ملتان کی ٹریفک

اتوار 29 نومبر 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

جنوبی پنجاب کا صدر مقام بننے کی دوڑ میں شریک قدیمی شہر کو یہ اعزاز تو بہرحال حاصل ہے ،کہ تخت لاہور کے قیدی کا نعرہ بلند کرنے کے باوجود مدینہ ة اولیاء کی اشرافیہ کسی نہ کسی طرح شہر اقتدار میں شامل رہی ہے،اس کی پہچان صرف آم، سوہن حلوہ،گرد، گرما،گورستان ہی نہیں بلکہ بولے جانے والی میٹھی زبان سرائیکی بھی ہے،تاہم شہر کا انفراسٹریکچرلاہور، کراچی،اور پنڈی کے ہم پلہ نہیں ہے، بھاری بھر سرمایہ صرف کرنے کے باوجود بھی اسکا چہرہ مہرہ ترقی یافتہ شہر کا دکھائی نہیں دیتا۔


سابقہ عوامی عہد میں سید بادشاہ سربراہ حکومت بھی اس دھرتی سے تعلق رکھتے تھے،اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق انھوں نے جس عوامی مسئلہ کو ترجیح دی وہ ٹریفک کے بہاؤ کا ہی تھا،موصوف نے ماہرین کی مدد سے اسکا حل پلوں کی تعمیر میں ہی ضروری جانا،ہمیں ماہرین کی مہارت پر تو کوئی شبہ نہیں لیکن موجودہ ٹریفک کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ اخذ کرنے میں کامیاب رہے کہ ماہرین نے ٹریفک کی روانی سے زیادہ زورشاہ جی سے تعلقات بنانے پر دیا،یہاں کے باسی تو اس ماحول کے عادی ہوچکے ہیں،لیکن کمال یہ ہے کہ پلوں کی تعمیر کے بعد بھی ملتان کی ٹریفک انھیں مقام پر بلاک ہو رہی ہے جہاں پہلے ہوتی تھی،فرق صرف اتنا ہے کہ پل پر ذرا کم رکتی ہے،بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی میں قائم شعبہ سول انجینئرنگ بھی اس شہر کی ٹریفک انجینئرنگ سمجھنے سے بھی قاصر ہے،ماہرین کہتے ہیں کہ اس شعبہ کا اطلاق خالصتاً ٹریفک کے بلا رکاوٹ بہاؤ اور محفوظ راستہ کی فراہمی میں ہوتا ہے شہر کے پلوں کی تعمیر میں سرے سے ان بنیادی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہی نہیں گیا،اب نہ تو شہر کی ٹریفک رواں ہے نہ ہی محفوظ،اس پر مستزاد رہی سہی کسر میٹروبس سروس کی تعمیر نے نکال دی ہے،اس کا ٹریک اگرچہ عہد جدید میں بچھایا گیا ہے لیکن اس کو بھی عالمی معیار کے ہم پلہ قرار نہیں دیا جا سکتا،اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ یہ سستی، آرام دہ سفری سہولت ہے، مگر اس قیام سے بھی ٹریفک کی روانی میں کمی آئی ہے، بالخصوص میٹرو ٹریک کے نیچے چوراہے،Round about بناتے ہوئے ٹریفک انجینئرنگ کے اصولوں کو اسی طرح نظر انداز کیا گیا ہے جس طرح پلوں کی تعمیر کے وقت انھیں بھلا دیا گیا تھا ،دورویہ سڑک کی تعمیر کے باوجود کسی بھی گاڑی کا کوئی بھی سوار خود کو محفوظ خیال نہیں کرتا ہے،کیونکہ تین لین والی شاہراہ اچانک دو لین میں بدل جاتی ہے،یہی حال یو ٹرن کا ہے، جہاں لازم تھے وہاں انکی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی،اب ٹریفک کے مسائل کو دیکھتے ہوئے نئے یو ٹرن بنائے جارہے ہیں،یہ ایڈہاک ازم کی نئی شکل اور بدترین شکل ہے۔

(جاری ہے)


اس شہر کی شاہراہیں قابل رشک نہیں ہیں، ناقص تعمیر کے جرم میں شریک افراد یہ کہہ کر انکے پیچھے چھپ جاتے ہیں کہ یہ قدیم شہر ہے ،مگر ایک سپیڈو بس تو نئے دور کی تعمیر سڑک کے اندر ہی دھنس گئی تھی،شاہ جی کی وزارت کے دور میں جہاں پل تعمیر ہوئے وہاں نئی شاہرا ہیں بھی بنائی گئیں،جس سے نیا علاقہ آباد ہوا،یونیورسٹی تک بھی رسائی آسان ہوگئی ،انکی تعمیر سے یوں لگتا ہے، کہ اس کا ڈیزائن کسی ایسے انجینئرسے بنوایا گیا ہے جوجو صرف سیوریج لائن پر ہی سڑک بنانے پر قدرت رکھتا تھا،گمان غالب ہے کہ اسکا وقت نزاع قریب ہی ہے،اس پراب اتنے ’ا’چھلوں“ ہیں کہ کمرکے درد کے لئے کسی اور مشقت کی حاجت ہی محسوس نہ ہوتی،یہی معاملہ ان بائی پاس کا ہے جن کی تعمیر کو دوسرے شہروں
 سے روابط اور شہر سے ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لئے بنایا گیا تھا،بیرون شہر سے داخل ہونے والی ڑیفک کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کون سا پل شہر میں داخلہ کے لئے ہے اور کونسا شہر سے خروج کے لئے،بعض تو ایسے مقام پر ملتے ہیں، گمان ہے کہ اگر انھیں زبان مل جائے تو وہ
 خود بول اٹھیں کہ شاہ جی یہاں ہمارا سنگم کسی طرح بھی درست نہیں،شائد بنانے والوں نے ان پر تکنیکی تشدد کیا ہے،یہ مقامات کئی ایک حادثات کا باعث ہیں،بالخصوص رات کی تاریکی میں روشنی کے عدم اہتمام سے گاڑیوں کے ٹکرانے کاخدشہ اور بڑھ جاتا ہے،چونکہ شاہ جی حکم تھا اس لئے عدولی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر شاہ جی اگر مرشد بھی ہوں تو پھر انکار کیسا؟
 سید باشاہ کو سیاسی طور پر کونٹر کرنے کے لئے میٹرو کی تعمیر کاآغاز ہوا تاحال اس کے روٹ پر دوآراء پائی جاتی ہیں،تاہم پہلے سے تعمیر شاہرات کو اکھاڑ کر روٹ کے مطابق نئی تعمیر کو لازم سمجھا گیا،اگرچہ اس کے ساتھ سروس روڈ زبھی بنائی گئی ہیں لیکن یہ ناجائز تجاوزات مافیاء کے قبضہ میں ہے انکی تعمیر کا مقصد ہی فوت ہوتا نظر آرہا ہے ۔


ٹریفک انجینئرنگ کے راہنماء اصولوں کو نظرانداز کرنے کی سزا شہریوں کو رانگ سائڈ ٹریفک کی صورت میں مل رہی ہے جس سے روز بروز حادثات معمول بنتے جا رہے ہیں،ٹریفک کو کنٹرول کرنے پر معمور عملہ بھی کبھی کبھار بے بس نظر آتا ہے شہر میں صرف ایک ہی علامتی ٹریفک سگنل ہے جو ٹریفک کو کنٹرول رکھنے میں اہم سمجھا جا رہاہے۔دنیا جدید میں ٹریفک کا کنٹرول خاصی جدت اختیار کر چکا ہے،سگنل اور کنٹرول روم سے شہر بھر کی ٹریفک کو نہ صرف رواں رکھا جا تا ہے بلکہ محفوظ بھی بنایا جاتا ہے۔


 شہر کی بڑی منڈیوں کے باہر سے گزرنا بہت دشوار ہوتا ہے،ایسے اوقات میں جو پیک آور کہلاتے ہیں،اس میں قریباً آدھے شہر کی ٹریفک بلاک ہوتی ہے، ایمبولینس کو بھی استثناء نہیں ،عین کچہری کے سامنے بیچ سڑک میں وکلاء کی پارکنگ ٹریفک کی عدم روانی کے کار خیر میں پوری طرح شریک ہے، لاکھوں روپئے کا ایندھن ان شاہراہوں پر بے فائدہ خرچ ہوتا ہے،وقت کا ضیاع اس کے علاوہ ہے۔


وزیر اعلیٰ پنجاب اس خطہ کے سپوت ہیں اور سول سیکرٹریٹ کا قیام بھی عمل میں آچکا ،شہر کو خاص مرتبہ مل رہا ہے افسر شاہی انکی ری ڈیزائنگ کر ٹریفک کے گھمبیر مسئلہ سے نجات تو دلا سکتی ہے،ماضی میں جب شعبہ انجینئرنگ میں اتنی رسائی ہمیں میسر نہ تھی ،اس وسیب میں ایک معروف نشتر ہسپتال عبدالرب نشتر مرحوم نے بھی تعمیر کروایا تھا ،جو آج بھی اپنی پوری آن شان سے قائم ہے جس میں ان تمام مروجہ اصولوں کو مد نظر رکھا گیا تھا جو ہسپتال کے لئے ناگزیر تھے، گلوبل ولیج کے دور میں پلوں اور شاہراہوں کی تعمیر میں نجانے ٹریفک انجینئرنگ کے ضوابط کو کیوں نظر انداز کیا گیا،شاید اس لئے کہ اس وقت کے حکمران نیب سے زیادہ خد ا کا خوف رکھتے تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :