آکاس بیل

پیر 18 فروری 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

آنکھیں” نیا پاکستان“ کے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں عرصہ چھ ماہ کی مختصر مدت میں ہی بوجھل ہوگئی ہیں۔ ایک ایک کرکے تمام اُمیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔ نئے پاکستان کے نام پر پرانی سیاست کے کھیل تاحال تخت حکمرانی پر کھیلے جار ہے ہیں۔ کرپشن اور لوٹ مار کی کہانیاں عدل کی راہ داریوں میں دھیرے دھیرے پھر سے نقوش کھونے لگی ہیں۔ کبھی جیل اور کبھی رہائی، کبھی یوٹرن اور کبھی سخت احتساب کا نعرہ اب مذاق لگنے لگا ہے۔

قوم کے ساتھ لگتا ہے ایک دفعہ پھر ہاتھ ہوگیا ہے۔
 میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان پر مجموعی قرضہ جات کی مالیت 31ہزا ر ارب روپے ہے اور ستمبر 2018تک بیرونی قرضے 97ارب ڈالرتھے۔ یونہی اگر یہ معاشی بحران چلتا رہا تو آئندہ دو سالوں بعد اِن کی مالیت 40ہزار ارب روپے ہو جائے گی۔

(جاری ہے)

پاکستان کی کل آمدن 55سو ارب روپے ہے جن میں سے دفاعی اخراجات اور قرضہ جات کی ادائیگیوں پر 36سو ارب روپے خر چ ہو جاتے ہیں۔

18ویں آئینی ترمیم کے مطابق صوبوں کا حصہ 25سو ارب روپے واجب الا ادا بنتا ہے۔ جس کی ادائیگی کے لیے 6سو ارب روپے کا قرض لیا جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں پاکستان کا کل خرچہ 61سوارب روپے اور آمدن 55سو ارب روپے ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود میں اضافہ کی بناپر یہ توزان مذید بگڑجاتا ہے۔
نظام حکومت چلانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اپنے دور حکومت 2008-13میں 5.5ارب روپے روزانہ قرضہ لیتی رہی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نون اپنے دور حکومت 2013-18میں 7.7ارب روپے روانہ قرضہ لیتی ہے۔اور جولائی 18ء تا نومبر 18تک نگران حکومت اور موجودہ پی ٹی آئی حکومت 15ارب روپے روزانہ کا قرضہ لیتی رہی ہے اور جو کہ آج کل تقریبا ً17ارب روپے روزانہ ہو گیا ہے۔ دوسری جانب بقول وزیر اعظم عمران خان ہر روز فقط سود کی ادائیگی پر حکومت کو 6ارب روپے روزانہ ادا کرنا پڑ رہا ہے۔


بلحاظ آبادی دُنیا کا پانچواں بڑا ملک پاکستان اِس وقت مکمل طورپر قرض کی رقم سے چل رہاہے۔ نظام حکومت کے تمام اخراجات بشمول ترقیاتی منصوبہ جات، سرکاری اداروں کے اخراجات، تنخواہیں، پنشن، صاحب اقتداران کے بیرون ممالک کے دورے،قومی اسمبلی ، چارو ں صوبائی اسمبلیوں کے اخراجات اور اِن کے ممبران کی ٹھا ٹ باٹ، بیوروکریٹس کے ناز و انداز پر اُٹھنے والے اخراجات اور سٹرکوں پر دوڑتی سرکاری گاڑیوں کے اخراجات اور سرکاری اجلاسوں اور میٹنگز کے اخراجات حتی کہ منرل واٹر کی بوتل تک قرض کی رقم سے خریدی ہوئی ہوتی ہے۔

پورا ملک مقروض ہے مگر تبدیلی کا دعوی چھ ماہ میں کہیں نظر نہیں آیا۔
ہمارے دشمنوں کو اب ٹینکوں سے ہم پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ دشمن اب بخوبی جانتا ہے کہ قرض کی دیمک ہمارے ملک کو ایک طرف چاٹ رہی ہے تو دوسری طرف کرپٹ مافیا یہاںآ کاش بیل بن چکا ہے۔قرضوں سے بنائی گئی شان و شوکت اور آرام پرستی اب نہ حکمرانوں سے ختم ہوتی ہے او رنہ ہی بے تاج کے بادشاہوں یعنی بیورو کریٹس میں یہ خلو ص موجود ہے کہ وہ ایمانداری پر عمل پیرا ہو جائیں ، اپنے اخراجات کم کر دیں اور کرپشن چھوڑ دیں۔

سیاسی مصلحتوں میں جکڑی حکومتیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو پا تیں اور نہ وہ سخت فیصلے کر پاتی ہیں۔سادہ طرز زندگی اپنانا اب بہت مشکل ہے۔ جس تن نے عیش و آرام کا لطف چکھ لیا ہو وہ پھر واپس سختی نہیں برداشت کر سکتا۔
 حکومتی عہدہ داران کے خطابات میں اپوزیشن والی بے بسی نظر آتی ہے۔ عمران خان کے پاس ماہر ٹیم اور ہوم ورک کا فقدان تھا اور ہے، اب یہ بات حقیقت بن کر سامنے آ چکی ہے۔

اگراِس معاشی بحران کا سد باب نہ کیا گیا تو پھر سونامی تباہی کی تبدیلی کا ہوگا۔
 پاکستان کی بیورو کریسی دُنیا کی پانچ کرپٹ ترین بیورو کریسوں میں شمارکی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ 80فیصد بیورو کریٹ کرپٹ ہیں۔ ماہانہ تنخواہ داراِ س ملک کو لوٹ کر اربوں کھربوں روپے کے بزنس کے اب خاموش سرمایہ دار بن چکے ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کے سیاست دان کرپشن کو نہ پہلے ختم کر سکے ہیں اور نہ اب ختم کر سکتے ہیں۔

ملک کے کسی کونے میں پوشیدہ کوئی قوت جس میں محب وطنی ہو وہ اب منظر عام پر آئے اور اِس کرپشن کو ختم کرئے ورنہ ہم سب ختم ہو جائیں گے۔ اور سب سے پہلے اُسے سرکاری ادارں میں جاری ترقیاتی منصوبہ جات میں ہونے والی کرپشن کو ختم کرنا ہوگا۔ قرض کی رقم سے شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبہ جات میں کرپشن قبیلہ ابلیس کی الف لیلوی داستان ہے جو کہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔


پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں ترقیاتی منصوبہ جات کے نام پر کرپشن کا ایک باقاعدہ سرکاری طے شدہ فارمولا رائج ہے۔ جس کی آگاہی سب کو ہے مگر کوئی اِس کو قابل شرم و مذمت تصور نہیں کرتا کیونکہ اِس تالاب میں سب ہی ننگے ہیں۔ مثلا محکمہ جات پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، لوکل گورنمنٹ، بلڈنگ، پنجاب ہائی وے ، نیشنل ہائی وے ، میونسپل کارپویشن اور ضلعی حکومتوں کے ترقیاتی منصوبہ جات میں کرپشن کا فارمولا کچھ یوں رائج ہے کہ ہر سرکاری ٹینڈر کے اجرا پر فی کس ایک ہزا روپے سرکاری فیس کے علاوہ ایک ہزا ر روپے بطور رشوت وصول کی جاتی ہے۔

کامیاب ٹھیکہ دار کو ورک آڈر کے اجرا پر کل مالیت کا دو فیصد متعلقہ محکمہ کے ایگزیکٹو آفیسر (ایکسین ) کوبطور رشوت دینا پڑتا ہے اور اِس دو فیصد مالیت میں متعلقہ سیکٹریری و دیگر اعلیٰ حکام تک شراکت دار ہوتے ہیں۔ پھر جب کام شروع ہو جاتا ہے تو ہر بل کی ادائیگی پر ایک فیصد رشوت برائے ایگزیکٹو آفیسر (ایکسین )، ایک فیصد برائے رشوت ایس ڈی او ، دو فیصد تا تین فیصد رشوت برائے اور سیر، ایک فیصد رشوت برائے کلریکل سٹاف اور ڈیڑھ فیصد رشوت برائے پری ایڈیٹر وصو ل کرتا ہے ۔

جبکہ فی لاکھ روپے پر چار سو روپے بطور رشوت متعلقہ ڈسٹرکٹ اکاوئنٹس آفیسر وصول کرتا ہے۔
رشوت کا یہ فارمولا اب سرکاری بن چکا ہے جس کی آگاہی تمام متعلقہ محکمہ جات کے افسران سمیت ضلعی ڈپٹی کمشنر اور ڈویژنل کمشنر تک کو ہوتی ہے۔ اِس فارمولا کے ہمراہ سرکاری افسران ہی ٹھیکہ داران کو دیگر کرپشن کے راستے اپنانے کے ہنر بھی خود سکھاتے ہیں۔

یوں قرض کی رقم سے شروع ہونے والے ترقیاتی منصوبہ جات تباہ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔یہ سلسلہ گذشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں جاری ہے۔ جس طرح قرض پر چلنے والا خاندان محلہ بھر میں بدنام و برباد ہو جاتا ہے بعین ہی پاکستان کا حال اب اقوام عالم میں ہونے جا رہا ہے۔
 نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے فقط کرپشن کے ناسور کا خاتمہ اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بناناہو گا ۔ اِس سے پہلے کہ اور دیر ہو جائے کسی محب وطن ادار ہ کو اِن بے لگام اور بے تاج کے بادشوں کو اب نتھ ڈالنی ہوگی ورنہ ہماری آئندہ نسلیں بھی اِس آکاس بیل سے بچ نہیں سکیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :