قبائلی عوام کو بھی جینے کا حق دیا جائے

بدھ 10 جولائی 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

 وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزادر نے انسانیت اور بلوچ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے میو ہسپتال میں اپنے ضلع کے زیر علاج زخمی ڈپٹی کمشنر ڈیر ہ غازی خان طاہر فاروق کی عیادت کی ہے۔ بے شک عیادت کرنا عبادت بھی ہے اور انسانیت کی اعلیٰ منزلت بھی۔ 4جولائی 2019کو کمشنر ڈیرہ غازی خان اسد اللہ فیض، ڈپٹی کمشنر طاہر فاروق اور کمانڈنٹ باڈر ملٹری پولیس(بی ایم پی) سید موسی ٰرضا نے قبائلی علاقہ جات کا سرکاری وزٹ کیا ۔

بواٹہ سے براستہ مبارکی واپسی پر رونگھن روڈ ( شہر ڈیرہ غازی خان سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر واقع قبائلی علاقہ) سرکاری گاڑیوں کے قافلہ میں ڈی سی کی گاڑی جو کہ اُن کا ڈرائیور سید اشتیاق شاہ چلا رہا تھا وہ ایک موٹر پر بریک فیل ہونے کی بناپر گاڑی پر قابو نہ رکھ سکا اور گاڑی نیچے کھائی میں جا گری۔

(جاری ہے)

گاڑی نے دو قلابازیاں کھائیں اور ایک بڑے پتھر سے ٹکرا کر ٹھہر گئی اگر وہ پتھر نہ ہوتا تو گاڑی مذید نیچے کھائی کی گہرائی میں گرتی تو خدا نخواستہ سب کچھ ختم ہو سکتا تھا ۔

خدا کا شکر ہے کہ چار وں افراد ڈی سی طاہر فاروق، کمانڈنٹ سید موسی رضا ، گارڈ شہزاد فرید میرانی اور ڈرائیور اشتیاق کو شدید چوٹیں تو لگیں مگر اِن سب کی جان بچ گئی ۔
 ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر ناطق حیات کی زیر کمان کم وبیش تین گھنٹے کا طویل ریسکیو کا آپریشن کیا گیا ۔ اگر یہ ریسکیو آپریشن ایمرجنسی سروس 1122کے تربیت یافتہ اہلکار نہ کرتے تو جو احوال بذریعہ ڈاکٹر ناطق حیات شنیدمیں آیا ہے اُس کے مطابق ڈپٹی کمشنر طاہر فاروق کو جو ریڑھ کی ہڈ ی میں چوٹیں لگ چکی تھیں اور ابتدائی طور پر جس شاک میں تھے اگر وہ غیر تربیت یافتہ ریسکیو کا طریقہ کار استعمال کیا جاتا تو خدا نخواستہ طاہر فاروق کو معذوری کی صورت میں ایک بڑا نقصان ہو سکتا تھا۔


 قبائلی علاقہ جہاں مواصلات کا کوئی نظام نہیں، کوئی مرکز صحت نہیں۔ جہاں آج بھی قبائلی لوگ پتھر کے زمانے کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ وہاں پر اُس دن اگر یہ گاڑیوں اور اہلکاروں کا ایک مشترکہ قافلہ نہ ہوتا تو شائد اکیلی گاڑی کا حادثہ ایک بہت بڑا سانحہ بن کر بریکنگ نیوز بن جاتا۔ پھر افسوس کے سوا کچھ نہ بچتا۔ بقول ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر ناطق حیات کے ڈی سی طاہر فاروق کی موقعہ پر حالت بہت خراب تھی۔

اُن کابلڈ پریشر کم ہو رہا تھا۔ریڑھ کے ہڈی کے مہروں میں شدید درد تھا۔ وہ شاک میں جا رہے تھے ۔ جن کی جان کا بچنا ایک معجزہ اور تربیت یافتہ ریسکیور اہلکاروں کی محنت و دعا ہے۔ اِسی بناپر انہیں بذریعہ ہیلی کاپٹرسرجیکل ٹاور میو ہسپتال لاہور منتقل کرنا پڑا ۔ جس پر چند احباب نے دیگر زخمیوں کو چھوڑ کر اکیلے لاہور شفٹ ہونے کابے جا شور مچایا۔

اگر ایسا نہ کیا جاتا تو انہیں بڑا نقصان ہو سکتا تھا۔
 سنجیدہ شہری حلقوں کی جانب سے تاہم اِس دُکھ اور افسو س کا برملا اظہار کیا گیا ہے کہ ٹیچنگ ہسپتال کی اپ گریڈیشن پر اربوں روپے کے فنڈز خرچ بلکہ کرپشن کی نذ ر ہو چکے ہیں مگر کسی بھی اہم شخصیت کا علاج آج تک اِس ہسپتال میں نہیں کیا گیا کیونکہ اِس ہسپتال کی اپ گریڈیشن ،یہاں دستیاب طبی سہولیات اور ڈاکٹروں کی پیشہ وارانہ قابلیت فقط ایک سراب ہے۔

ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈی سی طاہر فارو ق کو یہاں سے لاہو ر میں بھی ایک سرکاری ہسپتال میں ہی شفٹ کیا گیا ہے ۔ انہیں کسی نجی ہسپتال تو شفٹ نہیں کیا گیا اگر میو ہسپتال میں اُن کا علاج ہو سکتا تھا تو یہاں کیوں نہیں اور آخر کب تک ٹیچنگ ہسپتال میں ریفر سٹم کا یہ ڈرامہ چلتا رہے گا۔
 وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے میو ہسپتال کے سرجیکل ٹاور کا خود وزٹ کیا ہے اوروہاں دسیتاب طبی سہولیات کا جائزہ لیا ہے۔

انہیں چاہیے کہ اب وہ اپنے شہر کے ٹیچنگ ہسپتال کے امور کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور اِس ہسپتال کو کم از کم اِس معیار کا تو بنا دیں کہ یہاں بنیادی طبی سہولیات ہر عام آدمی کو میسر آجائیں اور وی آئی پی مریضوں کا یہاں سے ریفر سسٹم ختم ہو جائے۔ یہ تمام حادثہ درحقیقت قبائلی علاقہ کی صدیوں سے جاری محرومیوں اور ستم ظریفی کا ایک چھوٹا سا عکس ہے۔

چونکہ اِس حادثہ میں وی آئی پی شخصیات متاثر ہوئی ہیں اِس لیے یہ اہم واقعہ بن گیا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے قبائلی لوگ اکثر وبیشتر یہاں حادثات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ برسوں سے قبائلی علاقہ جات میں سٹرکیں اور جیب ایبل ٹریکس بنانے کے اربوں روپے فنڈز کرپشن کی نذر ہوتے چلے آرہے ہیں۔ قومی اور صوبائی محکمہ شاہرات سمیت ٹرائبل ایریا ڈویلمپنٹ پروجیکٹ( ٹی اے ڈی پی) وغیرہ سبھی اداروں نے اربوں روپے کی کرپشن کی ہے۔

افسوس تو یہ ہے اِس کرپشن میں سابقہ اعلیٰ ضلعی افسران سمیت مقامی قبائلی سردار بھی ملوث رہے ہیں اور کرپٹ افسر ان کو سرداروں نے اپنی اپنی آشیر باد بخشی ہے۔
 کسی بھی علاقے کی ترقی کا پہلا زینہ اُس علاقے میں سٹر کوں کی رسائی ہوتا ہے۔آج اگر رونگھن روڑ بنا ہوا ہوتا تو اِس قدر بڑا حادثہ پیش نہ آتا۔جب ریسکیو ٹیم جائے حادثہ پر پہنچی تو متاثرین کو ایسے لگا جیسے زندگی کا فرشتہ آگیا ہو۔

زندگی کا یہ فرشتہ غریب قبائلی عوام کے لیے راستوں کی کھٹن کی بناپر وہاں نہیں جا سکتا۔ ڈپٹی کمشنر طاہر فاروق انتہائی نیک اور شفیق انسان ہیں اُن کی کوئی نیکی اُن کے کام آگئی ہے ورنہ قبائلی علاقہ کی محرومی نے اپنا کام پورا کر دکھایا تھا۔ اُن کی چوٹ کی شدت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کمشنر ڈیرہ غازیخان اسد اللہ فیض نے فی الحال ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان کا اضافی چارج ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ احتشام انو ر اور کمانڈنٹ باڈر ملٹری پولیس کا اضافی چارج اسسٹنٹ کمشنر تونسہ شریف چوہدری نوید کو دے دیا ہے۔


اِس حادثہ کی سنگینی کا احوال اب پورے پنجاب کی بیورو کریسی اور سیاست دانوں کو ہے۔ اگر اِس بار زندہ ضمیری سے کام لیا جائے تو آئندہ قبائلی علاقہ جات کے فنڈز کو کرپشن سے بچایا جائے تاکہ صدیوں سے ستم زدہ قبائلی عوام کو بھی اب جینے کا حق دیا جائے اور وزیر اعلی ٰپنجاب سردار عثمان خان بزدار اپنے شہر کے ٹیچنگ ہسپتال کو جس میں بلوچستا ن سے بھی سالانہ لاکھوں مریض علاج کے لیے ایک آس پر یہاں آتے ہیں اُس ٹیچنگ ہسپتال کو اِس قابل بنایا جائے کہ یہاں غریب مریضوں کی اموات کم از کم انسانی غفلت اور طبی سہولیات کے فقدان کی بناپر اور وی آئی پی حضرات کا ریفر سسٹم ختم ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :