انصاف لیگ

پیر 6 جنوری 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

بھاری بھر عہدے، دولت، سیاسی میراث رکھنے والے، بڑی پارٹیوں کے سربراہان، صدر مملکت سے وزیراعظم تک کے سابق ذمہ داران ،ووٹوں کے حصول پے نازاں، نئے نئے بیانئے کے خالق، جمہوری شہادتوں کے دعوی دار، آج جب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے تو ہم ورطہ حیرت میں گم ہوگئے، ان میں وہ بھی شامل تھے جنہیں جی روڈ پے چلنے والے کارواں پے ناز تھا، انسانوں کے جم غفیر، ان کے سامنے ہاتھ ہلا کے ووٹ کی حرمت کے وعدے ، وہ پابندسلاسل کی اذیتیں، وہ نیب کے دفاتر کا طواف، وہ بدعنوانی کا داغ، وہ زندگی کی بازی، جوش خطابت،وہ قوم سے وعدے،عزت کے دلاسے،اداروں کی مضبوطی کے ارادے، سیاست کی شفافیت، انتخابات کی آزادی، کیا ان کے عزائم نہ تھے۔


،وہ آمریت کی طعنے بازی، وہ کوڑے کھانے کی کہانیاں، وہ جمہوری شہداء کے قصے، زندان کے پیچھے آپ بیتیاں، نہ جھکنے کا عہد نہ بکنے کا دعوے،وہ بی بی کا بیٹا،وہ نانا کا نواسہ، وہ عوام کے غم خوار، جمہوریت کے داعی بھی، اس” کا رخیر“ میں شریک سفر ہوں گے، کیا یہ تصور بھی ممکن تھا جو آئین پاکستان میں ترمیم کی راہ ہموار کرنے میں ہمنوا ہو گا ۔

(جاری ہے)

بحث یہ نہیں کہ اس کا فائدہ کس کو پہنچے گا سوال یہ اگر اسی منزل پے آکے رکنا تھا تو پھرقافلوں کو مخالف سمت جانے ہی کیوں دیا، ہیجانی کیفیت پیدا ہی کیوں کی گئی، اداروں کی حدود کی صدا بلند کس نے کی، انتخابات کے غیر منصفانہ ہونے کی بحث کا آغاز ہی کیوں کیا گیا، سلیکٹڈ کی گردان کا مقصد کیا تھا،اداروں پے اثر انداز کا طعنہ کس کو دیا جاتا رہا،اگر آپ سب اتنے ہی جمہوریت پسند تھے تو کس نے آپکو اس مقام تک آنے کا مشورہ دیا آپ تو اپنے ہر عمل کو عوام کی مرضی اور منشاء سے منسوب کرتے ہیں، ہر فیصلہ کی تان عوام پے آکرٹوٹتی رہی، تو کیا اس فیصلہ کو بھی عوام کے کھاتے میں ڈالا جائے گا، اس کو بھی جمہوریت کی فتح کہا جائے گا، یہ بھی قوم کا وسیع تر مفاد کہلائے گا،اس کوبھی آئین اور قانون کی حکمرانی سے تعبیر کیا جائے گا۔

نجانے آنے والا وقت کس کے حق کیا فیصلہ دے لیکن یہ واضع ہے کہ جمہوریت کا دعوی آپکی زبان سے شائداب وہ تاثر نہ رکھے جو پُر جوش نعروں کے زمانے میں تھا،نہیں معلوم آئیندہ یہ سیاسی کھلاڑی کس منہ کے ساتھ کون سا نعرہ لے کر، عوام کی عدالت میں حاضر میں ہوں گے ،کس کو عزت دینے کا پھر عہدو پیماں ہو گا، کیا عوام سیاسی شہیدوں کے نام پر پھر دھوکہ میں آئے گی، اب انتخابی نتائج چرانے کا الزام کس منہ سے دیں گے۔

آزاد الیکشن کمیشن کا مطالبہ کے قیام کا یہ حق محفوظ رکھ سکیں گے۔عوام بیچاری اب کن کن سیاسی نعروں سے بھسلائی جائے گی،اب کس کی”سپر میسی“ کے نام پے قوم کو سڑکوں پے لایا جائے گا۔
ہمارا گمان ہے ”کہ زندہ بھٹو“ اس ساری کاروائی کو دیکھ کر زیر لب مسکرا ضرور رہے ہوں گے،قائد عوام جو خود آیئنی ترمیم کے خالق رہے اس پے دم بخود تو ہوں گے لیکن جلد انھیں خیال آئے گا کہ کسی آمر کو ”ڈیڈی “کہنے کی طرح بھی تو انھوں نے ڈالی تھی وہ خود بھی تو جمہوریت میں آمرانہ مزاج رکھتے رہے تھے، اس رویہ ہی نے تو انکو اقتدار الگ کر دیا تھا،لیکن اصل پریشانی تو شریفین کے والد کی بھی ہے جن کے بڑے فرزند نے ایک نیا بیانیہ دے کر اس پے سمجھوتہ نہ کرنے کی قسم کھائی تھی اور جان کی بازی تک ہارنے کا عندیہ دیا تھا حالانکہ چھوٹے برخودار کاروباری خیال سے آگے اود درست سمت جا رہے تھے وہ تعلقات خراب کرنے کے حامی نہ تھے، موجودہ سیاسی منظر دیکھ کر”اباجی“ بھی یہ کہہ کر سکھ کا سانس لیں گے کہ پونچھی وہیں پے خاک جہاں کا خمیر تھا، یہاں سوال صرف انکے خاندان کے مطمعن ہونے کا نہی بلکہ ان اسیران پارٹی کا بھی ہے جو اس وقت زندان میں ہیں۔


 پشارو کے سرخ پوشوں کا کیا حال ہو گا، باچا خاں جنہوں نے ساری حیاتی خدائی خدمت گار کے نام پر اس دھرتی کی مخالفت میں گزار دی ، ان کی جماعت بھی آئین اور جمہوریت کے نام پے موروثی سیاست کو زندہ رکھے ہوئے ہے ، کیا ان کی پارٹی کے قائدین کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ مولانا کے شانہ بشانہ اسی سرکار کے خلاف وہ چند روز قبل بر سر پیکار تھے ، مینڈیٹ چرانے کا الزام لگا کرنئے انتخاب کا نعرہ بلند کر رہے تھے، انکی پارٹی کو اب کیسے یقین ہو چلا ہے کہ یہ سرکار اب اصلی ہے؟، الیکشن اور انکے نتائج بھی درست تھے ،مولانا کے ساتھ وفاقی دارالحکومت میں دھرنا میں شریک لوگوں کو یہ باور کرا رہے تھے کہ ان کی جدوجہد کے نتیجہ میںآ یئندہ الیکشن شفاف ہوگا، بیچارے ولی خان مرحوم اس ساری مشق کو کس زاویہ سے دیکھ رہے ہوں گے جنہوں نے ایک سابق آمر کی وزارت عظمی کی پیشکش یہ کہہ کر ٹھکرا دی تھی کہ وہ بے اختیار وزیر اعظم نہی بننا چاہتے، نجانے اس ترمیم کی حمایت سے ان پے کیا گزرے گی ،انکی جماعت اس وقت سجدہ ریز ہوئی جب وقت قیام تھا۔


ہماری پریشانی اس سے بھی زیادہ ہے کہ بانی پاکستان جن کی جدوجہد مسلمہ ہے جنکی ساری حیاتی آئین اور قانون کی پاسداری میں گزری ہے ان کی ہی سلطنت میں اس انداز میں ترمیم کا جو طریقہ اپنایا جا رہا ہے اس کا تصور تو انھوں نے اس وقت بھی نہیں کیا ہو گا جب سامراجی عہد میں جی رہے تھے وہ تو ڈنکے کی چوٹ پے حق بات کہہ دیتے تھے خواہ ان کے سامنے لارڈ صاحب ہی کیوں نہ براجماں ہوں ،اپنی پوری سیاسی زندگی میں ماسوائے اللہ تعالی کے وہ کسی سے نہیں ڈرے،انھوں نے ایک خاموش انقلاب کے ذریعہ ایک نئی مملکت کی بنیاد رکھی بحثیت گورنر جنرل ریاست کو قانون کے تابع رکھا جب تلک وہ سیاسی پارٹی کے سربراہ رہے انھوں نے جمہوری طرز عمل سے پارٹی کو چلایا کسی کی منشاء پے اصولوں کو قربان نہیں کیا حالانکہ برصغیر میں انکو بڑی مخالفت کا سامنا تھا کیا سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو انھیں رول ماڈل نہی بنانا چاہئے تھا؟ ذرا سوچیے اگر وہ کسی پارٹی کی قیادت کر رہے ہوتے تو اس طرح ترمیم کے حق میں اپنا ووٹ دیتے،وہ اپنے سنہری سیاسی اصولوں کی بنیاد پے ہمیشہ تاریخ میں روشن اور زندہ رہیں گے البتہ ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے انکی بانی جماعت کا حلیہ بگاڑ دیا اسکو آمروں کی داشتہ بنا دیا ہے، ہمارا مخلصانہ سا مشور ہ ہے کہ وہ تمام جماعتیں جو اس ترمیم کی حمایت یافتہ ہیں انھیں ایک اور ترمیم بھی کرنی چاہئے وہ اپنی اپنی پارٹی کے دستور میں تبدیلی کرتے ہوئے انکے نام بدل لیں اور نیا نام ”انصاف لیگ“ رکھ لیں تاکہ ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہوئے انھیں شرمندگی محسوس نہ ہو۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :