کلچرل بم

جمعہ 19 جون 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہم دور بین تھامے اس دنیا کو دیکھ رہے ہیں جو ہمارے ٹی وی ڈراموں میں دکھائی تو جاتی ہے، مگر نظر نہیں آتی، بڑے بڑے محلات، نئے نئے ماڈل کی گاڑیاں، دیدہ زیب ملبوسات،اور اعلی کوالٹی کا فرنییشڈ فرنیچیر، نوکر چاکر اور بڑے فارم ہاوسز اس کے علاوہ ہوتے ہیں، جس ملک کی چالیس فیصد سے زائد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو، اس کو اس ماحول کا سحر کر دینا کس فنون لطیفہ میں آتا ہے؟،ڈرامہ نگاری سے وابستہ قلم کار اس مصنوعی دینا کو تخلیق کر کے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ اگر ان کا منشاء ترغیب ہے کہ قوم اس مقام تک پہنچنے کے لئے جدوجہد کرے تو اسکا کردار کا بھی اس کے مطابق ہونا لازم ہے، مگر جو کچھ پیش کیا جاتا ہے وہ اس وژن ہی سے کوسوں دور ہے، تمام کہانیاں اخلاقی اور سماجی اقدار سے میل نہیں کھاتیں بلکہ وہ دکھانے دانستہ” سازش“ کی جارہی ہے جو عوام دیکھنا ہی نہیں چاہتے ، اور جس میں انکی دلچسپی ہے وہ سرے سے موجود نہیں، یہ محض عوامی جذبات نہیں بلکہ فلم اور ڈرامہ کی دنیا سے تعلق رکھنے والے سینئر اداکار بھی شکوہ ہے کہ نسل نو کی تربیت درست خطوط پر نہیں کی جارہی، دکھائے جا نے والے کردار ہماری ثقافت اور تہذیب سے تعلق ہی نہیں رکھتے،نہ تو ان میں رشتوں کا احترام نظر آتا ہے نہ ہی عزت کی جھلک دکھائی دیتی ہے، محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہر رشتہ دوسرے کو دھوکہ دینے میں مصروف ہے، وہ مقدس رشتے جو ہماری عملی زندگی میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں انکی سر عام پامالی جارہی ہے نسل نو کو خود سر بنا کر پیش کرنے کا مطلب انھیں خود مختار بنانے کی خوش فہمی میں مبتلا کرنا ہے،بہنوئی، سالی، داماد، بہو، سسر کے باہم عشق کو ڈرامہ کا حصہ دکھانا،کس سماج اور کلچر میں پسند کیا جاتا ہے، پروڈوسر اور ڈرامہ ساز کے پاس اس کا کوئی تو جواز ہوگا؟ اگر ایسا نہیں تو پھر کس کے ایجنڈا پر کام کیا جارہا ہے، گمان یہ ہے کہ اس قماش کے لوگوں کا ہدف خاندانی نظام کو کمزور تر کرنا ہے۔

(جاری ہے)


یہ زندہ انسانوں کا معاشرہ ہے جس کا درخشاں ماضی ،جاندار تہذیب ہے،اور مذہبی وابستگی بھی رکھتا ہے۔ اسکی درست سمت میں راہنمائی کرنا،نسل نو کی کردار سازی کرنا ریاست کے فرائض منصبی میں شامل ہے، فی زمانہ میڈیا ہی ایک موثر ذریعہ ہے لیکن اسکی وساطت سے نہ صرف مذہب کے حوالہ سے وہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں جو باعث انتشار ہیں، قیام پاکستان کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کر کے گمراہی پھیلائی جاتی ہے، اگر بالی وڈ یہ شرارت کرتا تو دوش نہیں تھا لیکن مخصوص ہاتھ خاموشی سے یہ فرض انجام دے رہے ہیں، جب ڈرامہ نگار ہر کسی کو دھوکہ دہی ہی کا سبق دیں گے تو پھر سچ اور حق کا بول بالا کیسے ممکن ہے، دورنگی سکھانے کی ساری مشق کب تلک چلے گی؟ جو اتھارٹی ڈرامے مانیٹر کرنے کی غرض سے قائم ہے کیا یہ سب اسکی نظر سے اوجھل ہے؟ کہ کس طرح محرم رشتوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔

ہمارے ہمسایہ ملک میں سکھ کیمونٹی نے اپنی فلموں کی وساطت سے اپنے کلچر کو آباد رکھا ہوا ہے اسکی مقبولیت نے بالی ووڈ کو بھی مات دی ہے ہمارے پنجاب میں بھی یہ کافی مقبولیت حاصل کر چکا ہے، اسکی وجہ وہ مناظر ہیں جو فطرت کے عین قریب ہیں وہ کچے گھروندھے، کھیت میں چلتے ہل، اور خاندان کا ملن اسکی خوبصورتی ہے، نجانے ہمارے ڈرامہ ساز کس احساس محرومی کا شکار ہیں، سوشل میڈیا پر اپنے کلچر سے متعلق شئیر پوسٹ بہت وائرل ہوتی ہے کیونکہ اس میں لوگ خود کو شریک سمجھتے ہیں، جب ہمارا سماج اپنی تہذیب ، کلچر، روایات دیکھنا چاہتا ہے تو اس کو کیوں مغربی کلچر دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، میڈیا ہمسایہ ملک کے فنکار کی خودکشی پر جب واویلا کرتا ہے تو لبرل کے کان کھڑے نہیں ہوتے لیکن جونہی اسلامی تہذیب سے متعلق کوئی پروگرام نشر ہوتا ہے تو اس کے خلاف فوراً پروپیگنڈہ شروع ہوجاتا ہے۔


دُینا میں اسلامی کلچر سے ماخوذ ارطغرل غازی ڈرامہ سیریل کافی مقبول اورکئی ارب کا کاروبار بھی کر چکی ہے ، یہ ڈرامہ پانچ سیزن پر مشتمل ہے جس میں بانی خلافت عثمانیہ کے والد ارطغرل کا کردار فلمایا گیا ہے، دنیا کے اٹھاسی ممالک میں عظیم مسلم سلطنت کے قیام کا پیغام گیا ہے، جو سکرین پر سلطنت کے باسیوں کا رہن سہن دیکھ رہے ہیں نبی آخر زماں سے بے پناہ عقیدت، محبت، ترکوں کی جنگی مہارت، طرزندگی ، غازی کے جانثاروں کی بہادری ،مذہب سے وابستگی، ظلم سے نفرت، انصاف کے اطلاق کی کاوش، اور امت کا شاندار ماضی،اور حق کے لئے لڑنایہ اسکا فلسفہ ہے ، اس ڈرامہ کو مسلم دنیا کے مقبول حکمران طیب اردگان نے اپنی نگرانی میں تیار کروایا ہے۔


وزیر اعظم نے اردو ترجمہ کے ساتھ ریاستی ٹی وی کی وساطت سے نشر کرواکر نسل نو پر احسان کیا ہے، ہالی اور بالی ووڈ کی دلداہ نوجوان ان کے سحر سے نکل رہے ہیں۔مسلم تاریخ سے ماخوذ ڈرامہ ہر طبقہ میں بہت مقبول ہے ،بچے بخوشی والدین کے ہمراہ اس کو دیکھتے ہیں۔
تاہم روشن خیال، لبرل، مذہب بیزار حلقے اس کو ہضم نہیں کرپارہے، ان کا خیال ہے کہ جنگ وجدل، قتل وغارت کی ہیروازم کے منفی اثرات معاشرہ پر مرتب ہوں گے،منافقت کی کیا اعلی مثال ہے کہ جو ظلم وستم، قتل وغارت، مظلوم کشمیریوں، اہل فلسطین اوربرما پر روا رکھا جارہا ہے ا س پر تو لب کشائی بھی نہیں کر تے، مذمت کے چند بول بھی ادا نہ ہوتے ،لیکن ایک ڈرامہ میں مناظر نے اوسان خطا کر ڈالے، انھیں یہ بھی قلق ہے کہ یہ ہمارے ہیروز نہیں، اگر انکا حافظہ کمزور نہ ہو تو عرض ہے کہ بانی پاکستان نے عالمی میڈیا کے سامنے دوقومی نظریہ کا جوازپیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مسلم اور ہندو کے ہیرو زبھی الگ الگ ہیں، کیا خلفائے راشدین پوری امت کے ہیرو زنہیں؟ انھیں منقسم کیا جا سکتا ہے؟
 نام نہادامن کے داعی روشن خیال طبقہ کی منطق سے شائد ہی کوئی اتفاق کرے ،بے گناہ مسلمانوں کے قتل پر بھی تنقیدسے گریزاں رہنے والوں میں یہ اخلاقی جرات کہاں کہ وہ مغربی ناانصافیوں کو پردہ سکرین پر لاتے اوراسکے استحصالی نظام کو عیاں کرتے ۔


ارطغرل غازی کی مقبولیت کو دیکھ کر بہت سے معروف قلم کار اس طرز کے شاہکار تخلیق کر نے کے آرزو مند ہیں، قیاس کیا جا تا ہے کہ وہی تخلیق اب شہرت پائے گی جس میں سماج کے جذبات، احساسات، کلچر ، روایات کو سامنے رکھا جائے گا،اداکاروں کو یہ اندازہ ہوچکا ہوگا کہ گلیمیر کی دُینا ایک سراب ہے، اچھے کردار زندگی اور عزت دیتے ہیں۔ تنگ نظری اور تعصب کی عینک سے دیکھنے والے اس ڈرامہ کو” کلچرل بم“ اس لئے قرار دے رہے ہیں کہ اس کی وساطت سے نوجوانان میں مذہبی لگاؤ بڑھنے لگا وہ اسلامی کلچر اور تہذیب سے آشنا ہونے لگے ہیں۔

امید کی جاتی ہے کہ امت کے مابین رنجشیں کم کرنے کا باعث بھی ہوگا، جہاں تک مقامی اداکاروں کا تعلق ہے تو انکے رزق اور صلاحیت میں یہ کیوں کر حائل ہوسکتا ہے، اس معیار کے حامل ڈرامہ جات تخلیق کرنے میں وزارت ثقافت، فنون لطفیہ کے سامنے کیا امر مانع ہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :