قیمت

پیر 24 فروری 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہر چند ایک سولجر کے فرزند ہونے کے ناطے فورسزز کے لیے نرم گوشہ اور ہمدردی ہونا تو فطری جذبہ ہے، تا ہم دل نے اس ریاست کے لئے وہ خواب بھی سجا رکھے ہیں جن کی تعبیر شخصیات کی بجائے اداروں کی مضبوطی سے عبارت ہے، عوامی تحریک کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اس مملکت کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ اس پے وہ طبقہ برسر اقتدار رہا جس کے فرائض منصبی میں ایسا کرنا ہی خلاف جرم تھا،لیکن جن کو قانون کی حکمرانی کا بیڑا اٹھانا تھا وہ ہی اپنا کندھا پیش کرنے میں” سعادت “محسوس کر رہے تھے، اور انکے حوالہ پے نازاں بھی تھے ،جن کی کارستانیوں نے جمہوریت کے علم کو بلند کرنے کی بجائے نیچا دکھائے رکھا، اس کا فائدہ اگر کسی سماجی گروہ کو ملا ہے تو وہ چند معدودے خاندان ہی ہیں جو اس وقت بڑی سیاسی قوت شمار کئے جاتے ہیں،سبز انقلاب کے نعروں سے شروع ہونے والا سفر” سب سے پہلے پاکستان“کے مقام پے آکر رک تو گیا ہے لیکن اس کی باز گشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔

(جاری ہے)


 اس طرز کی حکمرانی کے اثرات عوام کی آنکھوں سے تو اوجھل ہی رہتے ہیں ،جب مورخ ماضی کے دریچے کھولتاہے تو ایک بھیانک منظر سامنے ہوتاہے، اس وقت تک زمانہ اپنی چال چل جاتا ہے اور سوائے تاسف کے کچھ بھی بچ نہیں پاتا ہے، سقوط ڈھاکہ سے لے کر دہشت گردی کی نام نہاد جنگ تک چلنے والا منظر ایک فلم دکھائی دیتا ہے جس میں تمام کردار بڑی صفائی سے اپنا اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہو تے جاتے ہیں، عوام ناظرین کی طرح محظوظ ہوتے ہیں تاوقتیکہ پردہ اٹھادیا جاتا ہے، جب زمینی حقائق سے واسطہ پڑتا ہے تو دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے، سہنانے خواب صرف بکھرتے نہیں بلکہ شدت سے ٹوٹنے کا باعث بھی بنتے ہیں، اس عہد کا جوش اب ہوش کا روپ دھارنے لگتا ہے۔

اس عہد کا راوی اظہار آزادی پے قدغن کی بدولت چین ہی چین لکھتا ہے۔
 جب تلک خود کو امیر المومنین کا لقب دینے والی سرکار براجمان رہی ہم بھی خوابوں کی دنیا کے مسافر ٹھہرے جیسے جیسے ان کے عمال سے پردہ اٹھتا گیا ہماری آنکھوں سے بھی ہٹتا گیا، تاریخ کی ورق گردانی کے بعد ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب رہے، آج کے سیاسی ،تعلیمی،معاشی ، فروعی، لسانی مسائل کی ذمہ داری اگر کسی باوردی شخصیت پے عائد کی جاسکتی ہے تو اس عہد کے نیک دل انسان، مردمومن، مرد حق ہی ہو سکتے ہیں، ایک طرف وہ بظاہر عزیز ہم وطنوں کی” خدمت اسلام“ میں مصروف رہے، تو دوسری طرف انھیں امت کی نااتفاقی کا غم کھائے جارہا تھا،کہا جاتا ہے کہ وہ امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے متحرک ہی نہی تھے بلکہ داعی بھی تھے ، لیکن ان کے اعمال اپنی سر زمین پے لسانی، فروعی، علاقائی جھگڑوں کا پتہ دیتے رہے، دو اسلامی ممالک کی فروعی جنگ کا مرکز ہمارا وطن ٹھہرا جس کی کوکھ سے آج بھی مسلکی مسائل جنم لے رہے ہیں۔

بیچارے اپنی تمام تر صلاحتیں اس پارٹی کو ختم کرنے میں صرف کرتے رہے جو انکی ناگہانی وفات کے بعد بھی دوبار اقتدار”انجوائے“ کر کے رخصت ہوئی، اس کی آڑ میں انھوں نے ان افراد سے بھی ہاتھ ملانے میں قباحت محسوس نہ کی جن پے پاکستانی پرچم جلانے کا الزام بھی تھا، روشنیوں کے شہر سے امن کو دیس نکالا دینے لئے ایک محب وطن سیاسی پارٹی کو دیوار سے لگا کرلسانیت کا وہ پودا انھوں نے اپنے دست شفت لگایا جس کے” آفڑ شاکس“ بلیک میلنگ کی صورت میں اب تلک قومی سیاست میں واضع دکھائی دے رہے ہیں۔

نجانے انھوں نے وہی سیاسی غلطی کیوں دہرائی جو ان کے پیش رو نے اپنا اقتدار کسی آمر کے حوالہ کر کے کی تھی، موصوف نے بھی وردی سے نجات کے لئے غیر جماعتی انتخاب کا سہارا لے کر اس بدعنوانی کی بنیاد رکھ دی جو اس سے قبل ہماری سیاسی زندگی سے کوسوں دور تھی، سیاسی نرسری میں انکے ہاتھوں لگائے پودے اب ایک بڑے مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں،قوم منتظر ہے کب اس قماش کے لوگ ذاتی سے نکل کر قومی مفاد کے دائرے میں داخل ہوں گے۔

کہا جاتا ہے کہ اس نوزائیدہ ریاست کی افسر شاہی نے پہلے دس سال جس جانفشانی سے کام کیا وہ اپنی مثال آپ تھا،باوجود اس کے بٹوارہ کے نتیجہ میں جو افسران اس کے حصہ میں آئے انکی تعداد انگلیوں پے گنی جاسکتی تھی،انڈین سول سروس کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے نئی کھیپ تیار کی گئی جس نے اس عہد کے بیوروکریٹ اور وزیراعظم کی معاونت سے اس قوم کو پہلا آئین دیا ، جس کو انکے پیٹی بھائیوں نے معطل کر دیاجس نے اگے چل کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کی،افسر شاہی کے معیار اور مقدارپے ضرب لگانے کا” ثواب“ بھی انکو جاتا ہے جوآئین کو چندصفحات کی کتاب دے اسے پھاڑنے کی دھمکی لگایا کرتے تھے، افرشاہی میں بدعنوانی کی طرح تو ان کے ہم منصب نے ڈالی تھی ، تاہم دوام انکے عہد حاصل ہوا”، شریفین “ امیر المومنین کی اسی ا فسر شاہی سے اپنے مفادات حاصل کرتے رہے،اور ان تمام اندرونی ”وارداتوں“ سے آشنا ہوگئے جو کسی بدعنوان حکمران کو بچ نکلنے کا آسان راستہ بتاتی ہے ،جس پے قابو پانے میں ناکامی کا اعتراف موجودہ سرکار کوبھی کرنا پڑا۔

ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ اگرستر کی دہائی کی نور خاں تعلیمی پالیسی من وعن نافذ ہو جاتی تو آج قوم کے پاس سائینسدانوں کی اک بڑی تعداد ہوتی، دیگر ماہرین ہر شعبہ زندگی میں اسے میسر ہوتے لیکن شومئی قسمت سیاسی ابتری نے موقع فراہم نہ کیا تانکہ بھٹو جی وارد ہو گئے اور پورا تعلیمی نظام ہی بلڈوز کردیا گیا،ادارے قومی تحویل میں لئے گئے،عزیز ہم وطنوں کے نام سے اقتدار پے شب خون مارنے والوں نے اس کے برعکس تعلیم کو تجارت بنانے کی پہلی اینٹ رکھ دی جو اب قوم کا درد سر بن چکی ہے، شرح خواندگی بڑھانے کے” ثواب“ سے ذیادہ اس کے مافیا بننے کا” گناہ“ صاف نظر آرہا ہے، جو ایک پڑھا لکھا ہجوم پروان چڑھا رہا ہے، تعلیمی اداروں ہی میں اگر فروعی، لسانی، گروہی فساد پیدا ہونے لگے تو نسل نو کو تربیت کے لئے کون سا مقام بہتر ہے؟
ہمیں اعتراف ہے کہ غیر سیاسی عہد میں عوام کو ریلیف میسر آتا ہے، مہنگائی کم ہوتی ہے، روزگار بھی فراہم کیا جا تا ہے، قانون کی حکمرانی کو پوری قوت سے نافذ کرنے کی کاوش کی جاتی ہے اس دور کے مابعد اثرات اس قدر بھیانک ہوتے کہ ریاستیں ٹوٹ جاتی ہیں، جبر کے دن تھوڑے ہوتے ہیں لیکن قوم کو اس کی بھاری قیمت اد کرنا پڑتی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو آج روس اپنی پہلی حالت میں ہوتا تاریخ کا بڑا ہی تلخ سبق ہے کہ گھٹن کی فضا کو فروغ دینے والے بادشاہ بھی اپنی شاہی سے محروم کر دیئے جاتے ہیں، اپنی طاقت کے زعم میں مبتلا حکمران یا فرد کی نجات اسی میں ہے کہ وہ قوم کو کسی امتحان سے دوچار نہ کرے۔

قائد کی ریاست کے ٹوٹنے کی بڑی قیمت اس نے ادا کی ہے۔جس کا ایک سبب طاقت کا استعمال بھی تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :