فریب

پیر 9 دسمبر 2019

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

نجانے وہ طلباء وطالبات جو مال روڈ لاہورپے لال ،لال لہرانے کے نعرے بلند کر رہے تھے وہ اس کے معنی اور مطالب سے آشنا تھے بھی یا نہیں کیونکہ انھوں نے اس ماحول میں آنکھ کھولی جب اس نعرہ کا دور دور تک کوئی نشان تک نہ تھا۔ اچانک طلباء کی جانب سے اس نوع کی سر گرمی نے عوام کو محو حیرت میں ڈال دیا،ہرچند ان کا یہ اجتماع طلبہ تنظیموں کی بحالی اور مسائل کے تناظر میں تھا ،مگراس طبقہ کے علاوہ دیگر کی شمولیت نے بہت سے سوالات اٹھا دیئے، اس مشق کے پیچھے ان ہاتھوں کو تلاش کرنے کی ضرورت محسوس کئی گئی جنہوں نے طلباء مسائل کو اجاگر کرنے کی بجائے انکو نئی راہ دکھلائی، زیادہ شکوک و شبہات تب پیدا ہوئے جب عالمی میڈیا نے انھیں غیر معمولی کوریج دی ،جب کہ دنیا بھر کے طلباء وطالبات کو کسی نہ کسی مسئلہ کا سامنا تو رہتا ہی ہے، لیکن اس گروہ پے خاص مہربانی نے بھی مقتدر حلقوں کو متوجہ کیا،جیکٹ زیب تن کیے ہوئے اک نو عمر طالبہ نے اس سے شہرت حاصل کی لیکن تھیلے سے بلی اس وقت باہر آئی جب موصوفہ ایک نجی ٹی وی پروگرام میں اس نعرہ کو بلند کرنے اور اسکا تعلق طلباء یونین کی بحالی سے ثابت کرنے میں ناکام رہیں جس سے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ نادیدہ ہاتھوں نے ان کے منہ میں یہ نعرہ ڈالا ہے۔

(جاری ہے)

اس نعرہ نے ہمیں ماضی میں لا کھڑا کیا جب طلباء انتخاب کے موقع پے پرجوش انداز میں کیمپس میں نعرے لگاتے،ایک گروہ ایشیاء سرخ کا جبکہ دوسرا ایشیاء سبز ہے کے نعرے بلند کرتا تھا اس عہد میں بھی بعض طلباء وطالبات ان نعروں سے نابلد ہوتے تھے لیکن یہ فضا میں گونجتے رہتے، آج جبکہ اک طویل مدت سے یہ نعرے طلباء تنظیموں پے پابندی کے ساتھ ہی رخصت ہو گئے تو اب یونین کی بحالی کے نام پر ان کو دوبارہ زندہ کرنا کیوں ضروری سمجھا گیا؟
ہم نسل نو کویہ بتانا لازم سمجھتے ہیں کہ اس کا پس منظر کیا تھا ،ہماری سیاسی قیادت اس مملکت میں جو اسلامی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے، سوشلزم کے نظام کو نافذ کرنے کے خواہاں تھی جو اس وقت روس کی سرزمین پے اپنی آب وتاب سے چمک رہا تھا، ہمارے عوامی سربراہ سمجھتے تھے کہ ہمارے مسائل کا حل اس کے نفاذ میں پنہاں ہے اسلام سے رغبت کی بناء پر اس قیادت نے” اسلامی “ لاحقہ لگا کر اس کو اسلامی سوشلزم کا نام دیا اور روٹی، کپڑا، مکان کا نیا نعرہ دیا،یہ قیادت سرخ انقلاب کی حامی تھی تاہم اس معاشی نظام کو عوام میں پذیرائی نہ مل سکی، بعد ازاں روسی جارحیت نے افغانستان میں سرخ انقلاب کے ایجنڈہ کو طاقت کے ذریعہ مسلط کرنے کی سازش کی،رجعت پسندی کے اس معاشرہ میں بھی اسے مقبولیت حاصل نہ ہوئی وہ افغان قیادت جو سوشلٹ راہنماؤں کے ہاتھوں کھیل رہی تھی اسے جلد اپنی حماقت کا احساس ہونے لگا کیونکہ اس کے عوام بھی اسلامی مزاج رکھتے تھے، اسلام پسندوں نے روسی قبضہ کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر سوشلزم کے اس نظام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا،وہ روسی قیادت دینا پر سوشلزم کی حاکمیت کا خواب دیکھ رہی تھی اسے بے آبرو ہو کر افغانستان سے نکلنا پڑا، تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس نظام کے حامیوں نے اس کے مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کیے رکھا،عقوبت خانوں میں ہزاورں انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں رہے، بہت سے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے، جن ممالک میں اس کی باقیات آج بھی ہے وہاں بھی عوام کو جمہوری حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے، انھیں اپنا مذہب اپنانے کی بھی آزادی نہیں ہے کیا اس فکر کو اس سماج میں قدم رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے جس کی حمایت میں لال لال جھنڈا لہرانے اور حوش ٹھکانے آنے کی دھمکی لگائی جارہی ہے۔

اس وقت پورا عالم سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے میں ہے اور اس سے بھی نجات چاہتاہے جبکہ سوشلزم کو دفن ہوئے ایک مدت بیت گئی ہے ، دینا اب گلوبل ویلج میں داخل ہوچکی ہے جہاں کوئی بھی نظام بزور طاقت لاگو نہیں کیا جا سکتا، انکل سام کا نیوورلڈ آرڈر بھی اپنا مقام پیدا نہ کر سکا۔
جہاں تک طلباء کے مسائل کا تعلق ہے اس سے کسی کو بھی مفر نہیں، ان کے بیشتر مسائل حقائق پر مبنی ہیں انکے حل کے لیے انکی قیادت کو اعتماد میں لینا اور انھیں جمہوری اور آئینی حق دینا وقت کا تقاضا ہے، اس پے قومی قیادت بھی متفق ہے لیکن ماضی میں تعلیمی اداروں میں پر تشدد واقعات نے ہی طلباء یونین پے پابندی کی راہ ہموار کی تھی، اس وقت تمام طلباء قیادت ایک پلیٹ فارم پے جمع ہے اور انکی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہی کہ موجودہ ملکی سیاسی قیادت کا خمیر طلباء سیاست ہی سے اٹھا ہے اگر طلباء یونین کے انتخابات تسلسل سے ہوتے رہتے تو شائد لسانی، علاقائی، اور فروعی گروہ وجود میں نہ آتے، بتدریج ان کے وژن میں پختگی آ جاتی۔جنرل ضیاء الحق مرحوم کے غیر جماعتی انتخاب کے انعقاد سے قومی سیاست میں مفاد پرست افراد کی اکثریت غالب آگئی جس نے بدعنوانی کی طرح ڈالی اور طلباء تنظیموں پے پابندی نے غیرنظریاتی طلباء کو تعصب پھیلانے کا موقع فراہم کیا۔


عدالت عظمی کے فیصلہ اور سیاسی قیادت کی حمایت کے باوجود عوامی حلقے یونین کی بحالی پر اب بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں، انھیں خدشہ ہے کہ پھر سے درس گاہیں مقتل گاہیں نہ بن جائیں، باوجود اس کے انھیں بھی تجارتی ، مہنگی تعلیم اور بھاری بھر فیسوں کی شکایات ہیں، طلباء کی قیادت کا موقف ہے کہ طلباء یونین کی عدم موجودگی میں سماج کو زیادہ تشدد کا سامنا رہا ہے،سماج کے سنجیدہ حلقے اب بھی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس وقت جب کہ قومی قیادت میں ہی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی تو نو عمر طلباء سے اس کی توقع رکھنا ہی عبث ہے، ابھی چند روز قبل ملتان میں ایک نجی تعلیمی ادارہ کے استاد کی طلباء کے ہاتھوں تذلیل کا جو ناخوشگوار واقعہ سامنے آیا ہے اس کے بعد انھیں سیاسی طور پر طاقتور بنانے کے نتائج سے تعلیمی حلقے خوف زدہ ہیں اس لئے یونین کی بحالی کو ضابطہ اخلاق سے مشروط کیے جانے کا مطالبہ سامنے آرہا ہے، دو دہایوں کی زائد مدت سے سیاسی حق سے محروم طلباء قیادت کویہ احساس تو ضرور ہوا ہو گاکہ سیاسی ہاتھوں میں کھیلنے سے انکو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے نیز طلباء کے مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے اگر وہ اس سے سبق حاسل کرکے طلباء کو محب وطن بنانے کے ساتھ ساتھ ان میں صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ دیں گے تو ان کے مطالبہ کو عوامی پزیرائی حاصل ہو گی ،تعلیم کے نام پر تجارت کرنے واے گروہ بھی انکو اپنے اداروں میں یونین سازی کا حق دیں گے یہ سوال بڑااہم ہے کیونکہ اصل مسائل کا تعلق نجی تعلیمی اداروں سے ہیں۔


بحثیت مسلمان طلباء کے لئے اگر کوئی شخصیت رول ماڈل ہے تو وہ نبی آخرزماں کی ہے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے وہ امت مسلمہ کے بہترین افراد میں شامل ہو سکتے اور طلباء کی سیرت پاک کی روشنی درست سمت میں راہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے سکتے ہیں، لہذاانھیں کسی سرخ اور لال کے فریب میں مبتلا ہونے سے اجتناب کرنا ہوگا، ویسے بھی جو نظام اپنی موت خود مر چکا ہو اس کو زندہ کرنے میں انکی نہ کوئی نجات ہے نہ ہی صلہ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :