دفاعی بجٹ میں کٹوتی اور سرکاری منظور شدہ کرپشن

ہفتہ 8 جون 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

ماہ جون مالی سال کا آخری ماہ ہوتا ہے ہر سال جاری بجٹ کو30 جون تک خرچ کیا جاتا ہے جبکہ حکومتِ وقت اِسی ماہ جون میں ہی نئے مالی سال کا بجٹ بھی پیش کرتی ہے۔ گذشتہ 10ماہ سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت مالی اور انتظامی امور چلانے میں دشواریوں کا شکار ہے اور مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔ حکومت کامیاب ہے یاناکام یہ بحث طویل ہے۔ تاہم میڈیا کی حد تک جو خبریں منظر عام پر آرہی ہیں اُن کے مطابق پوری حکومت وقت اِس وقت معاشی بحران سے نکلنا چاہتی ہے اور عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے۔


بجٹ کے خسارہ کو کم کرنے کی خاطر اورملکی معیشت کی بہتری کیلئے پاک فوج نے رضاکارانہ طور پر دفاعی بجٹ میں اضافہ نہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ پاک فوج نے دفاعی اخراجات موٴخر کرنے اور فوج کے راشن، سفری اخراجات اور انتظامی اخراجات میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ ساتھ چیلنجز کے باوجود آرمی افسران نے تنخواہوں میں اضافہ نہ لینے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

جوکہ انتہائی جرت مندانہ فیصلہ ہے کہ بھار ت جیسے دشمن کی موجودگی میں پاک فوج عسکری طور پر تیار بھی ہے اور ساتھ ہی ملکی معیشت کو سہارا دینے کی کاخاطر دفاعی بجٹ میں کٹوتی پر بے فکر ہو کر آمادہ بھی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاک فوج نے کئی سیکیورٹی چیلنجز کے باوجود دفاعی اخراجات میں کٹوتی کی ہے اور اب حکومت اس رقم کو ضم شدہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی ترقی پر خرچ کرے گی۔

دوسری جانب اِس ضمن میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ے کہ یہ اقدام قوم پر احسان نہیں کیوں کہ ہم ہر قسم کے حالات میں اکٹھے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ تمام ادارے، بشمول سویلین اور فوج، اس بات پر متفق ہیں کہ سنجیدہ اور پائیدار ادارہ جاتی اصلاحات ہونی چا ہیں اور اس کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑے تو کیے جائیں گے۔

 
معاشی ابتر صورت حال کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان نے 30جون کے بعد ٹیکس چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کا عندیہ دے رکھا ۔جبکہ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی ا ٓر) شبر زیدی نے وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں کہا کہ موجودہ پالیسی کی خامیوں کے باعث بہت سی دولت بغیر ٹیکس کے رہ جاتی ہے،اس لئے موجودہ ٹیکس نظام کو تبدیل کیا جائے۔

پاکستان کا ٹیکس وصولیوں کا نظام جی ڈی پی کے 10 فیصد سے کم ٹیکس پیدا کرتا ہے، ملکی آبادی کے صرف ایک فیصد لوگ پورے ملک کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔
فوج، حکومت اور حکومتی ادارے ملکی معاشی صورت حال سے پریشان ہیں۔ اِس معاشی پسماندگی کے اسباب میں دو اہم سبب ، ٹیکس نظام کی خامیاں بمعہ ٹیکس چوریاں اور کرپشن ہے۔ کرپشن کی کئی اقسام ہیں جو اِس وقت ملکی انتظامی ، معاشرتی ، سماجی اور معاشی نظام پر آسیب بن کر مسلط ہیں۔

72سالہ پاکستانی تاریخ کا سب سے اہم مسئلہ یہی کرپشن ہے۔ پاکستان کو ہر شخص اپنی اپنی حیثیت و طاقت کے مطابق لوٹ رہا ہے۔ کرپشن کی دیمک نے پاکستان کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کی کامیابی کی راہ میں بھی یہی کرپشن سب سے بڑی رُکاوٹ ہے۔
 پاکستانی بیورو کریسی کرپشن کی پہلی دیمک ہے جو پاکستان کو ہر روز چاٹتی ہے۔ 80فیصد بیورو کریٹ کرپٹ ہیں۔

ماہانہ تنخواہ دار سرکاری ملازم اِ س ملک کو لوٹ کر اربوں کھربوں روپے کے بزنس مین بن چکے ہیں۔یہی بیوروکریٹس سیاست دانوں کو بھی کرپشن کے رموز پڑھاتے ہیں۔ سرکاری کرپشن کی ہر راہ سرکاری ملازمین تک جاتی ہے۔ یہی طبقہ اگر ایماندار اور محب وطن ہو جائے تو پورا پاکستان سدھر سکتا ہے۔ پاکستانی کرپشن پر اتنی کتب لکھی جا سکتی ہے کہ اُن سب کتب کی ایک الگ سے دُنیا کی ایک بڑی لائبریری بن سکتی ہے۔

اِسی ماہ جون میں تمام سرکاری ادارے اپنا اپنا ترقیاتی اور غیر ترقیاتی سالانہ بجٹ کلوزنگ کے نام پر خرچ کرتے ہیں۔ ہر سال ماہ جون میں ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ اکاونٹس آفس میں کرپشن کا ایک بازار لگتا ہے۔ جعلی بل بنائے جاتے ہیں۔ جعلی خریداری کی رسید یں بنائی جاتی ہیں۔ ٹی اے ڈی اے اور دیگر بجٹ کے مد وں کو بوگس بلوں کے ذریعے فقط ایک ماہ میں خرچ کرنا ظاہر کیا جاتا ہے۔

ہر محکمہ کا متعلقہ اکاونٹس کلرک یہ بل بناتا ہے۔ پھر ڈسٹرکٹ اکاوئنٹس والے سرعام کمیشن پر اِن بلوں کو پاس کرتے ہیں۔ یہ وہ منظم اور سرکاری منظور شدہ کرپشن ہے جس میں ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر اورہر محکمہ کا ضلعی سربراہ براہ راست ملوث ہوتا ہے۔ حتی کہ محکمہ انٹی کرپشن بھی اِس گناہ میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔
 نیز یہ کوئی رازبھی نہیں بلکہ برسوں سے کرپشن کا چلتا ایک سرکاری طریقہ کار ہے۔

ہر سال بوگس بل بھی بنتے ہیں اور کیش بھی ہوتے ہیں۔ مگر کوئی احتساب نہیں کوئی خوف ِخدا اور خوف قانون نہیں۔ ماہ جون کے بعد حرام کی کمائی سے کوئی سرکاری ملازم عمرہ پر چلا جاتا ہے تو کوئی ٹھنڈی فضائیں سے لطف اندوز ہونے شمالی علاقہ جات چلا جاتا ہے ۔ غریب عوام او رمقروض ملک کا اربوں کھربوں کانقصان فقط ایک ماہ میں سرکاری افسران کی سرپرستی میں ہوتا ہے آخرکیوں او رکب تک؟ 
 صوبہ پنجاب میں سرکار ی محکمہ جات، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، لوکل گورنمنٹ، بلڈنگ، پنجاب ہائی وے ، نیشنل ہائی وے ، میونسپل کارپویشن اور ضلعی حکومتوں کے ترقیاتی منصوبہ جات میں کرپشن کا فارمولا باقاعدہ سرکاری طور پررائج ہے مثلاً سرکاری ٹینڈر کے اجرا پر فی کس ایک ہزا روپے سرکاری فیس کے علاوہ ایک ہزا ر روپے بطور رشوت وصول کی جاتی ہے۔

 
کامیاب ٹھیکہ دار کو ورک آڈر کے اجرا پر کل مالیت کا دو فیصد متعلقہ محکمہ کے ایگزیکٹو آفیسر (ایکسین ) کوبطور رشوت دینا پڑتا ہے اور اِس دو فیصد مالیت میں متعلقہ سیکٹریری و دیگر اعلیٰ حکام تک شراکت دار ہوتے ہیں۔ پھر جب کام شروع ہو جاتا ہے تو ہر بل کی ادائیگی پر ایک فیصد رشوت برائے ایگزیکٹو آفیسر (ایکسین )، ایک فیصد برائے رشوت ایس ڈی او ، دو فیصد تا تین فیصد رشوت برائے اور سیر، ایک فیصد رشوت برائے کلریکل سٹاف اور ڈیڑھ فیصد رشوت برائے پری ایڈیٹر وصو ل کرتا ہے ۔

جبکہ فی لاکھ روپے پر چار سو روپے بطور رشوت متعلقہ ڈسٹرکٹ اکاوئنٹس آفیسر وصول کرتا ہے۔ یہ ایسا فارمولا ہے جس سے سب باخبرہیں مگر کوئی بھی حکومتی ادارہ اِس گناہ کو گناہ نہیں سمجھتا۔ قومی دولت کی اِس لوٹ ما رکو کوئی کرپشن نہیں کہتا۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ ا س فارمولا کے ہمراہ سرکاری افسران ہی ٹھیکہ داران کو دیگر کرپشن کے راستے اپنانے کے ہنر بھی خود سکھاتے ہیں۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ 2019-20میں ضم شدہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان کی ترقی کی خاطر افواج پاکستان کے بجٹ میں کٹوتی، پاک فوج کی ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ مگر یہ قربانی بیان کردہ طریقہ کار کریشن کے تناظر میں لا حاصل ہو جائے گی۔اگر افواج پاکستان کے افسران ملک کی خاطر جانی اور مالی قربانی دے سکتے ہیں تو سول بیوروکریسی کے افسران کیوں نہیں ایماندار ہو سکتے ۔

تقریباًہر ضلع میں آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو(آئی بی) اور سپیشل برانچ پولیس کے دفاتر بمعہ عملہ موجود ہیں۔ اِن اداروں کا ہر ضلع میں ایک مشترکہ سیل بنایا جائے۔ جہاں سرکاری ملازمین و افسران کے اثاثہ جات وغیرہ کی چھان بین کی جائے۔ ایک سرکاری اہلکار 25تا 30سال نوکری کرتا ہے۔ اِس مدت میں وصول کردہ سرکاری تنخواہ کا حساب لگا کر اُ س کے اثاثہ جات کی پٹرتال کی جائے۔

آمدن سے زائد نامی اور بے نامی اثاثہ جات کو بحق سرکار ضبط کرتے ہوئے کرپشن کی سزا موت قرار دیتے ہوئے ہر کرپٹ سرکاری ملازم و افسر کو پھانسی پر لٹکا دیں ۔ چند ہزار کرپٹ افراد کی پھانسیاں باقی ماندہ پوری قوم کی خوشحالی او رسُکھ کا باعث بن جائیں گی۔ ورنہ کرپشن کا یہ سلسلہ سیاست دانوں سے نہیں ختم ہو سکتا کیونکہ اِس تالاب میں بیوروکریٹس اور سیاست دان سب ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہیں۔ اور ہر سال ماہ جون میں قبیلہ ابلیس یونہی فیض یاب ہوتا رہے گا اور افواج پاکستان کی جانی اور مالی قربانیاں ضائع ہو تی رہیں گی۔ اگر قوم خوش و خوشحال نہیں تو پھر سبھی قسم کی قربانیاں بیکار ہیں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :