غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے

منگل 18 جنوری 2022

Masood Ashraf

مسعود اشرف

انسان کی فطر ت ہے کہ تبدیلی اس کو خوش اور چاک وچوبند رکھتی ہے۔ پھر چاہے وہ اس کو اچھے رنگ میں محسوس کرے  یا  تکلیف دہ ھو ، بس انجام بخیرھی راحت کا سبب بنتا ہے۔ قرار, فطرت انسانی کے لیے موت ہے اورنہ همیشه خوش رھنے میں زیست ہے نہ غم دل وجان کو پاۓ ثبات ہے، ہاں مگر بعض کیفیات روحانی دیرتک اثر انداز رهتی ہیں اور بار بار زندہ ہونے اور کچھ کر نے کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔

  خوشی وقتی ہوتی ہے لیکن تکلیف کی لذت جب وہ تکلیف موجود ہوتب بھی محسوس ہوتی ہے اور جب تکلیف رفاع ہوجائے تو اس میں سے گزر جانے کا احساس ایک پرکیف خوشی دیتا ہے۔ غم تو نام بی احساس ومحسوس کا ھے، جب یہ احساس ھو کہ گزر ھی جایئں گے لمحہ جوگراں ھیں بہت ھم پر تو دل اپنے اندر ایک بهادری اور جیت کی لذت محسوس کرنے لگتا ھے۔

(جاری ہے)

خدا تعالی اپنے ھونے کا احساس ھمیشہ اپنے رنگ میں کرواتا ہے۔

اجتماعی تکالیف قوموں کوخدا کی پہچان کے لئےہوتی ہیں مگر اس کا ادراک جب تک ھوتا ھے اکثریت بھول چکی ھوتی ھے کہ یہ عذاب کیوں آیا۔  اس کے برعکس انفرادی  تکلیف اپنے ہونے کا پتہ تمام زندگی دیتی رہتی ہے۔ اگر باپ نے کوئی دکھ اٹھایا ہو تو وہ ضروراپنی اولاد کو بتاتا ہے اور باور کراتا ہے کہ آج تم جو راحت اٹھا رھے ھو یہ میری تکالیف کا ثمر ھے، میں فلاں وقت میں مشقت کرتا رہا توآج تم سہولت سے ہو۔

اور جب وہ یہ بات بتا رہا ہوتا ہے تو باپ کے چہرے کی رونق اس کی کامیابی کی نشاندہی کر رہی ہوتی ھے۔ وہ مشکلات جو کبھی بہت پریشان کن تھی آج لذت دیرینہ کی طرح زندگی کو مسرور کرتی ہیں۔ خدا کی حمد دل سے اٹھتی ہےاس خیال کے ساتھ کے اس نے مجھے نہ چھوڑا اور میری کامیابی کے سامان پیدا کئے، یہ وہ درد ہے جو گزرنے کے بعد میٹھا ہو جاتا ہے، دل روز کامیابی کا جشن مناتا ہے اور قدرت کی عنایات کا سرور ھر نشہ پر غالب آجاتا ھے۔

  قصہ پارینہ ہے کہ ایک چوہدری صاحب نے اپنے ملازم سے پوچھا کہ وہ  اپنی زندگی میں اگر ایک دن پائے جس میں اس کو بہت سروراور سکون حاصل ہو تو وہ کیا کرے گا ؟ تو اس سادہ گو دیہاتی  نے ایک معصوم سا جواب دیا کہ چوہدری صاحب کہ اس کے سامنے اس کا پسندیدہ کھانا پڑا ہو ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہو اورکمبل میں لیٹا ہواور اسے ہلکا ہلکا بخار ہو۔ چودھری اس کی بات کو سن کر بہت حیران ہوا اور اس نے کہا کہ باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن بخار کیوں ہو؟ تو اس نے معصومانہ جواب دیا کہ چودھری صاحب آپ مجھے کچھ کام کرنے کو تو نہیں کہیں گے۔

واقعی جب انسان دنیا کی ریل پیل اورجھنجٹھوں میں ڈوبا ہوتا ہےتواسے تھوڑی سی تکلیف اورغم جو وہ سمجھتا ہے کہ تکلیف ہے لیکن وھی اس کے لۓ مسرت کا باعث بن جاتی ھے اور بعض دفعہ خدا تعالی انسان کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو اس کے حق میں مثبت رنگ میں میں ڈھال دیتا ہے۔ قرآن مجید بارها اس طرف توجه دلاتا ہے، جیسے جمعہ کے روزکی اہمیت کے متعلق فرماتا ہے ہے کہ تمام کام لین دین کے چھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاؤ، اس وقت انسان اس عمل کو بہت بڑی تکلیف سمجھتا ہے کہ جس کی وجہ سےاس کے کاروبار میں بہت زیادہ نقصان ہو جائے گا لیکن خدا تعالی فرماتا ہے کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجهو۔

اسی طرح چھوٹی سی تکلیف اور بیماری انسان کو مجبور کر دیتی ھے کہ وہ دنیاوی کاموں کو ترک کر دیوے اور آرام کرے اور وہ جب اس حالت میں ھوتا ھے تو اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں ھوتی بلکہ اس کا ٹوٹتا اور دکها ھوا بدن اس کو خدا کی حمد اور دعا کی ترغیب دیتا ھے اور وہ اس میں بے انتہا سرور پاتا ھے۔اور پھر قرآن مجید تو اسی ہی کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ انسان جب دکھی ہو تو خدا تعالی کی طرف ھی آتا ہےاور اسی کی گود کو ڈھونڈتا ہے اور اسی کی قرب اور عبادت میں قلب سکوں پاتا ھے۔

تو پھر کیوں نہ حالت اضطراری کا لطف لیا جاۓ اور جب انسان دل کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے تودرد دل کو بھی لطف و کرم خدا سمجھے اور شکر گزاروں میں شامل ہوجاۓ کیوں کہ ھر خوشی کا لمحہ غم کا مرهون منت ھے۔غموں اور تکلیفوں اور آزمائشوں  سے انسان کے گناہ دھلتے ہیں  اور وہ اس کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہےجو اس کی روحانی ترقی کا موجب بنتا ہے۔ جس طرح سونا آگ میں جل کر کندن بن جاتا ہے اسی طرح لازم ہے کہ انسان کو آزمائشوں اور تکلیفوں سے گزرنا پڑے۔

اگر وہ ان آزمائشوں سے نہیں گزرے گا تو اس کی شخصیت میں وہ نکھار نہیں آ پائے گا اور دنیا کی اونچ نیچ کو صحیح طرح سے سمجھ نہیں پائے گا۔  تکلیف قدر کئے جانے کے لائق ہے کہ اس سے ہی راحت کے لمحات کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور قدرت کی عنایات کی اہمیت اور قدر انسان کوخدا کی گود میں لے آتی ہے۔ وہ طاقت جو اپنے جلوے دکھانے میں مختلف رنگ اختیار کرتی ہے ہماری زندگی کی کہکشاں کو بھی خوب رنگا رنگ کرکے جینےکے نئے ڈھنگ سکھاتی ہے۔

تو پھر کیوں نہ قربان جائیں اس قدرت لا محدود کےجس نے زندگی کے ہر پہلو میں انفرادیت اور تجسس رکھا ہےچاہے وہ لمحاتی تکالیف ھوں یا جذباتی حالت ہو زندگی کی خوبصورتی ہے۔
وقت کے ہاتھوں نے کیا کیا یا نہ تراشے جذبے
کبھی راحت کبھی تکلیف کے مشکل حربے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :