وزیراعلیٰ سیکٹریریٹ کے سائلین بھی مایوسی کا شکار

اتوار 30 دسمبر 2018

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

پاکستان تحریک انصاف اپنے پہلے 100دن کی کارکردگی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کر چکی ہے۔ اب عوام کو کیا ملا ؟ یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔ بحیثیت صحافی اِس 100دن کی کارکردگی رپورٹ پر سو دن مسلسل کالم لکھے جا سکتے ہیں اور اگر چند جملوں میں اختصار پیش کیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب حکومت کی100روزہ کارکردگی کی تقریب کا اہتمام اچھا تھا اور شرکاء بھی اچھے لگ رہے تھے تاہم باقی حسب سابق اعدا د و شمار اور دعوؤں کی فلم تھی ۔

تاہم ایک دوسرے کی تعریف سازی کمال کی تھی۔
تقریب کا سب سے اہم پہلو وہ تھا جب وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کی تعریف کی اور خوبیاں گنوائیں۔ بے شک سردار عثمان خان بزدار کاچناؤ جنوبی پنجاب کے حوالے سے ایک قابل تعریف امر ہے۔

(جاری ہے)

سردار عثمان خان دن رات انتھک محنت بھی کررہے ہیں کہ عمران خان کی توقعات پر پورا اُتر سکیں۔

ابھی شروعات حکومت ہے اور ہر گزرتا دن اُن کے تجربہ میں ایک نیا اضافہ کر رہاہے۔ بے شک 100دن کا ہنی مون ہر نئی حکومت کا حق ہوتا ہے تاکہ وہ حکومتی امور کو بہتر انداز میں سنبھا ل سکے۔
پاکستان تحریک انصاف کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکا ہے اُسے اب عوام کو دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر دینی ہوگی۔ بالخصوص جنوبی پنجاب کی عوام کی محرومیوں کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔

شائد اِسی لیے ہر جمعہ کے روز وزیر اعلیٰ آفس میں تین گھنٹے کے لیے جنوبی پنجاب کے سائلین سے سردار عثمان خان بزدار خود ملتے ہیں اور اُن کے مسائل کو حل کرنے کے احکامات جاری کرتے ہیں۔بے شک یوں وزیراعلیٰ پنجاب کا ہر جمعہ کے روز اپنے علاقہ کی عوام سے ملنا ایک قابل تعریف فعل ہے۔ یہ سلسلہ گذشتہ دو ماہ سے جاری ہے۔ اور اب ہرجمعہ کو سائلین کی تعداد میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔

عالم سائلین یہ ہو چکا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار اپنی کرسی سے اُٹھتے ہیں اور ایک بڑے سے ہال میں موجود ہر فرد سے خود جا کر مصافہ کرتے ہیں۔ سائلین سے درخواستیں وصول کرکے اپنے سٹاف کو تھما دیتے ہیں۔ سائلین کو چائے پلائی جاتی ہے اور کچھ مہمانوں کو رہائش بھی فراہم کی جاتی ہے۔ معذور سائلین کو فی کس پانچ ہزار روپے کرایہ بھی ادا کیاجاتا ہے۔


سائلین خوش بھی ہیں اور افسرد ہ بھی۔ خوش اِس لیے ہیں کہ انہیں تخت لاہور کا وزیر اعلیٰ پنجاب خود ملتا ہے اور اِس بہانے وہ وزیر اعلی آفس بھی دیکھ لیتے ہیں جبکہ افسردہ اِس لیے ہیں کہ اُن کی درخواستیں نجانے کس ردی کی ٹوکری میں پھینکی جارہی ہیں۔ سائلین کے کام نہیں ہو رہے۔ جس آس و اُمید پر وہ تونسہ شریف اور ڈیرہ غازیخان سے 400کلومیٹر کا طویل سفر طے کرکے لاہور پہنچتے ہیں وہ اُمید بر نہیں آرہی۔

بیورو کریسی کا بے لگام گھوڑا نئے پاکستان میں بھی بے لگام ہے۔ وزیر اعلیٰ آفس کا متعلقہ سٹاف سائلین کو خوش کرنے کی خاطر درخواستیں تو وصو ل کر لیتا ہے مگر اُن سائلین کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ اگر وزیر اعلیٰ سیکٹریریٹ تک رسائی کے باوجود سائلین کے مسائل میرٹ پر حل نہیں ہونے تو پھر اِس تمام شعبدہ اور شوبازی کی ضرورت کیا ہے؟۔ ؟شوبازی تو ویسے بھی سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی بہت مشہور ہے۔


بے شک سردار عثمان خان بزدار کی نیت نیک اور اعمال میں خلوص ہے مگر اُن کے ماتحت بیورو کریسی ابھی بھی بے حس اور بے لگام ہے۔کھلی کچہریوں میں پیش ہونے والے اکثرسائلین کا تعلق مظلوم طبقہ سے ہوتا ہے۔اُن کے ساتھ کسی نہ کسی صورت میں ناانصافی ہو رہی ہوتی ہے اِسی شکایت کے ازالہ کی خاطر وہ ارباب اقتدار تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ بھی اُن سائلین کی کوئی داد رسی نہیں کرتا تو پھر نیا پاکستان بنانے کا خواب کیوں عوام کو دکھایا تھا۔

؟ممکن ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اُن کا سٹاف رپورٹ پیش کرتا ہو کہ سب اچھا ہے مگر نہیں سب اچھا نہیں ہے۔لاہور کی مسافت کے دھکے کھاتے سائلین کے کام نہیں ہو رہے۔ اُن کی درخواستوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا جا رہا ہے۔
 اگر چند من پسند افراد کی درخواستوں پر کاروائی ہو رہی ہے تو یہ کوئی کمال نہیں ۔ کچن کابینہ کے احباب کے کام تو ہر صاحب اقتدار کرتا ہے۔

انہونی تو یہ ہوتی کہ ہر سائل کا کام میرٹ پر فوری طورپر ہوتا مگر صد افسوس بیوروکریسی کسی بھی صورت پاکستان میں تبدیلی کو برادشت نہیں کر رہی۔ لاہور میں موجود بیوروکریٹس کی گردنوں میں آج بھی لوہے کی سلاخیں موجود ہیں۔ وہ آج بھی جنوبی پنجاب کے سائل کو شودر سمجھتے ہیں۔ اُن کی لہجے میں فرعونیت آج بھی جھلکتی ہے۔ وہ سائلین کو کمتر سمجھتے ہوئے اُن کی فائلیں اپنی ٹیبل پر سجا کر آج بھی طنزیہ انداز میں مسکرا تے ہیں۔


اگر ہر جمعہ کو یونہی سائلین کی اُمیدیں دم توڑتی گئیں تو ایک دن جنوبی پنجاب میں یہ خوشی بھی ختم ہو جائے گی کہ تخت لاہور کی بادشاہی اُن کے جنوبی پنجاب کے فرزند کے پاس ہے۔ عوام کے مسائل و مصائب کم نہ ہوئے تو تمام حکومتی کارکردگی بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ بے شک اقتدار جہاں امانت ہے وہاں ایک امتحان بھی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :