کردار

پیر 2 مارچ 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

وہ زمانہ جیسے عہد جاہلیت کہا جاتا ہے اس کے بھی کچھ راہنماء اصول تھے، عرب کی اس سوسائٹی میں ایک تو بہادری کاشہرہ تھا دوسراوہ جھوٹ نہی بولتے تھے، افراد اتنی نفرت کرتے تھے کہ جھوٹے خاندان سے سماجی بایئکاٹ تک کردیتے ،جھوٹا خاندان ہونے کا طعنہ کئی نسلوں تک سننا پڑتا تھا،نبی آخر زماں نے اس قوم کی نفسیات کو سامنے رکھ کر جب دعوت دین دی تو پہلا سوال یہی کیا کہ آپ میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو تو سب نے بیک وقت کہا کہ آپ صادق اور آمین ہیں،مطالعہ قران سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام اقوام جنہوں نے انبیاء کی تکذیب کی وہ صفحہ ہستی سے مٹادی گیئں، لیکن عرب قوم کی غالب اکثریت میں اچھائی کا پہلو نمایاں تھا اس لیے زیادہ تر نے آپ کی دعوت پے لبیک کہااور جنہوں نے جھٹلایا وہ دیدہ عبرت بن کرتاریخ میں گم ہیں،اقوام ہوں، سماج یا افراد اپنے اچھے کردار کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

(جاری ہے)


کہا جاتا ہے کہ جاپان میں ایک باسونامی آیا سرکار کے حکم پے عوام کو اپنی حفاظت کے لئے ہجرت کاعارضی دکھ اٹھانا پڑا، میڈیا کی بے بنیاد خبر کی بدولت بعض علاقہ جات سے لوگوں نے روزمرہ کی اشیاء اتنی وافر مقدار میں خرید کر لیں کہ ڈیپارٹمنٹل سٹورز میں انکی قلت ہو گئی اس سے دوسرے علاقہ کے لوگ بھی متاثر ہوئے ،جب سرکار کو اس صورت حال کا علم ہوا تو میڈیا کی وساطت سے اپیل کی گئی کہ جس شہر میں آپ نے اشیاء ضرورت سٹور کی ہیں وہاں سونامی کا کوئی خطرہ نہی لہذا اضافی اشیاء کو وآپس کرکے اپنی رقم لیں تاکہ دوسرے افراد کو پریشانی نہ ہو ،جاپانی قوم نے لائین میں لگ کر سرکار کے حکم کی تعمیل کی، سونامی تھمنے کے بعد جب متاثرہ لوگ وآپس اپنے گھروں کو لوٹے تو انکے گھروں سے ایک سوئی بھی غائب نہ تھی، راقم کو یاد پڑتا ہے کہ جب آخری سیلاب نے جنوبی پنجاب کا رخ کیا تو بہت سے افراد کو محفوظ مقامات پے پناہ لینا پڑی جب وہ اپنے ڈور ڈنگر سے ساتھ بے بسی کے عالم میں کشتیوں سے اتر رہے ہوتے تو ابن الوقت انکی قیمتی گائے، بھینس، بکری اونے پونے خرید کر رہے ہوتے تھے،اسی طرح کی ایک روایت امریکی سوسائٹی کے بارے میں بھی ہے کہ ایک دفعہ ان کے صدر مقام میں چند منٹ بجلی کا بریک ڈاون ہوا تو اس قلیل مدت میں نجانے کتنی خواتین کی بے حرمتی ہوئی اور کتنے گھر لوٹ لئے گئے، نہ سماج ان پڑھ تھا نہ ہی اسے غربت کا سامنا ، مذکورہ بالا واقعات میں معاشرتی رویوں کا موزانہ ہے، آج بھی پورے عالم میں جاپانی قوم کو دنیا کی مہذب قوم جانا جاتا ہے، تعلیمی ماہرین اخلاقیات پے مبنی اس نصاب کو کردار سازی کا اہم سبب قرار دیتے ہیں جو بچے کوابتدائی کلاسز میں بغیر کتاب سے پڑھایا جاتا ہے،زمینی حقائق یہ بتا تے ہیں کسی بھی سماج کے رویئے جاننے کاپیمانہ اس کا تعلیم یافتہ طبقہ ہوتا ہے، پروفیسر اشفاق مرحوم برملا کہا کرتے تھے کہ ہمارے ملک کو زیادہ نقصان پڑھے لکھے افراد نے پہنچایا ہے۔

گذشتہ دنوں احباب کی ایک محفل میں ڈاکٹر ز جیسی تعلیم یافتہ، مہذب کلاس زیر بحث آگئی،ایک دوست گویا ہوئے کہ مجھے ملتان میں ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک پرایئویٹ ہسپتال میں اپنی زوجہ کے چیک اپ کے لئے جانے کا اتفاق ہوا،کاوینٹر پے فیس کی ادائیگی کے بعد جب ہم ڈاکٹر کے کمرے کے باہر تھے تواپنا نمبر آنے پے حاضر ہوئے،موصوف نے آنے کا سبب پوچھا میں نے بات کا آغاز کیا وہ جھٹ بولے مریض کون ہے میں نے مسز کی طرف اشارہ کیا ڈاکٹر بولے انکو بات کرنے دیں جب ضرورت محسوس کروں گا تو آپکو بھی موقع دیا جائے گا، مریض کی بات سن کر ہمیں باہر جانے کو کہا فراہم کردہ فائل کا مطالعہ کرنے لگے قریبا چالیس منٹ کے بعد وہ خود باہر آئے میرا ہاتھ پکڑا ساتھ چلنے کو کہا ہمارا گمان تھا کہ کسی دوسرے ڈاکٹر سے رائے لینے جاری رہے ہیں لیکن وہ خلاف توقع کاونیٹر پے لے گئے ، عملہ سے فیس لے کر مجھے وآپس کر دی ،کہنے لگے جو ادویات تجویز کی ہیں وہ درست ہیں ،انکو جاری رکھیں، فیس کے وآپسی کا سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ میں نے کوئی نئی دوا ئی نہی لکھی صرف مریض کی میڈیکل ہسٹری پڑھی ہے اس لئے اخلاقی طور پر آپ سے فیس لینے کا حق دار نہی ہوں، موصوف نہ صرف سپشلسٹ ڈاکٹر ہیں بلکہ فارن کوالیفایئڈ بھی تھے، یہی صاحب فرمانے لگے ایک روز مجھے معدہ کی تکلیف نے آلیا میں نے شہر کے مہنگے ایلیٹ کلاس کے ہسپتال کا رخ کیا۔

یہاں ڈاکٹرز حضرات خود فیس وصول کرتے ہیں،البتہ کاوینٹر پے موجود عملہ آپ کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتا ہے انھوں نے ایک ڈاکٹر کے پاس جانے کہ ہدایت کی، ہم نے معاملہ ان کے سامنے رکھا ، ہاتھ میں پکڑی فائل طلب کی، کچھ دیر مطالعہ کے بعد فرمانے لگے کہ آپ ساتھ والے کمرے میں موجود دڈاکٹر کو اپنا چیک اپ کروالیں البتہ جاتے ہوئے مجھ سے ضرور ملتے جانا، ہم نئے کمرے میں داخل ہوئے، ڈاکٹر نے بھاری بھر نسخہ تھا دیا اور ٹیسٹوں کی ایک فہرست بھی، بوجھل دل کے ساتھ باہر نکلے اور سابقہ کمرے میں اس نیت سے داخل ہوئے کہ انکے حکم کی تعمیل بھی ہوگی اور مشورہ بھی لے لیں گے، داخل ہوتے ہی کہا جی فرمائے ! ڈاکٹر صاحب کہنے لگے آپ نے میری فیس ادا نہی کی، دوست کہتے ہیں جوابا میں نے کہا کہ آپ نے تو میرا چیک اپ ہی نہی کیا تو فیس کیسی؟ بولے کہ آپکی فائل دیکھ کر آپکو ساتھ والے کمرے میں جانے کو میں نے ہی کہا تھا ، میں بھی مشورہ فیس ہی مانگ رہا ہوں جو محض دو ہزار ہے زیادہ تو نہی، مرتے کیا نہ کرتے والا معاملہ در پیش تھا۔

 ادویات کے استعمال کے باوجودآفاقہ نہ ہوا، ٹیسٹوں کے واجبات الگ سے ادا کئے، درد بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی والا معاملہ کا سامنا تھا، ایک روز اپنی دوکان میں قائم فارمیسی میں بیٹھا تھا کہ فارمیسٹوں کی ایک تعداد اندر داخل ہوئی میں نے اپنی رام کہانی سنائی اورمدعا پیش کیا تو سب نے بیک زبان کہا کہ فلاں ڈاکٹر کے پاس چلے جاؤ، وہ کمرشل مزاج نہی رکھتا ، اس علاقہ کا وہ واحد ڈاکٹر ہے جو ہم سے کمیشن نہی لیتا، کوئی فرمائش بھی نہی کرتا، مریض کے لئے غیر ضروری ادویات تجویز بھی نہی کرتا، اسکا نسخہ بڑا سستا ہوتا ہے ، اللہ تعالی نے اس کے ہاتھ میں بڑی شفا رکھی ہے، یہ بھی فارن کوالیفایئڈ ہے مگر بہت سادہ، درویش صفت ہے، مسیحا کا لفظ اس پے صادق آتا ہے۔

نول کروناوائرس کی دھوم نے دینا کی معاشی سرگرمیوں پے روک لگا دی ہے،قدرتی آفت سمجھ کر خوف خدا رکھنے کی بجائے بعض مفاد پرست عناصر ماسک کی فروخت کے ذریعہ ناجائز منافع کمانے کے قبیح جرم میں شریک ہیں، ہمارا ادراک ہے اگر آیٹم بم ہروشیماء ،ناگا ساکی کی بجائے کسی دوسرے شہر میں یا قوم پے گرے ہوتے تووہ آج بھیک مانگ رہی ہوتی، جاپانی قوم کے کردار نے اسے عالمی برادری میں پھر سے عروج عطا کیا ہے ، اقوام یا افراد کی بقاء بدکرداری، ذخیرہ اندوزی میں نہی بلکہ کردار میں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :