بڑے مسائل جہالت، غربت، بے روزگاری، سماجی اور معاشی ناانسافی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، فرقہ واریت، قومی اور سیاسی سول اداروں کی بالا دستی کا سوال ہے۔


آپ نسل نو کوکمائی کا شارٹ کٹ راستہ دکھانے کی بجائے اسکو محنت کی جانب راغب کریں، ہماری تہذیب اتنی بانجھ نہیں اس سے درخشاں روایات نہ مل سکیں انکو ڈراموں کا حصہ نہ بنایا جا سکے،مدر پدر آزاد معاشرہ کی حمایت تو اہل مغرب بھی نہیں کرتے جہاں خاندانی نظام اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے ،ہمارا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے ہماری قوم اس کی شکت وریخت کو قطعی قبول نہیں کرے گی، میڈیا اس ہجوم کو قوم بنائے اور خاندانی ماحول کو تقویت دے، سرکاربھی واضع میڈیا پالیسی دے جو ہماری تہذیب کی آیئنہ دار ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :