نعم البدل

پیر 20 جنوری 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہر چند کہ ہمارا خمیر دیہات کی مٹی سے اٹھا ہے لیکن والد محترم چوہدری محمد اصغر جٹ کوروٹانہ کی ،پاکستان ائیرفورس میں ملازمت ہونے کی بدولت بچپن سے جوانی تک ائیر فورس کے بہت سے بیس کی خاک چھانی ہے،یوں شہر اور گاؤں کے کلچر کو قریب سے دیکھنے کی”سعادت“حاصل ہے۔ ہم نے ایک دیہات میں خواتین کو سر بازار لڑائی کرتے دیکھا ،غلیظ گالیاں دیتے بھی سناہے،گاؤں کے نوجوانان پے چوری کے الزامات لگتے سنے ،رات کی تاریکی میں جانور کھول کر منڈی میں فروخت کرتے بھی دیکھا ، سر شام پی کر غل غپاڑہ کرنے کی روایت یہاں بھی رہی ہے، ذاتی جھگڑوں کا غصہ مسجد کے امام پے نکالنا اور اس کا کندھا استعمال کرتے ہوئے ،مخالفین پے مقدمات کا اندراج بھی اہل دیہہ کا وطیرہ رہا ہے،بعض نے نوسر بازی کی شہرت دیہات سے پائی ،چھوٹی چھوٹی باتوں سے خانگی جھگڑے کی روایات بھی پائی جاتی ،سرکاری وسائل پے قبضہ کرے کا فن یہ بھی جانتے ہیں،کبھی کبھار باہمی رنجش کی سزا سیورئج لائن کو بندش کی صورت میں اٹھانا پڑتی ،بارش کے پانی پے جھگڑے کی ابتدا ء عدالت کے مقدمہ کی انتہا تک بھی لے جاسکتی ہے، مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے اپنی تمام تر صلاحتیں صرف کرنا عین” ثواب“خیال کیا جاتا ہے،سیاسی مخالفت کے لئے یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ شکست مخالف برادری ہی کو ہونی چاہئے خواہ امیدوار کسی بھی جماعت سے ہوں، تاہم یہ اخذ کرنا کہ دیہات کے تمام باسی ان خرافات کے” امین“ ہیں قطعی درست نہی،البتہ شہروں میں جا بسنے والوں کی بڑی اکثریت کا خیال ہے کہ انھوں نے غیر ضروری جھگڑوں سے نجات اور بچوں کی تعلیم کے لئے ہجرت کا دکھ اٹھایا ہے۔

(جاری ہے)


تاہم ہمارے لئے باعث فخر ہے ،جس دیہات میں آنکھ کھولی وہ مذکورہ خرافات سے کافی حد تک محفوظ تھا اس کی بڑی وجہ وہاں کی بڑی شخصیت چوہدری محمدسردار تھے جو نوجواناں کی ہر سر گرمی پے آنکھ رکھتے تھے کسی کو بلا وجہ چوراہے میں کھڑا نہی ہونے دیتے، اگر کوئی حد سے گذر نے کی کاوش کرتا تو اس کے والدین کو متوجہ کرتے اسی کا یہ فیض تھا کہ دیگر دیہاتوں کے مقابلہ میں یہاں منشات کا شائبہ تک نہ تھا، نہ چوری چکاری تھی ہمارے دہیہ190/W.Bکی خوشحالی بھی دوسری بڑی وجہ تھی جس کا کریڈٹ نوجوانان کو جاتا ہے جنہوں نے عہد شباب میں عرب ممالک میں ہجرت کی، ان میں چوہدری عظمت،الطاف شفیق،محمد اسحاق محمد سرفراز، محمد رشید مرحومین شامل تھے ، اپنی زندگی کا بڑاحصہ وہاں صرف کیا ،جبکہ یورپ میں پہلے پہل چوہدری اسلم گجر،محمد اشرف، محمد اصغر نے رخت سفرباندھا،آج ان ممالک میں بردار عزیز محمد عامر اصغر،کزن ظفر اقبال ،سہیل اکبر،محمد آصف اقبال،آصف عنائت ، ارسلان عارف ،ذکاء اللہ مگر حجاز مقدس میں امانت علی،محمد افضل، محمدوحید، سفیان عارف آج بھی مقیم ہیں ،دیار غیر سے زرمبادلہ بھجوانے کے ساتھ ساتھ گاؤں کی امارت میں بھی اضافہ کا سبب ہیں۔

ان احباب کا تذکرہ یوں ضروری تھا کہ ان کی کاوشوں سے اہل دیہہ کے ذرائع آمدنی بھڑنے کے ساتھ ،عقائد بھی درست ہوئے،پیسے کو تعلیم پے صرف کیا گیا،کاروباری سر گرمیوں کو فروغ ملا، اور نوجوان عصر حاضر کی خرافات میں مبتلا نہی ہوئے ،مقام شکر ہے کہ طالبات کی بڑی تعداد حصول علم میں مصروف عمل ہے۔
مذکورہ بالا خرافات کا تذکرہ بے سبب نہی ، بلکہ اس کے تناظر میں اہل دیہہ کے مسائل کا ذکر کرنا مقصود کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں۔


گذشتہ دنوں پنجاب کے پردھان منتری نے نمبرداروں کو بھاری بھر اختیارات کے ساتھ بچیوں کی تعلیم سے لے کرواجبات کی وصولی تک کی ذمہ داری تفویض کئے جانے کا اشارہ دیا ہے۔ ہمارے ملک کی غالب آبادی دیہاتوں میں رہ رہی ہے، جہاں شرح خواندگی بھی کم ،روزگار کے مواقع بھی محدود ہیں، فارغ مگر باصلاحیت نوجوان اپنی قوت کو منفی انداز میں کھپانے پے مجبو ر ہیں، تعلیم اورروزگار کے لئے شہر ہجرت کرنا پڑتی ہے، اس پے بھاری بھر اخراجات اٹھتے ہیں، جس کو ہر باسی ادا کرنے کی سکت نہی رکھتا،یوں یہ طبقہ لڑائی، مار کٹائی میں الجھ کر وقت اور پیسہ دونوں برباد کر دیتے ہیں،بہت سے خانگی جھگڑے جہالت کی بناء پے سالوں چلتے ہیں، کئی خاندان خوفناک اذیت سے بھی گذرتے ہیں،غیر ضروری مقدمات انتقام کی وہ فضاء پیدا کرتے ہیں کہ بعض اوقات بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں، جسکی ایک وجہ غربت بھی ہے۔


 ماضی میں دیہاتوں پنچائت کا مربوط نظام تھا،لوگ مقدمہ بازی میں نہی الجھتے تھے، ہمارے ہمسایہ پنجاب میں سر پنچ کوسرکاری حثیت حاصل ، اس کے فیصلہ کو عدالتی تحفظ ہوتا ہے، اس طرح کے طریقہ ثالثی کو یہاں بھی فروغ دیا جانا چاہیے تاکہ عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ کم کیا جا سکے ،یہ ذمہ داری بھی نمبر دار کو سونپی جا سکتی ہے، موٹیویشنل سپیکرزکے ذریعہ کسانوں میں مقابلہ کی مثبت فضا کو بھی جنم دینے کی ضرورت ہے ۔

علاوہ ازیں نئے رحجانات کے تحت کاشتکاری کے جدید طریقہ کار، کم مدت اور زیادہ منافع بخش فصلوں کی کاشت کا درس دینا بھی وقت کا تقاضا ہے کیونکہ زمین کی وراثتی تقسیم سے پیداواری یونٹ میں کمی آرہی ہے۔
ہر چند کہ دیہات میں قریبا ایک سے زائد مساجد موجود ہیں، لیکن ان کے امام محدود وسائل اور علم کے باعث اہل دیہہ کی دینی اور دنیاوی اعتبار سے راہنمائی کرنے سے قاصر ہیں، وزیر اعلی پنجاب اپنے پسماندہ خطہ کی بدولت مذکورہ مشکلات سے آگاہ تو ضرور ہوں گے ،اس میں دو رائے نہی کہ جب تک دیہاتی آبادی خوشحال نہی ہو گی، کاروباری سر گرمیاں محدود ہی رہیں گی، کسانوں کو مراعات دینے اوربنیادی سہولیات کے اعتبار سے ٹاؤن کے ہم پلہ لائے بغیر ملکی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہی ہو سکتا، شہروں سے آبادی کا بوجھ کم کرنے کے لئے دیہاتوں میں معیاری صحت ، اچھی تعلیم، اعلی ٹرانسپورٹ کی سہولت کی فراہمی ناگزیر ہے۔


فی زمانہ انفارمیشن کا عہد ہے، دیہات کا نوجوان بھی اس سے آشنا ہے لیکن اسکی وساطت سے اسکو کسی فن سے آراستہ کرکے روزگار کے قابل بنانا لازم ہے،شعبہ صحت کے متعلق بہت سے شارٹ کورسز ایسے بھی ہیں جو اہل دیہہ کی ضرورت ہے،نمبردار کی معاونت سے روزگار کی فراہمی میں مدد لی جاسکتی ہے۔
بعض حلقے غیر معمولی اختیارات کی پیش بندی کو بلدیاتی نظام کا نعم البدل قرار دے رہے ہیں،سابق آمر کے زیر سایہ جونیجو مرحوم کے عہد میں اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ دینے کی ”بدعت“ کا آغاز ہوا جو تاحال جاری ہے یہ صرف ہماری جمہوریت کا خاصہ ہے،حلانکہ یہ ان کے فرائض منصبی میں شامل ہی نہیں، دیہی آبادی کی سماجی، معاشی ترقی بھی بلدیاتی نظام کی محتاج ہے۔


نمبردار اہل دیہہ کا نمانیدہ سامراج کے دور سے ہے اس کے ذمہ مالیہ اور آبیانہ اکھٹا کرنا، قومی خزانہ میں جمع کروانا ہے ،زمین کے انتقال میں اہل دیہہ کی معاونت کرتا، سرکاری افسران، اہلکاران کی آمد پے کھانے کا بندوبست کرتا ہے، مزیداختیارات تفویض کرنے میں کوئی حرج
 نہی لیکن اسکو بلدیات کا نعم البدل قرار نہی دیا جا سکتا۔پردھان منتری پنجاب اگر دیہاتی آبادی کی مشکلات کو کم کرنے کی خواہش رکھتے ، اس میں رائج خرافات کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انھیں وہاں کے نوجوانان کو سماجی خدمت کے لئے مقامی حکومتوں کے فروغ کی دعوت دینا ہوگی۔بشرطیکہ سرکار ان کے انعقاد کو بھی یقینی بنائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :