یرغمال

پیر 17 فروری 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہمیں نہیں معلوم کہ اراکین پارلیمنیٹ ان والدین کے دکھ درد سے بھی آشنا ہوتے ہیں یا نہیں جن کے بچے دن کی روشنی یا رات کی تاریکی میں ان درندوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور زندگی بھر کے کرب کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں، ان کا قصور اتنا ہوتا ہے کہ ان کے دھوکے میں آجاتے ہیں،لالچ کی نذر ہو جاتے ہیں یا کسی رشتہ دار پے اعتماد کر بیٹھتے ہیں جس کی سزا انھیں زندگی بھر ملتی رہتی ہے، وہ سماج کا سامنا کرنے بھی گریزاں ہوتے ہیں،اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں،نئی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں،انکی ساری زندگی کی ”فیبرکس“ ہی بدل جاتی ہے، وہ قانون کی مدد لینے میں بھی لیت ولعل سے کام لیتے ہیں، وراثت میں ملا پولیس کاسامراجی رویہ اسکی راہ میں اصل رکاوٹ ہوتا ہے،قانون کے رکھوالے ان معصوم بچوں ہی کو مشکوک نظروں سے دیکھ کر رہی سہی کسر نکال دیتے ہیں، وہ بیچارے خود کو ریاست کا مجرم سمجھنے لگتے ہیں،لیکن جن سے گناہ سر زد ہوتا ہے وہ دندناتے پھرتے ہیں،انھیں کامل یقین ہوتا ہے کہ بدنامی کے باعث متاثرہ والدین چپ سادھ لیں گے یوں وہ قانون کی گرفت میں آنے سے محفوظ رہیں گے، اگر قانون حرکت میں آبھی گیا تو کوئی انکے خلاف گواہی دینے کی حماقت نہی کرے گا، نیز پسماندہ خااندانوں کے پاس اتنا وقت کہاں کہ وہ تھانہ، کچہری میں بچیوں کو گھسٹتے پھریں، وکلاء کی بھی بھاری فیسوں کی تاب لانے کی قدرت نہ رکھنے والے آکر تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے، اگر معاشی حالات ساتھ دے بھی دیں گے تو مقدمہ کے سماعت کی طویل مشق انکے اعصاب ہی شل کر دے گی، دونوں صورتوں میں فائدہ انھیں ہی ملے گا۔

(جاری ہے)


 اس قماش کے افرادکو اگر کچھ خوف تھا تو وہ نئی متوقع قانون سازی سے تھا جس کے پیچھے سرعام سزا ئے موت دینے کا عوامی مطالبہ بھی تھا، ان کے خیال میں اس نوع کے مجرم قطعی رحم کے مستحق قرار نہی پا سکتے جو معصوم بچے، بچیوں کی عزت اور زندگی سے کھیلتے ہیں،لیکن عوامی نمایئندگان کی جانب سے جس انداز میں اس جرم کے خلاف سزا کی قرار داد پے طرز عمل اختیار کیا گیا ہے وہ ان بدمعاشوں کے حوصلے بڑھانے کے لئے کافی ہے، اراکین کو اس موقع پے انسانی حقوق بے ساختہ یاد آگئے کہ سرعام پھانسی سے انسانیت دھڑم سے نیچے آگرے گی،بڑی طاقتیں ہم سے نالاں ہو جائیں گی،ہم دینا کو کیا منہ دکھائے گے،کوئی یہ آرزو تو نہی رکھتا کہ خدانخواستہ ہماری مقتدر کلاس کے بچے بھی اس اذیت سے گزریں لیکن اس دکھ سے وہی آشنا ہوتا ہے جو کسی کا شکار بنتا ہے، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسلام سے ذیادہ کوئی انسانی حقوق کا علمبردار ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے، اسلامی سزاؤں کا نفاذ باالفاظ دیگر انسانی حقوق کے تحفظ کا دوسرا نام ہے جس کا فائدہ عام فردا ور معاشرہ کو پہنچتا ہے،امن کی خواہش ،جرائم کی تنزلی ہر سماج کی درینہ آرزو ہوتی ہے اسکا راستہ اسلامی سزاؤں سے ہی ہو کر گزرتا ہے، تاہم سزائے موت کے طریقہ پررائے قائم کرنے میں کوئی حرج نہی،ایک عام فرد ہی نہی بلکہ ماہرین قوانین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں بدیشی قانون میں اتنے سقم ہیں کہ ملزم تو رہا اک طرف بڑا مجرم میں اس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتاہے۔


گذشتہ دنوں ایک پولیس آفیسر سے اس ضمن میں اظہار خیال ہوا تو وہ بھی معترف تھے کہ بڑے سے بڑے مجرم بھی قانون میں نقائص کی بدولت بری ہو جاتے ہیں، شک کا مجرم کو فائدہ دینے کی روایت اتنی پختہ ہو چلی ہے کہ ہے کہ اب انھیں بھی خوف ہونے لگا ہے کہ اگر چند سال کے بعد رہا ہوئے تو نہ صرف پھر سے سماج کے لئے خطرہ بنیں گے بلکہ ان کی زندگی بھی رسک پے ہوگی جو ان سے تفتیش کرتے رہے ہیں۔

بر سبیل تذکرہ وہ گویا ہوئے کہ ضیاء الحق مرحوم کے عہد میں گوجرانوالہ میں پرانی دشمنیوں کی بدولت قتل وغارت عروج پے تھی کوئی دن ایسا نہ گزرتا جس میں کہی قتل نہ ہوتا، اس ماحول میں قاتلوں کے خلاف گواہی کا تصور بھی محال تھا، عدلیہ، اور انتظامیہ اس صورت حال سے خاصی پریشان تھی، زمانہ بھی فوج کا تھا،تو اس وقت کے وہاں عدلیہ کے ذمہ داران نے پولیس کی معاونت سے سزا کا وہ راستہ نکالا جس کے ذریعہ اس علاقہ میں چند ماہ امن قائم ہوا، عدلیہ نے پولیس کے اقدامات کو تحفظ فراہم کیا، بصورت دیگر یہ مجرم رہا ہو کر اپنے مخالفین کے علاوہ عام فرد کا جینا بھی حرام کر دیتے۔


 اسی تناظر میں جنوبی پنجاب کے ایک قصبہ میں انسانیت سوز واقعہ کا ذکر بھی کیا ان کے مطابق پانچ با اثر افراد نے ایک بیوہ کے گھر میں رات کی تاریکی میں اسے سامنے اسکی جوان سال بیٹی کی عصت دری کی، رات بھر وہ یہ گناہ کرتے رہے، موسم سرما کی شدت سے بند گھروں کو اس کی خبر نہ ہوئی اگر ہو بھی جاتی تو کون موت کو از خود دعوت دینے کی جسارت کرتا، بڑا المیہ یہ ہوا کہ جاتے جاتے انھوں نے دونوں کو موت کی نیند بھی سلا دیا اگر یہ بد قسمت بچ بھی جاتیں تو ان کا شمار زندہ لاشوں میں ہوتا ،جس وسیب نے مصیبت میں اسکی مدد نہ کی وہ بھلا اس کے بعد ان کوتحفظ کیسے دیتا۔


 میڈیا پے روپوٹ واقعہ نے ہمارے لیے چیلنج بنا دیا اس کا کوئی عینی شاہد بھی نہ تھا،حالات و واقعات اور جدید ذرائع تحقیق نے مجرموں تک پہنچنے میں مدد دی،آپ اندازہ نہی کر سکتے کہ ہم اس اندوناک سانحہ کی تفشیش کے مابین کس قرب سے گذرے ان کا درد وہی محسوس کر سکتا تھا جس کو عورت کے تقدس کا پاس ہے جو رشتوں کا احترام جانتا ہے، جب ہمیں سو فیصد یقین ہو گیا اور انکے اعتراف جرم نے بھی ہماری منزل آسان کر دی ،اب انکو عبرت ناک سزادالوانا ہی ہماری حیاتی کا بڑا مقصد تھا، بڑی سرکار کو اعتماد میں لے کر انکی سزا کا وہ راستہ چنا گیا جو سیدھا جہنم کو جاتا تھا، انکو ایسے قانون کے رحم وکرم پے چھوڑنا از سر نو محکوم عورتوں کی عزت سے کھیلنے کا پروانہ دینے کے مترادف تھا جو ہمارے ضمیر کو گورارہ نہ تھا، قانون عوام کی حفاظت کے لئے بنائے جاتے ہیں مجرموں کو تحفظ دینے کے لیے نہی۔

ایک لمحہ کے لئے سوچئے اگر گواہی کی عدم دستیابی کی وجہ سے مذکورہ سانحہ کے مجرم سزا سے بچ نکلتے تو کیا اس علاقہ میں کسی کی عزت محفوظ ہونے کا تصور کیا جا سکتا تھا لہذا عدلیہ کو اس نوع کے سنگین مجرموں کیخلاف گواہی کی عدم دسیتیابی کو جواز کر محض شک کا فائدہ دے انھیں پھر سے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کا موقع نہی دینا چاہیے بلکہ زمینی حقائق کو بھی خاطر لانا لازم ہے۔


بیوہ اور اسکی جواں بیٹی کے دل خراش واقعہ کو سامنے رکھ کر اس قرار داد پے اختلاف رائے کا اظہار فرمانے والے ذرا غور تو فرمائیں جو اراکین نے منظور کی ہے۔
 عوامی مطالبہ کی روشنی میں اس نوع کے مجرموں کی سزا کے خلاف قانون سازی کریں،ورنہ پر امن عوام چند مجرموں کے ہاتھوں یرغمال بنی رہے گی، کیا عوام کے انسانی حقوق مجرموں سے ذیادہ مقدم ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :