مغربی دہشت گردی

اتوار 1 نومبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

ہمیں بتایا جاتا ہے، کہ برطانوی لنکن ان یونیورسٹی کے مرکزی دروازہ پر نبی آخر الزمان کااسماء گرامی بطور دنیا کے بہترین قانون دان کے درج ہے، روایت ہے کہ اسی نسبت سے بانی پاکستان نے اس میں داخلہ لینے کو اعزاز خیال کیا تھا، اس وقت برطانوی تعلیمی اداروں کو وہی علمی حثیت حاصل ہے جو قبل مسیح یونان کے شہر ایتھینز کوعلمی بنیاد پر میسر تھی، اس وقت بھی ولائت میں دنیا بھر سے طالب علم اپنی علمی پیاس بجھانے کشاں کشاں چلے آتے ہیں،روایت ہے کہ امریکی سپریم کورٹ کے باہر ایک تختی پر رقم تحریر میں بنی آخر زماں کو دنیا کا سب سے بہترین قانون دان مانا گیا ہے، باوجود اس کے مغرب میں آپ سے متعلق منفی جذبات کا اظہار اور نعوذ بااللہ خاکے بنانے کی ناپاک جسارت اس بات کی غماز ہے، کہ کچھ قوتیں اس طرز کی شرارت سے دنیا کو ایک بار پھر بڑی بدامنی کی طرف دھکیلنے کے لئے بضد ہیں،یہ فعل کھلی مغربی دہشت گردی ہے۔

(جاری ہے)

کیاان مذکور اداروں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد آپ کی شخصیت سے نابلد ہیں یا جان بوجھ کردنیا کو حقیقت بتانے سے گریزاں ہیں، فرانس میں جس انداز میں آپ کی گستاخی اور سربرا ہ مملکت کی طرف سے اسکی پشت پناہی کی جارہی ہے، اس حرکت کو کسی طور پر بھی اخلاقی، قانونی ،علمی اعتبار سے درست کہا جا سکتاہے؟ قطعی نہیں۔
 یہ ہستی کوئی دنیا کے عام فرد نہیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں، ان پر ایمان لانے والوں کی تعداد کئی ارب ہے اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا، یہ عقیدت محض زبانی کلامی بھی نہیں، تمام مسلمان آپ کی ہستی کو اپنے والدین، بیوی، بچوں سے زیادہ عزیز تصور کرتے ہیں، ان پر جان قربان کرنے کو اپنی خوش بختی ہی نہیں بلکہ ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔

کیا اظہار آزادی کے نام پر کسی فرد کو مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟
مغربی معاشرہ کواپنے مہذب ہونے پر ناز ہے، جوا نسانی حقوق کا علمبردار بنا بیٹھا ہے، انسانوں کی توقیر کے زعم میں مبتلاہے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ سماج شمار ہوتاہے وہاں کے افراد کی جانب سے یہ ناپاک حرکت کیا معنی رکھتی ہے؟
 آپ کی آمدکا انکی مذہبی کتب میں تذکرہ موجود ہے،آپ اوصاف حمیدہ بتلائے گئے ہیں، لیکن اہل مغرب نے مذہب کو ا پنی حیاتی سے نکال کر خود پرظلم کیا ہے، سارا مغرب سکون کی تلاش میں سرگرداں ہے ،اسکا راستہ ایک سچے مذہب ہی کی طرف جاتا ہے،مغربی معاشروں میں جو اچھی صفات پائی جاتی ہیں زیادہ تر مسلم معاشرے اس سے محروم ہیں حتیٰ کہ علمی میدان میں بھی وہ ان سے بہت پیچھے ہیں اس کے باوجود کسی بھی مسلم فرد، کارٹونسٹ، صحافی، مصنف، حکمران کی طرف سے دوسرے مذہب کے ماننے والوں کی تضحیک کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انھوں نے کسی مذہبی شخصیت کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے ہوں، کسی بنی کی شان میں منفی خیالات کے اظہار کا تو تصور بھی ممکن نہیں، کیوں کہ تمام انبیاء پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض ہے، ذرا غور تو فرمائے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان سے محبت کو لازم قرار دے کر تمام متوقع خطرات کا دووازہ بند کر دیا ہے۔


کیا مغرب کا اہل علم طبقہ اس حقانیت پر غور نہیں کرنا چاہتا؟، خود مغربی سماج میں ہر ورز نبی کی تعلیمات سے متاثر افراد ایمان لا کر دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں، باوجود اس کے تمام وسائل مغرب کی مٹھی میں بند ہیں، فی زمانہ متاثر کن میڈیا ان کے کنٹرول میں ہے، فیصلہ سازی کی ساری طاقتیں انکے اشاروں پر چلتی ہیں، گذشتہ اربع صدی سے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کا بازار بھی نام نہاد دانشوروں نے گرم کر رکھا ہے اس کے باوجود آج بھی لوگ بنی اور ان پر نازل کتاب کو سچ اور حق جان کر اس پر ایمان لا رہے ہیں، خود فرانس میں طرح طرح کی ناروا غیر قانونی پابندیوں کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں بڑے مردوزن اسلام قبول کر رہے ہیں۔


کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ افردا جن کو اللہ تعالی سوچنے، سمجھنے، لکھنے کی صلاحیت عطا کی ہے، وہ آپ کی تعلیمات اور، تبدیلی مذہب کی وجوہات پر غور کرتے، مسلمانوں پر بے جا پابندیوں کے خلاف آواز اٹھاتے تو انھیں دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا، مسلم معاشرے جن کو تنگ نظر جانا جاتا ہے یہ اتنا ظرف ضرور رکھتے ہیں کہ کوئی بھی عالمی شخصیت جس نے انسانیت کے لئے کوئی اچھا کام کیا ہو ،اسکی دل و جان سے قدر کرتے ہیں، تعصب نہیں برتتے، افسوس ہوتا ہے مغربی دانشوروں پر کھلے دماغ سے سوچنے کی بجائے تعصب کی عینک سے وہ مسلم زعماء کو دیکھتے ہیں، اور آپ کے بارے میں اظہار آزادی کے نام پر وہ کر گذرتے ہیں جس کا سوچنا بھی محال ہے اس ہستی کو محسن انسانیت کہا جاتا ہے۔


 فیمینسٹ تحریک پر نازاں ہیں،غلامی کے خاتمہ پر کریڈٹ لینے اورجانوروں کے حقوق کی بات کرنے والے کیا جانے کہ چودہ سو سال قبل آپ نے ان تمام جہالتوں ،خرافات کو اپنے پاؤں تلے روندھ دیا تھا جن خدمات پر انھیں ہیروز مانا جاتا ہے، جس سود کے بارے میں مغربی ماہرین معشیت آج دلائل دیتے ہیں آپ نے اس وقت اس کا خاتمہ کیا جب کوئی منظم معاشی نظام سرے سے موجود ہی نہ تھا، لڑکیوں کی تعلیم کا درس دینے والوں کو کیا علم کہ اس متبرک ہستی نے حصول علم کو مردوزن کے لئے فرض قرار دیا ہے، وہ مغربی مفکرین جنہیں ناحق افراد کے قتل کا قلق ہے انھیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کا ارشاد گرامی ہے جس نے کسی بے گناہ کو ناحق قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک فرد کو بچایا اس پے پورے عالم کو بچالیا، انسانی حقوق کا چارٹر اقوام متحدہ میں جو نافذالعمل ہے وہ آپ کے خطبہ حج الحجتہ الوداع سے ماخوذ ہے ، گویا پہلی سانس سے موت کی آخری ہچکی تک کی راہنمائی سب سیرت میں محفوظ ہے جو قرآن ہی کی ایک عملی شکل ہے آج بھی پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔

جب اللہ تعالی نے فرمایا کہ ہم نے آپ کا ذکر بلند کر دیا، تو یہ کم ظرف افراد اپنی خباثت سے بھلا اس کمی لا سکتے ہیں؟ جن کو اپنی زندگی اور موت پر کوئی اختیار ہی نہیں، البتہ مسلمان اپنی اچھی سیرت سے اس قماش کے لوگوں کو آپ پر ایمان لانے پر آمادہ ضرور کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :