ترقی کا بیانیہ

پیر 9 نومبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

اگرچہ سیاسی حلقوں میں بہت سے بیانئے زیر گردش ہیں، مگر مقبولیت کی سعادت صرف چند ایک ہی کا مقدر ٹھری ہے،ہماری قومی سیاسی زندگی میں” بیانیہ“ کی نئی اصطلاح ایک خوبصورت اضافہ ہے ،اسکی آڑ میں مخالفین بھی دل کی بات کرنے میں راحت محسوس کرتے ہیں،بر سر اقتدار طبقہ جب اپوزیشن میں تھا، تو اس کے روح رواں مغرب کی مثالیں دے کر قوم کو بتایا کرتے تھے، کہ اقوام کی ترقی کا تعلق کسی موٹر وے، میٹرو، اورنج ٹرین سے نہیں بلکہ تعلیمی ترقی صحت کی سہولت سے ہے،زمین پر نظر آنے والے میگا پر جیکٹ اس لئے بنوائے جاتے ہیں ایک تو ان سے سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے، دوسرا پنی تجوری بھرنے کا محفوظ اور کوئی راستہ نہیں، اس کو حسن اتفاق کہیے ،یا حالات کی ستم ظریفی کہ اب تلک نہ تو کوئی میگا پراجیکٹ شروع ہو سکا، نہ ہی تعلیمی ترقی دیکھنے کو ملی ہے، مگر اس سے کسی کو مفر نہیں کہ سماجی، معاشی ترقی، سفری سہولیات میں بڑا کردار شاہرات ہی کا ہوا کرتا ہے،دیہی آبادی کے شہروں سے روابط فی زمانہ سڑکوں کی تعمیر ہی سے ممکن ہیں، ذرائع نقل و حمل کے ذریعہ نہ صرف منڈیوں تک رسائی ہوتی ہے، بلکہ کسان کو اپنی پیداوارایک شہر سے دوسرے علاقہ تک پہنچانے میں بآسانی مدد ملتی ہے لہذا ترقی کی بابت موٹر وے کی تعمیر کے بیانیہ کو یک طرفہ مسترد کرنا قرین انصاف نہیں، اگر یہ کہا جائے کہ اب تلک اگر کسی شعبہ میں ہم نے ترقی کی ہے تو موٹر ویز کا اچھا نیٹ ورک ہی ہے،جس سے مسافروں کو اعلی میعار کی محفوظ آرام ٹرانسپورٹ دستیاب ہوئی ہے،روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں، سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا ہے،سفر کی صعوبتیں کم ہوئی ہیں، فاصلے سمٹ گئے ہیں، فیول کی بچت بھی ہوتی ہے ہمارے ہاں اگرچہ سیاسی مخالفین کی تعریف کم ہی سننے کو ملتی ہے مگر موٹر وے پر آرام دے سفر کے بعد بہرحال یہ گواہی دینا ہی پڑتی ہے کہ اچھا کام کیا ہے ۔

(جاری ہے)


موٹر وے نیٹ ورک کی تعریف نہ کرنا تو بخل ہوگا تاہم اس کالم میں ہم ان نقاظ کی نشاندہی کرنا قومی فرض سمجھتے ہیں جو ہمارے مشاہدہ میں آئی ہیں،اس وقت زیر استعمال جتنی بھی موٹر ویز ہیں، ان پر موجود انٹر چینج بناتے وقت اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ علاقہ جات اور عوام مستعفید ہو سکیں،لیکن موٹر وے سے اتر کر شہروں میں داخل ہونے والے راستوں کو بالکل نظرانداز کر دیا ہے، انٹر چینج سے باہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ ہم ایک خوبصورت وادی سے نکل کر ایک صحرا میں قدم رکھ چکے ہیں، جہاں نہ تو کوئی راہنمائی میسر ہوتی ہے نہ ہی تحفظ ،کسی اجنبی کے لئے موٹر وے سے بعد کا سفر کسی اذیت سے کم نہیں ہے،اگر ہمسفرفیملی کے افراد پر مشتمل ہوں تو ذہنی اذیت کے دوہرے عذاب سے دوچار ہونا پڑتا ہے،خستہ حالت سڑکیں،رات کی گھنی تاریکی ،دور دور تک بندہ نہ بندہ کی ذات دکھائی دے تو وہ ساری خوشی کافور ہوجاتی ہے جس کو موٹر وے پر” انجوائے“ کیا ہوتا ہے، شہروں کو لنک کرتی ہوئی سڑک سے موٹر وے تک رسائی کا سفر شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا چلا جاتا ہے، نکلتا ہوا دم اس وقت قابو میں آتا ہے جب دور سے کوئی ٹمٹماتی روشنی نظر آتی ہے،کیا ہی اچھا ہو ہر انٹر چینج سے آگے کم از کم شہر میں داخلہ تک معیاری سڑکیں بنا دی جائیں، ان پر روشنی کا اہتمام بھی ہو جائے اور مسافروں کی راہنمائی کے لئے جلی حروف میں بل بورڈ بھی آویزاں ہوں تو موٹر وے پر سفر کا حق ادا ہو سکے، انتظامی اعتبار سے موٹر وے کے پراجیکٹ میں اس کو شامل کرنا شائد ممکن نہ بھی ہو،
 تاہم اس شہر کی انتظامیہ، مونسپل، کارپوریشن کو تو یہ حکم صادر فرمایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی شہری حدود میں داخل ہونے والے انٹر چینج تک کارپٹ روڈ کی تعمیر کو اپنی پلاننگ کا لازمی حصہ قرار دیں۔

سب سے بڑھ کر گاڑی اور مسافر کا تحفظ ناگزیر ہو اس عمل سے ہر شہری بڑے اعتماد سے اپنا سفر جاری رکھ سکے ،بسا اوقات ہنگامی صورت میں بھی رخت سفر باندھنا پڑتا ہے۔موٹر ویز کے ذریعہ جہاں سفر آسان تر ہوا ہے وہاں موسم کی شدت اور کڑی دھوپ میں سرراہ انتظار کا دکھ درختوں کی عدم موجودگی میں اور بھی گہرا ہو جاتا ہے، زیادہ مناسب تھا کہ منصوبہ ساز اسکی تعمیر کے ساتھ ہی درختوں کے آگاؤ کو بھی شامل کرتے تو موٹر وے کی تکمیل کے ساتھ ساتھ یہ بھی مسافروں کو سایہ فراہم کرنے کے قابل ہو جاتے، ماضی کی شاہراہیں، دریا، نہریں اس بات کی گواہ ہیں کہ انکے کنارے ہمیشہ درختوں سے ڈھکے رہتے تھے اور ہر ایک کو سایہ دینے کے ساتھ ہماری معشیت میں بھی مدد گار ہوتے تھے،اس وقت زمانے کو بدعنوانی کی ہوا نہ لگی تھی مافیاز کا بھی اتنا راج نہ تھا تو سڑکیں بھی معیاری بنتی تھیں،اب کمیشن مافیاز کی سرگرمیوں کا فیض ہے ہر شہر کی سڑک ٹوٹی پھوٹی ہی ملتی ہے، اس کے سدباب کے لئے شاہ ایران کا فارمولا اپنانا ہو گا، جو سڑک بنانے والے کو ساتھ گاڑی میں بٹھا کر چیک کرتے، بد عنوان افسران کا یہ سفر آخری بھی ثابت ہوتا تھا ایران کی اعلیٰ شاہراہوں کا ایک سبب یہ بھی ہے ۔


 نئی موٹر ویز فنکشل تو ہو گئی ہیں لیکن ان پر ابھی بہت سا کام ادھورا محسوس ہوتا ہے، بلخصوص مسافروں کی راہنمائی کے لئے رات کی تاریکی میں عالمی معیار کے بل بورڈ کی تنصیب، انٹر چینج پر الگ راستہ پر روشنی کا اہتمام وغیرہ، جب اسکا عملہ اس کو مسافر کی نظر سے دیکھے گا تو انھیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا،بہت سے ایسے سیکشن تاحال موجود ہیں جہاں پر موبائل ورکشاپ، پٹرولنگ کرتا ہوا عملہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔


 سب سے قابل ذکر اسلام آباد تا ملتان،سکھر موٹر وے پرشورکوٹ کے مقام پرشاہراہ سے ہٹ کر ٹال پلازہ پر ٹیکس کی ادائیگی کسی بڑی سزا سے کم نہیں نجانے اس انداز میں مسافروں کو اذیت دینے میں کون راحت محسوس کر رہا ہے؟ اس پر ستم ظریفی یہ کہ ایمبولینس کو بھی کھڑی ٹریفک میں لازم رکنا پڑتا ہے،فوری طور پر انھیں راستہ دینے کی کوئی منصوبہ بندی وہاں نہیں ہے،اگر اس ٹول کا قیام اتنا ہی ضروری ہے تو اسے بھی موٹر وے پر ہی تعمیر کر دیا جائے تاکہ وقت کا ضیاع نہ ہو،امکان غالب ہے کہ سی پیک کے منصوبہ کے تحت شاہراہوں کی جب تکمیل ہو جائے گی،اور ریلوے کا ایم ایل ون پروجیکٹ بھی بن جائے گا تو اس وطن کے باسیوں کو عالمی معیار کی ٹرانسپورٹ میسر آئے گی، اس لئے تعلیم، صحت کے ساتھ ساتھ شاہراہوں کے قیام سے ممکنہ ترقی کے بیانیہ سے کس طرح انکار ممکن ہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :