پیغام

پیر 3 فروری 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ایک ایسے وقت میں جب تاج برطانیہ دوسری عالمی جنگ کے معاشی بوجھ تلے اونگھ رہا تھا اور اسے اپنے ہاتھ سے سلطنت جاتی دکھائی دے رہی تھی، اپنی سرزمین پے سورج غروب نہ ہونے کا دعوی بھی ڈوبنے کے قریب تر تھا ، عین اس وقت زیر تسلط ریاستوں میں آزادی کا سورج طلوع ہو رہا تھا،وہ ایسٹ انڈیا کمپنی جس نے تجارت کی غرض سے برصغیر میں ”سونے کی چڑیا “کی تلاش میں قدم رکھا تھا تب تلک اتنے گہرے کرلیے کہ اکھاڑنے کے لئے ایک تحریک بپا کرنا پڑی،کمبل چھوڑ کر بھاگنے کی جلدی نے تقسیم ہند کی راہ تو ہموار کر دی لیکن معاہدہ امرتسر 1846نے اہل کشمیر کے پاؤں میں غلامی کی بیڑیاں ڈال دیں،مقام حیرت ہے جس دور میں آزادی کی فضا کی خوشبو ہر سو پھیلی ہوئی تھی اس وقت انسانوں کی خریدو فروخت کا سلسلہ خطہ کشمیر میں جاری تھا، اہل کشمیر 75 لاکھ میں فروخت کر دیئے گئے،ڈوگرہ خاندان کی برطانوی بادشاہی کے ساتھ یہ ڈیل انسانیت کے نام پے ایک سیاہ دھبہ ہے،اس وقت کے لارڈ اس کی تلافی چاہتے تو قدرت نے انھیں ہند کی منصفانہ تقسیم کا نادر موقع عطا کیا لیکن انھوں نے اپنے عہدے کے لالچ میں اسکو بھی گنوا دیا،اہل کشمیر پے جتنا بھی ظلم اب تلک روا رکھا گیا ہے اس کا گناہ بھی برطانوی ذمہ داران پے ہے،جنہوں نے مسلم اکثریت رکھنے والی شاہی ریاست کو پاکستان کا حصہ بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا ہے۔

(جاری ہے)

جب مجاہدین نے اپنی مدد کے تحت آزادی کے حصول کی کاوش کی، تو بھی انکی عسکری مدد سے اجتناب کیا، اپنا وزن انڈیا کے پلڑے میں ڈال کے اس خطہ کو ہمیشہ کے لئے بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے،عوام کی خوشحالی کے راستوں پے رکاوٹ کھڑی کی گئی ہے،لاکھوں انسانوں کا قتل، خواتین کی عصمت دری،اور اسیروں کی سی زندگی سے انکی خوشیاں ان سے منہ موڑ چکی ہیں،جنوبی ایشیاء کے وسائل فلاحی کی بجائے عسکری سرگرمیوں پے اٹھ رہے ہیں ،جس سے امیر اور غریب میں واضع تفاوت نظر آرہا ہے۔


اس دور میں انسانی حقوق کا واویلا تو کیا جاتا ہے لیکن جس کیمونٹی کے حق پے ڈاکہ ڈالا جاتا ہے اس ساتھ دینے سے نجانے کیوں اجتناب کیا جاتا ،دائیں، بائیں دیکھا جاتا، پھر تعلقات کو معاشی عینک سے دیکھ کر قدم بڑھایا جا تا ہے، اس رویہ نے پورے عالم میں ناانصافی کا پورا بازار گرم کر رکھا ہے،ظلم اور جبر بچے جن رہا ہے لیکن وہ بڑی طاقتیں جن کے ناتواں کندھوں پے دینا کے امن کی ذمہ داری ہے وہ اپنی اپنی گروہ بندی کا شکار ہیں،وہ ادارہ جس کے فرائض منصبی میں عالمی امن کا قیام ہے اسکی بے بسی دیکھئے کہ اس کے پاس کوئی قوت نافذہ ہی نہی کہ وہ اپنے احکامات پے عمل درآمد ہی کروا سکے،تو ایسے ماحول میں مظلوم اور محکوم اقوام کیسے آزادی کے خواب کی تعبیر حاصل کر سکتی ہیں،اہل کشمیر کی غلامی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔


دنیا کے منصف کیایہ جاننے سے قاصر ہیں کہ کشمیر دواٹیمی طاقتوں کا تنازعہ ہے ،ان کے مابین مسلسل تناؤ کی کیفیت انکی افواج کو باضابطہ جنگ پے مجبور کر سکتی ہے جس کے منفی اثرات سے شائد ہی کوئی محفوظ رہ سکے تو کیا اس کو آخری فرد کی موت کا انتظار ہے؟، دنیا کی خوشحالی کا انحصار بھی اس علاقہ پے اس لئے ہے کہ عالمی دوتہائی آبادی یہاں مقیم ہے جو بڑی مارکیٹ ہے امریکہ، چین، ملائشیاء روس،مشرق وسطی کے ممالک نے جنوبی ایشاء میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، اہل کشمیر کے لئے نہ سہی اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہی اس خطہ کو امن کا تحفہ دیں جو کشمیر کی آزادی سے عبارت ہے۔


اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قراداد کشمیر بوسیدہ ہو چکی ہیں، اسی فورم سے ریفرنڈم کے ذریعہ مشرقی تیمور اور سوڈان کی آزادی کی راہ ہموار کرنے میں عالمی راہنماؤں نے اہم کردار اد کیا ہے ،آزادی کشمیر کے لئے ریفرنڈم کروانے میں کون حائل ہے؟،اس دوہرے معیار سے عالمی فورم پے اٹھتا اعتماد ہی محکوم لوگوں کو عسکریت پسندی پے مجبور کرتا ہے، بھلا اس بھائی کے جذبات کا اندازہ تو لگائیں جس کے سامنے سیکورٹی فورسز اسکی بہن کی عزت سے کھیل رہے ہوں، اس ماں کے مقام پے خود کو رکھ کے دیکھیں جس کے لخت جگر کو بلاوجہ موت کی نیند سلا دیا جائے، اس بوڑھے باپ کا دکھ تو محسوس کریں جس کے جواں بچے کو سیکورٹی کے نام گھر سر اٹھالیا جائے اسکی راہ تکتے اسکی آنکھیں پتھرا جائیں، کیا دینا میں اہل کشمیر کا خون ہی کیوں ارزاں ہے انکا قصور یہ ہے کہ وہ مسلم ہیں اور آزادی ہند کے وقت پاکستان کے ساتھالحاق کے خواہاں تھے ،اسی جذبہ کے سامنے بند باندھنے کے لئے ہندوہستان نے اپنی افواج غیر قانونی طور پے کشمیر میں داخل کی تھیں۔

جسکی سزا ابھی تک مقبوضہ کو مل رہی ہے ۔
اللہ تعالی نے انسانوں کے خون میں کوئی فرق نہی رکھا لیکن اقتدار، دولت کے نشے میں مخمور مقتدر طبقہ نے اسے خانوں میں بانٹ دیا ہے۔
عالمی برادری اگر دنیا میں ناانصافی میں معاونت نہ کرتی تو آج دینا اتنی غیر محفوظ خیال نہ کی جاتی، وہ سرمایہ جو سیکورٹی کے نام پے خرچ ہورہا ہے وہ انسانی فلاح پے صرف ہوتا ،تو ہندو سورماؤں کو بھی کشمیر کی آئینی حثیئیت ختم کرنے کی جرأت نہ ہوتی،متوقع رد عمل نے اس کا حوصلہ اتنا بڑھا دیا کہ اس نے شہریت کے قوانین تک بدلنے کی جسارت کرڈالی ،عوامی رد عمل سے اس کے حوش تو ٹھکانے آگئے لیکن اس سے کشمیر کی آزادی کی راہ ہموار ہوتی دکھائی نہی دیتی،بھاری بھر فوج کی موجودگی نے مقبوضہ کشمیر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے جس میں مبصرین کو بھی جانے کا حکم نہی،اسکی بے شرمی کا پیمانہ لائین آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی ہے جس سے آزاد کشمیر کا امن بھی خطرے میں ہے،
اہل کشمیر مایوسی کے عالم میں ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، جماعت اسلامی کے علاوہ باقی سیاسی پارٹیوں نے انکی حمایت کا روایئتی سا انداز اپنا رکھا ہے،سفارتی محاذ پے چین کی جانب سے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر کے حل کا مطالبہ اچھی پیش رفت ہے،عوامی اور سفارتی سطح پے اسکو تحریک کی شکل دینا وقت کا تقاضا بھی ہے،لیکن اچھا بچہ بننے کی خواہش پال کر دشمن کو محض امن کے پیغام روانہ کرتے رہنے سے حریت قیادت اور کشمیری عوام کی بے بسی اور دکھ میں مزیداضافہ کا باعث ہوگا۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :