کراچی کے کوچے کوچے میں کچرا

پیر 6 جولائی 2020

Mohammad Ashar Saeed

محمد اشعر سعید

کراچی پاکستان کا پرانا دارلحکومت تھا جیسے بعد میں اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔کراچی  پاکستان کی معشیت میں ڑیڑھ کی ھڈی کی حشیت رکھتا ہے۔ کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پر ہر نسل، رنگ،مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں۔کراچی نے تو سب کو پناہ دے دی مگر وہ خود آج سب سے پناہ مانگ رہا ہے۔ پاکستان کا65 فیصد ریونیو کراچی دے رہا ہے۔

تمام صوبہ مل کر بھی اس کے مسا ٗئل کو حل نہیں کروا سکے۔کراچی میں دہشت گردی، ٹاڑگٹ کلنگ کا مسئلہ تو تھا ہی مگر یہاں پر بڑتا ہوا مسئلہ کوڑا کرکٹ کا ہے۔1947ء میں کراچی کی آبادی چار لاکھ تھی مگر اب دو کروڑ ہو گئی ہے۔
کراچی کے کچرا پر ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہے۔کوئی وسائل کا اور کوئی اختیارات رونا رو رہا ہے۔

(جاری ہے)

مئیر کراچی کہتا ہے کہ میرے پاس اختیارات کی کمی ہے۔

بسندھ حکومت وفاق سے شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔اگر کوئی حکومت کو ذمہ داریوں کا احساس دلانا چاہے تو اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔بیہاں پر مصطفٰی کمال جیسے لوگوں کا کردار کبھی بھلا نہیں سکتے جس کی کاوشوں سے کراچی کا تھوڑا چہرہ نظر آیا۔
آج کل کراچی ہر نیوز چینل پر چھایا ہوا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے یہاں پر راج کیا مگر کو ئی بھی کچرا کے مسائل کو حل نہ کروا سکا۔

کبھی ایم کیو ایم نے عوام کو جھوٹی امیدیں دے کر ووٹ حاصل کیا اور کبھی بھٹو کے نام پر سیاست کر کے عوام کے ساتھ دھوکا کیا گیا۔ پچھلے گیارہ سالوں سے پی پی پی صوبہ میں حکومت کرر ہی ہے مگر کراچی کے لوگوں کو ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ کراچی میں کچرا کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ھے۔
کراچی جو روشنیوں کا شہر تھا اسے اندھیروں میں دھکیلنے میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔

کراچی کو صا ف ستھرا بنانے کے عزم کے ساتھ کئی بار کوشش کی گئی۔مگر سیاسی مفادات کی خاطر عام عوام کے مفادات کو نظر انداز کیا گیا۔ حکمرانوں کی اپنی رنجشوں کی وجہ سے عام عوام کا جینا محال ھوا ہے۔ کراچی میں کسی بھی جگہ کچرا کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بھی انتظام نہیں کیا گیا۔ گلی محلوں میں پڑے ہوئے کچرے کے ڈھیڑ حکومتی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

سندھ حکومت اس معاملہ کو سنجیدگی سے لینے کی بجائے دوسروں پر کیچر اچھالنے میں مصروف ہے۔کوئی بھی سیاسی جماعت یا کوئی بھی ادارہ ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کے ایم سی اور ایس ایس ڈبلیو ایم بی دونوں ادارے اپنے وسائل کم ہونے کی وجہ سے کراچی کو کچرا سے پاک نہیں کر سکے۔ نالوں میں کچرا کی وجہ سے کراچی کا نکاس آب کا نظام شدید متاثر ہوا ہے۔

بارشوں کی وجہ سے کچرا میں بدبو کے ساتھ ساتھ بہت سی بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں۔لوگ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ کچرا نے کراچی کی عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔
کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں ٹن کچرا پیدا ہو رہا ہے۔ ایس ایس ڈبلیو ایم بی  کے مطابق روزانہ تیرہ ہزار ٹن کچرا لوگ گھروں باہر پھنکتےہیں مگر چھ سے سات ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا ہے۔


فکس اٹ نے اپنے وسائل کو استمعال کرتے ہوئے کراچی میں کئی جگہ پر صفائی کا کام سر انجام دیا۔ اب حال ہی میں پی ٹی ای کے وفاقی وزیر نے صفائی مہم کا آ غاز کر کے کراچی کی عوام کو ایک اور نئی امید دلائی تھی مگر افسوس اس مہم کا نتیجہ بھی وہی نکلا۔ میڈیا پر کچرا کو لے کر عجیب ڈرامے ہو رہے ہیں مگر کوئی بھی اس معاملے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ روشنیوں کا شہر دوبارہ سے اپنی اصلی حالت میں آنے کے لیے اپنے مسیحا کا منتظر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :