میرٹ کے نعرے میں پرانے سفارشی کلچر کی گونج

جمعہ 13 ستمبر 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کی کارکردگی کے حوالے سے ناقدین و مخالفین اُن پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں ۔ ہر دوسرے روز اُن کی تبدیلی کا شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تنقید و طنز کے یہ نشتر چلتے رہتے ہیں مگر صاحب عقل حکمران اپنی توجہ تنقید کی بجائے اپنی کارکردگی پر مرکوز رکھتے ہیں ۔ ضلع ڈیرہ غازیخان وزیر اعلیٰ پنجاب کا اپنا آبائی اور پنجاب کا پسماندہ ضلع ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سردار عثمان خان بزدار کے مخالفین ضلع ڈیرہ غازی خان میں حکومتی اداروں کی ناقص کارکردگی کوجوازِ تنقید بنارہے ہیں۔یعنی ضلع ڈیرہ غازیخان اِس وقت مخالفین کے راڈار میں فوکس ہو چکا ہے۔
 ڈی جی خان شہر میں واقع ٹیچنگ ہسپتال گذشتہ دو سالوں سے مسلسل ناقص کارکردگی کی بناپر سوشل میڈیا پروزیر اعلیٰ پنجاب اور محکمہ صحت پنجاب کے لیے درد سر بن چکا ہے۔

(جاری ہے)

گذشتہ ایک سال (اگست 2018سے تاحال) میں ڈاکٹر عتیق الرحمان چشتی کے بعد سے اب تک چارمیڈیکل سپریٹنڈنٹ اوردو پرنسپل میڈیکل کالج آزمائے جا چکے ہیں مگر تاحال کوئی بہتری کی اُمید نظر نہیں آرہی۔ ڈی جی خان میڈیکل کالج کے تینوں اداروں میڈیکل کالج ، ٹیچنگ ہسپتال اور نرسنگ سکول اِس وقت سخت انتظامی بحران کا شکا رہیں۔ محکمہ صحت کے افسران کی افسر شاہی اور مقامی سیاست دانوں کی ناتجربہ کاری کی بناپر اِس وقت پرنسپل میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف قریشی 26دسمبر 2018سے ، میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر شاہد حسین مگسی 20اگست 2019سے اور پرنسپل نرسنگ سکول کلثوم بی بی17 جنوری 2019 سے ایڈیشنل چارج پر سربراہ ادار ہ تعینات ہیں مگر تینوں کی ناقص کارکردگی تاحال پنجاب حکومت کے لیے باعث بدنامی بنی ہوئی ہے۔


ڈاکٹر شاہد حسین مگسی اِس سے قبل چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی ڈیرہ غازی خان پوسٹ تھے۔ اُن کی بطور سی ای او ڈی ایچ اے سابقہ کاکردگی قابل تعریف نہیں۔ گذشتہ ایک سال میں ضلع کے کسی بنیادی مرکز صحت، کسی دیہی مرکز صحت سمیت کسی ضلعی ہیلتھ ادارے میں کوئی نمایاں قابل تعریف کام نہیں ہوا(ماسوائے دیہی مرکز صحت بارتھی کی اپ گریڈیشن کے) جبکہ ناقص کارکردگی آن کارڈ موجودہے۔

سیاسی سفارش کی بناپرڈاکٹر شاہد حسین مگسی کی ایم ایس شپ کی لاٹری نکل آئی ہے ورنہ وہ اِس قدر بڑے ادارے کے اہل نہیں ہیں۔
 پرنسپل میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف قریشی اچھے ڈاکٹر تو ضرور ہوں گے مگر اُن میں انتظامی امور کی اہلیت موجود نہیں ہے۔ گذشتہ ایک سال سے ٹیچنگ ہسپتال کے انتظامی امور انتہائی بد نظمی کا شکا رہیں اور درجن بھر سے زائد کرپشن کے سیکنڈل محکمہ اینٹی کرپشن میں باقاعدہ رجسٹرڈ ہو چکے ہیں جوکہ سربراہ ادارہ کی مالی کرپشن اور انتظامی نااہلیت کے عکاس ہیں۔

بطور پرنسپل ڈاکٹر آصف قریشی اِس ادارے کو چلانے میں بُری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔اُن کے اپنے آفس کا ایک سینئر اکاؤ ٹنٹ عنایت اللہ احمدانی اِس وقت فراڈ ، جعل سازی اور جنسی ہراسانگی کیسز کا محکمہ اینٹی کرپشن اور خاتون محتسب اعلیٰ پنجاب کی معزز عدالت میں براہ راست جواب دہ بنا ہو اہے۔بطور سربراہ ادارہ اِس مسئلے پر پرنسپل ڈاکٹر آصف قریشی کا جانبدار انہ کردار اور شعبہ فنانس سے وابستہ اِس سزا یافتہ اہلکار کی حمایت نے ڈاکٹر آصف قریشی کے دامن پر مالی امور کے بہت سے سوالات کو جنم دے دیا ہے۔

جبکہ پرنسپل نرسنگ سکول محترمہ کلثوم بی بی ایک جونیئر ترین نرسنگ انسٹرکٹر ہے جس کے پاس کوئی انتظامی امورکا تجربہ نہیں مگر چونکہ وہ افسران کی منظور نظر ہے اِس لیے چار سو طالبات کے ایک بڑے ادارے کو اِس کے حوالے کرکے تباہ کر دیاگیا ہے۔ ابھی ایک سال پوسٹنگ کا مکمل نہیں ہوا مگر محترمہ کی لاکھوں روپے کی کرپشن کا ریگولر کیس محکمہ اینٹی کرپشن میں اِس وقت زیر انکوئری ہے۔


اِن تمام ناکامیوں اور ناقص کارکردگی کا اثر براہ راست وزیر اعلیٰ پنجاب کے نامہ اعمال پر پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے سردار عثمان خان بزدار مسلسل مخالفین کی تنقید کی زد میں ہیں۔ سیکٹریری سپشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے 15ہسپتالوں کے میڈیکل سپریٹنڈنٹس اور تین میڈیکل کالجوں کے پرنسپل اور دو میڈیکل اداروں کے ڈین کی خالی آسامیوں پر پوسٹنگ کے لیے اہل اُمیدواران سے درخواستیں طلب کر رکھی ہیں۔

اِن آسامیوں میں پرنسپل ڈی جی خان میڈیکل کالج اور ایم ایس ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازی خان کی آسامیاں بھی شامل ہیں۔ وزیر اعلی ٰپنجاب کی ہدایات نے محکمہ صحت کو خواب خرگوش سے جگایا ہے اور اب انہیں خیال آیا ہے کہ 19اہم ترین آسامیوں پر نااہل افسران ناکام ہو چکے ہیں جن کو اب تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بہرحال دیر آئے درست آئے۔
 اب وزیر اعلی پنجاب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے شہر کے لیے کسی قابل ترین منتظم پرنسپل میڈیکل کالج کو یہاں پوسٹ کریں کیونکہ پرنسپل میڈیکل کالج ہی ٹیچنگ ہسپتال اور نرسنگ سکول کا منتظم اعلیٰ ہوتا ہے۔

ڈی جی خان میڈیکل کالج کی پرنسپل شپ ایک اہم ترین ذمہ داری ہے۔ جس کے لیے تجربہ کار منتظم کی ضرورت در پیش ہے۔نیاپرنسپل اگر ایماندار اور اچھا منتظم ہوا تو کرپشن کے سابقہ داغ بھی دُھل سکتے ہیں ورنہ حسب سابق میڈیکل کالج اور ٹیچنگ ہسپتال کا مافیا خطیر رقم کی لوٹ مار کرتا رہے گا اور مریض علاج کو ترستے رہیں گے۔
 سرکاری اعداد وشمارکے مطابق ٹیچنگ ہسپتال ڈی جی خان کی گذشتہ سال دسمبر 2018تک او پی ڈی 983051، داخلہ مریض 109552، آپریشن67304،ڈائیلسز 13793، ڈلیوریز(زچگی) 6083، سی سیکشن 2962، لیب ٹیسٹ 422299، ای سی جی 32174، سی ٹی سکین 3361، ایکسرے 63301، الٹراساؤنڈ 44935، ایم ایل سی 882، پوسٹ مارٹم 25، ایمرجنسی او پی ڈی 156160، ایمرجنسی داخلہ 36586، ٹراما او پی ڈی 137079، ٹراما داخلہ 22404، اموات2377اور ریفر ل کیسز کی تعداد 963تھی۔

جوکہ امسال 2019میں30فیصد زیادہ تعداد ہے۔ امسال میڈیکل کالج بشمول ٹیچنگ ہسپتال اور نرسنگ سکول کا بجٹ 3272149000روپے ہے جوکہ گذشتہ مالی سال کی نسبت 893324804روپے زیادہ رقم ہے۔ مجموعی ملازمین کی منظور شدہ آسامیوں کی تعداد 1860ہے ۔ اِن میں 868آفیسران اور992دیگر سٹاف کی آسامیاں شامل ہیں۔
اِس ہسپتال کی اپ گریڈیشن (عمارت کی تعمیر ) پر 993.359ملین روپے (جون 2018 تک) خرچ ہو چکے ہیں جبکہ ایڈمنسٹریٹو منظوری 1617.086ملین روپے کی تھی جوکہ وہ بھی مبینہ طورپر اب تک خر چ ہو چکی ہے مگر تاحال اِس ہسپتال کی اپ گریڈیشن جوکہ مالی سال 2013-14سے شروع ہوئی تھی ابھی تک نامکمل ہے۔

ہر دور کے پرنسپل میڈیکل کالج کی سرپرستی میں اِس اپ گریڈیشن ی(تعمیرعمارت اور جدید طبی آلات کی خریداری) کے نام پر اب تک کروڑوں روپے کی کرپشن ہو چکی ہے۔
 اِس وقت مکمل ادارہ سخت انتظامی بحران کا شکا رہے۔ ادارے میں بائیو میٹرک کا نظام آج تک مکمل طورپر نافذ نہیں ہو سکا۔ اعلی ڈاکٹر صاحبان ڈیوٹی پر آنا اور پھرمکمل ڈیوٹی کرنا ا پنی توہین تصور کرتے ہیں۔

او پی ڈی ، داخلہ اور میڈیسن ، طبی آلات، مشینری ، سٹیشنری، دیگر سٹور وغیرہ کی خریداری، مرمت کے بجٹ سمیت دیگر اضافی ملازمین کی بھرتی میں کرپشن کے بڑے بڑے سیکنڈل محکمہ اینٹی کرپشن میں اِس وقت زیر انکوئری ہیں۔ کرپشن کے زیادہ تر مقدمات پرنسپل ڈاکٹر آصف قریشی کے دور میں ظاہر ہوئے ہیں۔
 پرنسپل میڈیکل کالج کو سرکاری طو رپر مالی امور کی منظوری کے بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔

جن کے غلط استعمال کی بناپر میگا کرپشن کے الزامات بے نقاب ہوتے رہتے ہیں مثلا ًترقیاتی سکیموں کی منظوری مالیت 50لاکھ روپے، مشینری کی مرمت 25لاکھ روپے، سٹور کی خریداری 75لاکھ روپے، سرپلس سٹو ر 30لاکھ روپے،سیٹشنری کی خریداری 20لاکھ روپے، پرنٹنگ 20لاکھ روپے، اشتہارات 10لاکھ روپے، سروسز کا حصول 10لاکھ روپے اور گاڑیوں کی مرمت ، POL، TAاور عارضی ملازمین کی بھرتی کامکمل اختیار حاصل ہے۔

اِن اختیارات کے غلط استعمال کی بناپر گذشتہ کئی سالوں سے ڈی جی خان میڈیکل کالج بشمول ٹیچنگ ہسپتال اور نرسنگ سکول کرپشن زدہ ہو چکے ہیں اور اِن کے سربراہان کے خلاف مقدمات اِس وقت زیر انکوئری ہیں۔ اِس تمام صورت حال سے اگر وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار اپنا دامن صاف رکھنا چاہتے ہیں تو کسی اچھے منتظم اعلی ٰ کو پرنسپل ڈی جی خان پوسٹ کریں ورنہ کرپشن اور بد انتظامی کا ردعمل وزیر اعلی سیکٹریریٹ لاہور تک پہنچتا رہے گا اور مخالفین کے نشتر انہیں گھائل کرتے رہیں گے۔


موجودہ ایم ایس ڈاکٹر شاہد حسین مگسی اور پرنسپل ڈاکٹر محمد آصف قریشی سرعام برملا دعوی دار ہیں کہ انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب اور مشیر صحت پنجاب حنیف خان پتافی کی حمایت حاصل ہے یہ انٹرویو تو بس ایک کاغذی کاروائی ہے۔ اگر واقعی ہی انٹرویو اور سلیکشن کمیٹی کے فیصلہ سے قبل ہی اِن اضافی چارج کے افسران کو ناقص کارکردگی کے باوجود یہاں تعینات رکھنا مقصود ہے تو پھر سرکاری شائع شدہ اشتہار میں ڈی جی خان کی آسامیوں کا نام درج کر کے نجانے کیوں عوام کو ریلیف کی اُمید دے کر گمراہ کیا جار ہاہے۔

اگر پی ٹی آئی کی حکومت میں میرٹ اور اہلیت کو پس پردہ ڈال کر سیاسی سفارشوں پر اداروں کے سربراہوں کی پوسٹنگ کر نا ہی اِس حکومت کی پالیسی بن چکی ہے تو پھر عوام کو مذید بے وقوف نہ بنائیں کیونکہ یہ عوام تو گذشتہ ایک سال سے تبدیلی کے خواب کے ٹوٹنے پر پہلے ہی بہت غم زدہ ہے۔ مذید اِس عوام کو خوابوں کے عذاب سے دوچا رنہ کریں۔ حسب وعدہ میرٹ ، اہلیت کے نعرے میں سیاسی سفارش کی گونج کو ختم کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :