پہلا قدم

ہفتہ 4 اپریل 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

افغانستان کا دارالحکومت کابل وہ شہر ہے جس پر اسکے اپنے شہری اور فرماروں بھی راکٹ برساتے رہے ہیں،اس صدر مقام نے جہاں بڑے فاتحین کو پناہ دی، وہاں گذر گاہ بھی فراہم کی،فتح اور قبضہ کی آس لے کر فارس سے وارد ہونے والے جس فاتح نے بھی دہلی کا رخت سفر باندھا اس نے کابل میں قیام کو لازم قرار دیا، ماضی میں بھی یہ شہر کئی بادشاہوں کا مسکن قرار پایا۔

سکندر اعظم، تیمور، محمود غزنوی،بابر جیسی طاقتور شخصیات کی یہ راہ گزر رہی ہے ،اسکو مفتوح کرنے کا آغاز یونانیوں سے ہوا اور روس تک جا پہنچا، اس مدت کے دورران ایرانیوں، ترکوں، منگولوں، اور برطانیوں نے بھی قسمت آزمائی کی، زیادہ دیر اس خطہ میں قیام کسی کو بھی نصیب نہ ہواتاآنکہ برطانوی سامراج سے 1919ء میں ایک معاہدہ کے نتیجہ میں افغانیوں نے آزادی حاصل کرلی وہ اس عہد ہی کو اپنی آزادی کا دور کہتے ہیں، دلچسپ امر یہ ہے کہ ہرات جو پانچ ہزار قبل یونانی دور میں بھی پورے ملک کیلئے آناج پیدا کرتا تھا دینا کا قدیم شہرہے، جغرافیائی طور پر یہ وطن جنوبی ایشاء،مشرق وسطی،اوروسطی ایشاء کے مابین ایک پل کا کردار ادا کر سکتا ہے،افغانستان اور تاجکستان کے مابین صرف سولہ کلومیٹر کا علاقہ پاکستان کے قریب تر ہے ذرائع کے مطابق اس کے حصول کی بات ہورہی ہے، کامیابی کی صورت میں بذریعہ ریل وسطی ریاستوں تک رابطہ ممکن ہو سکے گا۔

(جاری ہے)


افغان قوم کا شمار دنیا کی بہادر اقوام میں ہوتا ہے جس نے محدود وسائل کے باوجود بھی بڑی طاقتوں کو شکست فاش دے کر ذلت اور رسوائی سے انھیں دو چار کیا اور کبھی غلامی اختیار نہیں کی ہے،لیکن بدقسمتی، ایسی کہ بھوک اور افلاس ہی انکا مقدر رہا،اس وقت بھی سب سے ذیادہ بیوگان کی تعداد یہاں موجود ہے، سونا، چاندی،تانبا، نمک،کانسی،سلفر،کوئلہ پر مشتمل یہ سرزمین قدرتی، معدنی وسائل سے بھی مالا مال ہے، لیتھیم دھات یہاں بھی پائی جاتی ہے جو دنیا کے چند خوش قسمت ممالک کے حصہ میں آئی ہے اسکا امتیاز یہ ہے کہ یہ موبائل کی بیٹری میں استعمال ہوتی ہے، بارہ فیصد رقبہ قابل کاشت ہے لیکن تاحال اس کے ایک فیصد پرکھیتی باڑی ہو رہی ہے، یہاں چار دریا ہیں سب سے ذیادہ پانی ہلمند میں بہتا ہے پھل، انار،انگور ،خوبانی، آڑرو لذیذ اور عالمی شہرت رکھتے ہیں، غالب آبادی محنتی جوانوں پر مشتمل ہے، ذیادہ تر لوگ ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے وابستہ ہیں،اسکی پچیس فیصد آبادی شہروں میں مقیم ہے باقی دیہات کے باسی اور کچے گھروندوں میں مقیم ہیں، بڑی طاقتوں کے حملوں نے انکے شہر تباہ کردیئے اور باہمی جنگ وجدل نے انکی غربت میں اضافہ کیا ہے، کہا جاتا ہے کہ انھیں امن طالبان کے دور میں میسر آیا مگر اس قوم نے اسکی بھی بھاری قیمت ادا کی،کابل، کندھار، ہرات اور دیگر شہروں پر قبضہ کے خبط میں طالبان نے بے گناہ، معصوم شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا ، زخمیوں نے طبی سہولت نہ ہونے کی بناء پر صحرا میں جان کی بازی ہار دی ،بعض کو مجبورا ہجرت کرنا پڑی،طالبان نے عوامی بے بسی پر اپنے اقتدر کی بنیاد رکھی اور26 ستمبر1996ء ریڈیو کابل کے ذریعہ شریعت نافذ کردی تب یہ” ریڈیو شریعہ“ قرار پایا، طالبان کی شریعت اس شعر کی مصداق تھی۔


خدا ہیں لوگ گناہ و ثواب دیکھتے ہیں
سو ہم توروز ہی روز حساب دیکھتے ہیں
 اسامہ بن لادن کی مہمان نوازی نے نائن الیون کا سانحہ ان کے مقدر میں لکھ دیا، قابل ستائش یہ کہ اس قوم نے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر جانفشانی سے یہ معرکہ بھی سر کیا۔
 پھر وہ لمحات بھی چشم فلک نے دیکھے کہ طالبان کے مرحوم وہ شرمیلے بانی جو کسی عالمی وفد کا سامنا کرنے کی اہلیت ہی نہ رکھتے تھے انکی جماعت کے روح رواں مذاکرت کی میز پر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی شرائط پر اس سورماء کے سامنے محوگفتگو تھے جو نیو ورلڈ آرڈر کے خمار میں مبتلا تھا۔

اس بڑی فتح کے بعد اہل افغان پھر نئے وہم میں گم ہیں، ایک نئی خانہ جنگی کا وسوسہ دامن گیر ہے،سابقہ اور غیر مقبول انتخاب کے نتائج نے دوہری مصیبت کھڑی کر دی ہے، مقتدر طبقہ نے الگ الگ حلف اٹھالئے ہیں، قیدیوں کی رہائی جو انکل سام کے ساتھ معاہدہ کا لازمی جزو تھا تاحال حل طلب ہے، نائن الیون کے شر سے ایک خیر نئے آئین کی صورت میں بہر حال برآمد ہوا ہے جس کو جرگہ کی بھی حمایت حاصل ہے یہ اسلامی دستور ہے، اگر کوئی اہل قیادت افغانی قوم کی قسمت بدلنے کا مصمم ارادہ کرلے تو دستور اسکی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا۔


 اسلامی ،قبائلی کلچر رکھنے والی سوسائٹی کے لئے ہم سماجی ترقی کے دو ماڈل افغان مقتدر کلاس کے سامنے رکھنے کی جسارت کرتے ہیں، یہ آزمودہ ہیں اور قابل عمل بھی، سماج کے درد مند، پڑھے لکھے افراد کے لئے نسخہ کیمیاء کی حثیت رکھتے ہیں، اگر سرکار بھی اس کار خیر میں شریک ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ ہو گا۔
ایک ماڈل اخوت ادارے کا ہے اسکے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب اس وقت دنیا کے امیر کبیر افراد میں شامل ہیں لیکن انکی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اکیلے صاحب ثروت ہونے کی بجائے معاشرہ کے پسماندہ افراد کو انپے ساتھ اہل ثروت میں شامل کیا ہے، انکے قائم تعلیمی ادارے پاکستان کا حسین مستقبل ہیں، افغانستان میں لسانی، گروہی جھگڑوں کا دیر پا حل بھی اس ماڈل میں موجود ہے، قلیل رقم سے کاروبار کا آغاز کرنے والی اس محب وطن شخصیت نے محض سترہ سال میں ایک ہزار ارب کے اثاثے بنا کر ہزاروں خاندانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی قابل تقلید قومی خدمت انجام دی ہے،عام فرد کو ایک اینٹ کی خرید نے کے وژن سے مادر علمی کی بنیاد رکھ کر پورے سماج کو اجتماعی طور پرکام کرنے کا نیا جذبہ دیا ہے۔


دوسرا ترقی کا ماڈل ، نوبل انعام یافتہ، معروف بینکار بنگلہ دیش کا ہے، جنہوں نے خواتین کو شریک کاروبار کیا،سماج سے غربت کے خاتمے میں مدد دی،ڈاکٹر یونس کے خیال میں مردوں کی نسبت خواتین کو قرض دینا زیادہ مفید ثابت ہوا۔وہ غربت کو معاشرہ کے لئے بڑی دھمکی تصور کرتے ہیں اور ریاست کے لئے بڑا خطرہ بھی۔
بیرون ملک مقیم افغانی، ،تعلیم یافتہ کلاس ہم وطنوں کے لئے اگر نرم گوشہ رکھتے ہیں تو انھیں سماجی ترقی کے مذکورہ ماڈ ل سے استعفادہ کرنا ہوگا، انکی روایات اور کلچر میں بھی یہ قابل عمل ہیں، آج کے انفارمیشن عہد میں دونوں ماڈل کا لٹریچر انٹر نیٹ پر دستیاب ہے ،عام افغان شہری بھی پڑھ سکتا ہے۔


 باہم سماجی ڈائیلاگ ناگزیرہے اسکا اہم مقام جامعات ہیں، خدا بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود کاوش نہیں کرتی، قرض کی مہہ بھی کچھ مدت تک مزہ دیتی ہے پھر یہ روگ بن جاتی ہے۔اب دیکھنا ہے کہ افغانیوں کو غربت کی دلدل سے نکالنے کے لئے پہلاقدم کون اٹھاتا ہے۔کون ڈاکٹر امجد اور یونس کا ثانی بنتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :