چھتری

پیر 13 جنوری 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

کہا جا تا ہے کہ1974 میں جب امریکی وزیر خارجہ نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو اسکی معاشی حالت دیکھ کر اس کی معیشت کو ” بے پیندے کی ٹوکری“ قرار دیا تھا باالفاظ دیگر اس کا مفہوم یہ تھا کہ اس میں جتنا بھی پیسہ مالی امداد کا ڈالا جائے گا وہ ضائع ہو گا،اس وقت جب بنگلہ دیش کا وجود نہی تھا، یہ ریاست ہمارا حصہ تھی ہماری قیادت بھی اس کو بوجھ قرار دیتی رہی،عوامی،شہری حقوق سے صرف نظر کرتی رہی تآنکہ سقوط ڈھاکہ وقوع پذیر ہوا،جو ہماری سیاسی تاریخ کا سیاہ باب ہے، اس سے جان چھڑا کر ہم نے تو سکوت کیا اور انکی خبر بھی نہ لی جنہوں نے متحدہ پاکستان کے لئے اپنی زندگیاں قربان کیں اورپھانسی کے پھندے پے جھول گئے،نہ ہی انکو پوچھا جن کی اگلی نسل بھی اس سرزمین کی محبت کے جرم میں تاحال کیمپوں میں مقیم ہے۔

(جاری ہے)


بنگلہ دیش کی قیادت سے سیاسی اختلاف کی گنجائش تو موجود ہے لیکن اسکی حالیہ معاشی پالیسیوں نے نہ صرف امریکی وزیرخارجہ کی بات کو غلط ثابت کیا بلکہ ہمیں بھی سوچنے پے مجبور کیا ہے جواسکی آبادی کو اپنے لیے بوجھ خیال کرتے تھے،اسکی معیشت کے اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ وہ بنگلہ دیش جو1975 میں اقوام متحدہ کے مطابق غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا، آج ترقی پذیر ریاستوں کی دوڑ میں داخل ہے،دلچسپ امر یہ ہے کہ بنگلہ نہ تو سوت نہ ہی ریشم پیداکرتا ہے بیشتر خام مال باہر سے منگواتا ہے اس کے باوجود دنیا کے آٹھ فیصدملبوسات بنگلہ دیش ہی میں بنتے ہیں،ریڈی میٹ گارمنٹس برآمد کرنے والادنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے، اس کی شرح نمو میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے،ستر کی دہائی میں 75فیصد عوام غربت کی چکی میں پس رہے تھی اب صرف 12فیصد کو غریبی کا سامنا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کم وبیش دوکروڑ بنگالی ملبوسات کی انڈسٹری میں کام کرتے ہیں،علاوہ ازیں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے بھی بنگلہ دیش کی نسل نو کو اس شعبہ میں کمالات دکھانے کا موقع فراہم کیا ہے کہا جاتا ہے کوریا کو روبوٹ فراہم کرنے کا ٹھیکہ ایک بنگلہ کمپنی کوملا ہے،بحری جہاز بنانے کا کام تو پہلے ہی بنگلہ کمپنیاں کر رہی ہیں، اس معاشی ترقی کے اثرات سماجی سطح پے بھی غالب آ رہے ہیں، صحت، تعلیم کے شعبہ جات میں بھی نمایاں تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے، عام شہری کا معیار زندگی بہتر ہوا ہے، اس کے تناسب سے بنگالیوں کی متوقع عمر ہمارے اہل وطن سے بڑھ گئی ہے، اچھی گوورننس کے پیچھے نہ صرف پالیسیوں کا تسلسل ہے ،بلکہ سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے لیے بھاری بھر مراعات بھی اس کا خاصہ ہیں۔

مزید برآں جاگیر داروں، سرداروں،گدی نشینوں کی صورت میں طاقتور طبقہ کا نہ ہونا بھی ہے۔
راقم کے زیر مطالعہ کتاب”میرا جنون“ تھی ، اس کے مصنف ایک سیاسی ورکر اور جمہوریت بحالی تحریک ایم آر ڈی کے سرگرم کارکن بھی، ،انکی سیاسی جدوجہد اورخطوط اور اس عہد کی سرگرمیوں اور ملک کو در پیش مسائل کا تذکرہ، ا س کے مطالعہ کے بعدیہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فی زمانہ حالات میں انیس، بیس کا ہی فرق معلوم ہوتا ہے،موصوف نے ستر کی دہائی میں ایک روزہ کنونشن میں جن مسائل کو موضوع گفتگو بنایا ہے وہ آج کے حالات پے بھی صادق آتے ہیں،اس دور میں جو مطالبات پیش کیے گئے ۔

قابل ذکر میں پاکستان میں سامراج سے آزادی،جاگیرداری سے نجات،شہری آزادی،معاشی مساوات،مزدوروں، کسانوں،عوام کو روزگار کی ضمانت،آزاد خارجہ پالیسی،پریس اور عدلیہ پر سے پابندی کا خاتمہ،جیلوں میں سیاسی اسیران کی رہائی،تعلیم اور صحت کی مکمل سہولتیں،بااختیار پارلیمنٹ،افسر شاہی کا خاتمہ،بند صنعت کو چالو کرنے کا مطالبہ آج بھی یہ ترو تازہ دکھائی دیتے ہیں اور اس عہد کے عوام کی آواز بھی۔


گویا تین دہائی کی سیاسی مسافت طے کرنے کے بعد بھی ہم اس مقام پے کھڑے نظر آرہے ہیں، بنگلہ دیش نے ہم سے جدا ہو ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ہم نہ تو جاگیرداری سے نجات حاصل کر سکے نہ ہی شہری آزادی ہمارا مقدر بن سکی، لا پتہ افراد کے مقدمات اب بھی زیر سماعت ہیں،خارجہ پالیسی اگر اس وقت غلام تھی تو آج بھی جکڑ بندی کا شکار ہے، امیر سے امیر تر ہوتے ہوئے سماج میں معاشی مساوات کے احساس کو اور بھی گہرا کر دیا ہے،صحت اور تعلیم کے لئے جس طرح عوام پہلے شکوہ کناں تھے ،صورت حال آج بھی مختلف نہیں فرق صرف اتنا ہے کہ اب دل کی بڑھاس نکالنے کے لئے سوشل میڈیا میسر ہے،پریس کی آزادی تو رہی ایک طرف اب تو پریس میں کام کرنے والوں کو اپنے روزگار کے لالے پڑے ہوئے ہیں،پارلیمنٹ کو بھی اتنی آزادی دستیاب ہے جتنی اس میں بیٹھنے والوں کو درکار ہے،نظام عدل کی جو چال پرانی تھی وہ اب بھی وہی ہے البتہ اپنی آزادی کا احساس وہ نظریہ ضرورت کے تحت دلاتی رہتی ہے۔

اپنی سہولت کے لئے اس نے فراہمی انصاف کے الگ الگ پیمانے مقرر کر رکھے ہیں۔سمجھ میں نہی آتا کہ ملکی مسائل کا ذمہ دار کس کو ٹھرایا جائے،اسکو عوام کی بے بسی کہا جائے ،سیاسی جماعتوں کی غفلت مانا جائے ،مقتدر طبقہ کی من مانیاں قرار دیا جائے۔
 تاہم بنگلہ دیش اور ہمارے سیاسی نظام میں جو ایک قدر مشترک دکھائی دیتی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہے،لیکن بنگلہ میں انھیں یہ امتیاز حاصل کہ کڑی نگرانی نے وہاں کی حکومت میں بدعنوانی کو جنم نہی لینے دیا ، اپنے دامن کو بھی آلودہ نہی ہونے دیا البتہ ،اس میں ملوث حکومتی وزراء کو بھی کڑی سزا دی،سرکاری آمدن کا بڑا حصہ ترقیاتی اور معاشی کاموں پے خرچ کیا،افسر شاہی ،سیاست دان بھی فرائض ایمان داری سے انجام دینے لگے،تاہم بنگلہ سرکار کے آمرانہ اقدامات کو تحفظ فراہم کرنے کے عمل کو عوام نے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا، البتہ امن وامان کے قیام اور معاشی ترقی کے قیام میں انکی تحسین کی جارہی ہے۔


ہمارے ہاں بدعنوانی کی روک تھا م کے لئے ہماری سرکار نے اس کا تعاون بھی حاصل کیا گیا ہے لیکن نہ تو کسی کو سزا ملی نہ ہی ترقی کا سفر شروع ہو سکا،سرکار تورہی ایک طرف اپوزیشن کے بدعنوان افراد بھی شکنجہ میں آنے سے محفوظ رہے،اس عمل نے بااختیار طبقہ کی مداخلت اور گوورننس پے سوالات بھی اٹھا دئے، ایک حادثاتی ترمیم نے تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو پارلیمنٹ میں ایک پیج پے آنے کا اہم موقع فراہم کیا ہے کیا یہ غیر اعلانیہ ”سیاسی اتحاد“ عوامی فلاح کا سبب بھی بن سکے گا؟تاکہ عوامی مسائل کے حل اور قومی ترقی کی طرف پیش قدمی ممکن ہو سکے۔


 سرکا ر کے وزراء کرم ،اگرٹک ٹاک کی اداکاراوں سے معاشقے بڑھانے سے فرصت پا لیں تو انھیں ضرور بنگلہ دیش کی ترقی کا جائزہ لینا چاہئے،لیکن اس سے یہ اخذ کرنا لازم نہی کہ معاشی اور سماجی ترقی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی چھتری ہی ناگزیر ہوتی ہے۔ معاشی ترقی کا دوسرا ماڈل سنگاپور کا بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :