عدم مفاہمت

پیر 16 نومبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

نجانے ادارہ شماریات کیوں کپتان کی” حسن کاردگی“ کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے، اور اس” تبدیلی “کی ٹھنڈک محسوس ہی نہیں کر رہا ہے،جس کو لانے کی تگ ودو میں اپنی ٹیم کے ساتھ وہ دن رات مصروف عمل ہیں،عوامی مسائل کو حل کرنے کے لئے ٹائیگر فورس تک کی تشکیل بھی اس کا رنامہ ہائے ہی کی کاوش کا حصہ ہے، جس کے فرائض منصبی میں مہنگائی کنٹرول کرنا بھی شامل ہے، مذکورہ فورس کو ذمہ داریاں تفویض کرنے کے لئے بھاری بھر کنونشن کے انعقاد کے بعد موصوف اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مہنگائی کا پروپیگنڈہ بھی اپوزیشن ہی کا پیدا کردہ ہے کیونکہ گورننس کے حوالہ سے راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔

بقول شخصے مہنگائی کا سبب سپلائی اور ڈیمانڈ کاقضیہ ہے تو اس میں سرکار کو کوسنے دینا قطعی نا انصافی ہے۔

(جاری ہے)


 دوسرا یہ” گناہ“ مافیاز کے ہاتھوں سر انجام پارہا ہے، جس میں کپتان کی طرز حکمرانی کا رتی بھر بھی قصور نہیں ہے، یہ پہلی حکومتوں ہی کے پروردہ تھے،جو اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی طرح مصنوعی مہنگائی پیدا کر کے سرکار کو عوام میں غیر مقبول کر دیا جائے، لیکن انھیں اندازہ نہیں کہ انکا واسطہ کس ہستی سے پڑا ہے،جو کسی کو بھی چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں،زیادہ تر اشیاء کی آسمان سے باتیں کرتی قیمت کی بنیادی وجہ ڈالر ہے،جس کے اتار چڑھاؤ کا عالمی میکانزم ہے جس پر کپتان کا کوئی اختیار نہیں ہے، انھوں نے تو حتی ٰ المقدور کاوش کے بعد اپنی کابینہ میں عالمی مالیاتی ادارہ کے ملازمین کے لئے وسعت پیدا کی ہے تاکہ وہ بھی ڈالر پر ”اکھ“ رکھ سکیں، انھوں نے برآمدات بڑھانے کے لئے اپنا پتہ مارا پہلے چینی، بعد ازاں گندم فروخت کی ہے تاکہ زرمبادلہ میں اضافہ ہو، لیکن ناخواندہ عوام کا کیا کرے کوئی جس کی دہائی نے پھر دونوں اشیاء کو مہنگے داموں درآمد کر نے پر مجبور کر دیا اس عمل سے ادائیگیوں میں اگر عدم توازن ہوا ہے تو بھی کپتان کو مورد الزام ٹھرانا قرین قیاس نہیں ہے۔


موصوف کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ اس ملک کو ریاست مدینہ کی عملی شکل دے کر ہی دم لیں، مگر دستیاب حالات انھیں بھی” یو ٹرن “ لینے پر مجبور کرتے ہیں، اس لئے وہ کبھی ایرانی انقلاب کو اپنے وطن کے لئے ماڈل قرار دیتے ہیں تو کبھی چین کا نظام لانے کا قصد کرتے ہیں،آدھی پارلیمانی مدت کی تکمیل کے بعد بھی وہ ایک عجیب مخمصہ میں گرفتار ہیں، ابھی تک یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ کونسا نظام عوام کو مسائل کی دلدل سے نکال سکے گا، اپوزیشن کو زندان میں دیکھنے کی آرزو انکی یکسوئی میں بڑی رکاوٹ ہے، برْا ہو اس میڈیا کا جو ماضی کے تقاریر کو کلپس کی صورت میں بار بار چلا کرتبدیلی کے جذبہ کو پھر سے جواں کر دیتا ہے،جبکہ ان کے یہ فرمودات اس دور کے ہیں جب وہ کنٹینر پر بے اختیار تھے، پھر بھی انکو مسیحا سمجھنے والی عوام اب دو راہے پر کھڑی ہے اسکو یہ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ مہنگائی کو اپوزیشن کی کارستانی کہے یا سرکار کی بے بسی سے تعبیر کرے ۔


کابینہ میں سنی گئی مہنگائی کی بازگشت اور کپتان کے نوٹس کے باوجود اس میں خاطر خواہ کمی ہوتی دکھائی نہیں دیتی ہے، کپتان کے دائیں بائیں وہ صاحب ثروت ہستیاں ہیں جنہوں نے کبھی منڈی کارخ نہیں کیا، انھیں کیا انداز ہ کہ سبزیوں کا بھاؤ کیا ہے،ددودھ دہی کس نرخ پر
 فروخت ہورہا ہے،قصائی گوشت کو سرکاری نرخ پر کیوں فروخت نہیں کرتا؟، مہنگی ادویات کے باعث عام آدمی کو زندگی گاڑی دھکیلنے کے لئے کس کرب سے گذرنا پڑ رہا ہے۔


اراکین پارلیمنٹ مہنگائی کو صرف عوام ہی کا مسئلہ سمجھتے ہیں اس لیے اپنے حلقہ میں ”مافیاز کا احتساب“ کرنے پر یقین نہیں رکھتے، انکے خیال میں یہ ذمہ داری شعبہ احتساب کی ہے جو کپتان کی عین منشیٰ کے مطابق فریضہ انجام دے رہا ہے اس لئے وہ سرکار کار میں مداخلت کو درست نہیں سمجھتے۔ نجانے کپتان کے ہاتھ مضبوط کرنے میں انھیں کیا امر مانع ہے؟
عین اس وقت جبکہ ملک کے ایک علاقہ میں انتخاب کا عمل جاری ہے،محکمہ شماریات نے رپورٹ جاری کر کے سرکار کو بہت ہی ” ایزی“ لیا ہے،جبکہ تمام تر سروے سرکار کے حق میں ہیں ، موصوف تو یہاں تک پرُ اعتماد ہیں کہ کارکردگی کی بنیاد پر وہ اگلے قومی الیکشن جیت کر حکومت بھی بنائیں گے، بیشتر اس کے ہم سرکار کی کارکردگی کا جائزہ لیتے، شماریات کی رپورٹ نے ہماری تمام تر امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے،اس کے مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کپتان کی گوورننس بھی روایتی ہی ہے، بدلتے حالات سے انکے جذبات کا ماند پڑنا لازم ہے،جس سے عوام کے خواب بھی ادھورے رہنے کا خدشہ ہے، موصوف نے اپنے پیشرو حکمرانوں کے قدم پر قدم رکھنے کی روایات کو کندھا دیا ورنہ نصف پارلیمانی مدت شارٹ ٹرم انقلاب لانے کے لئے کافی تھی ۔


ہمیں شماریات کے افسران سے قطعی شکوہ نہیں کہ انھوں نے تو فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے قوم کی حالت زار کا نقشہ ہی کھینچا ہے کہ اعلی مگر متوازن معیار زندگی ارض پاک میں ایک خواب سا نظر آتا ہے، اس قومی ادارہ کی حالیہ روپوٹ کے اعدادو شمار کے مطابق پرائمری سکول جانے والے بچوں کی تعدا دمیں۵ فیصد کمی ہوئی ہے، یہ کمی ان ہزاروں بچوں کے علاوہ جو تاحال سکول گئے ہی نہیں،دو تہائی آبادی غربت کا شکار ہے،صرف ۵۶ فیصد کے پاس روزگار ہے،۱۸ فیصد کے پاس ٹوئلیٹ جیسی بنیادی سہولت بھی نہیں ہے،۲۴ فیصد گھرانے اپنی آمدنی کا بڑا حصہ یوٹیلٹی بلوں پر خرچ کرتے ہیں، سماجی ماہرین کا کہنا ہے ناکافی سہولتوں کی ایک وجہ دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور بلدیاتی نظام کا غیر موثر اور بے اختیار ہونا ہے ۔

جس مغرب کی مثالیں کپتان دیا کرتے ہیں وہاں، صحت ،تعلیم،صفائی،ٹرانسپورٹ، رہائش کی فراہمی مقامی اداروں کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے، ہمارے ہاں بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہی میں مجرمانہ غفلت برتی جاتی ہے۔
 قومی اداروں کی رپورٹس کے شواہد سرکار کو لائحہ عمل کے لئے راہنمائی فراہم کرتے ہیں، نجانے کپتان جی کیوں اپنے” باس“ کے حکم ہی کو طرز حکمرانی کے لئے کافی سمجھتے ہیں،زمینی حقائق سے یہ اندازہ کرنا چندہ مشکل نہیں کہ قومی اداروں کے آئین سے ماورا اقدامات اور باہم عدم مفاہمت کی بھاری قیمت صرف اس قوم نے ادا کی ہے،باقی تو اقتدار اور اختیارسے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :