وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف بیورو کریسی کی کارستانی

ہفتہ 26 ستمبر 2020

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

سیاسی حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی کے پس پردہ بیورو کریسی کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے ۔ افسر شاہی کے آسیب نے ہر حکومت کو ڈسا ہے۔ بیورو کریٹ سرکاری تنخواہ پر پلنے والے وہ سرکاری ملازم ہیں جو حصول ملازمت سے قبل اخراجات زندگی کو پورا کرنے کے لیے ماہانہ تنخواہ کے محتاج ہوتے ہیں مگر جونہی یہ لوگ سرکاری عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں سرکاری مراعات اور اختیارات کا نشہ انہیں بد مست کر دیتا ہے اور افسر شاہی کے خمار کی بناپر پھر یہ بیورو کریٹ عوام کو حقیر اور سرکاری فنڈز میں خرد برد کرنا اپنا پیدائشی استحقاق سمجھتے ہیں۔

کسی بھی سیاسی جماعت کے سیاست دان جب پہلی مرتبہ اقتدار میں آتے ہیں تو یہ بیوروکریٹ انہیں ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے ایک مکار جاگیر دار اپنے کسی غریب مزارعے کو استعمال کرتا رہتا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان تحریک انصاف پہلی بار کرسی اقتدار تک پہنچی ہے۔ اِس حکومت میں سیاسی پارٹی بدلنے والے عادی سیاستدانوں کے علاوہ باقی ماندہ منتخب نمائندے پہلی مرتبہ اسمبلیوں تک پہنچے ہیں۔

گذشتہ دوسالوں کی حکومتی کارکردگی میں جتنی بھی خامیاں منظر عام پر آرہی ہیں اُن ناکامیوں کی کھوج لگائی جائے تو سر ا افسر شاہی تک پہنچتا ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 120کے تحت صوبائی حکومتیں ہر مالی سال کے اختتامی ماہ جون میں آئندہ سال کے لیے اپنا مالیاتی بجٹ پیش کرتی ہیں۔ بجٹ دستاویزات کی تیاری میں بہت سے سرکاری محکمہ جات اور منتخب نمائندگان کی بجٹ تجاویز شامل ہوتی ہیں۔

مگر حتمی اور براہ راست تیاری کی ذمہ داری محکمہ فنانس کی ہی ہوتی ہے۔ مالی بجٹ کی تیاری ہر سال ماہ نومبر سے شروع ہو جاتی ہے اور یہ مختلف مراحل سے گز ر کر ماہ جون میں اسمبلی سے منظوری کی صورت میں مالیاتی بجٹ بن جاتی ہے۔پہلے وزیر خزانہ بجٹ تقریر پیش کرتا ہے اور پھر منتخب نمائندگان بجٹ منظورکرتے ہیں ۔ با عث حیرت پہلو یہ بھی ہے کہ بیشتر ارکان اسمبلی کو بجٹ میں پیش کردہ اعد اد وشمار اور مالی امور کی الف ب بھی سمجھ نہیں آتی مگر پھر وہ اپنے قائد ایوان کی آواز پر لیبک کہتے ہیں اور بجٹ کو پاس کر نے کا ووٹ دیتے ہیں۔

۔منتخب نمائندگان کی بجٹ تجاویز میںکن مفادات کا سیاسی کھیل کھیلا جاتا ہے اِ س پر بھی پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔
ہر صاحب اقتدار جماعت بجٹ دستاویزات میں گذشتہ مالیاتی بجٹ اور موجودہ بجٹ کا تقابلی موزانہ لازمی بیان کرتی ہے۔ بالخصوص اپنی گذشتہ مالی سال کی کامیابیوں کا ذکر قابل فخر انداز میں پیش کرتی ہے۔امسال بھی حکومت پنجاب کے وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے 15جون 2020کو پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش کیا جسے بعد ازاں بجٹ اجلاس میں ہی منظور کر لیا گیا۔

ہر حکومت اپنے بجٹ کو عوام دوست جبکہ اپوزیشن حکومتی بجٹ کو الفا ظ کا گورھ دھندہ قرار دیتی ہے۔ یہ پتلی تماشہ گذشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں جاری ہے۔شاید عوام کے بیدار ہونے تک جاری بھی رہے گا۔
حکومت پنجاب کے سیکٹریری فنانس عبدا للہ خان سنبل ایک سینئر بیورو کریٹ ہیں اور اُن کی ٹیم نے بجٹ دستاویزات کو تیار کیا ہے۔

ہر صاحبِ حکومت جماعت عوام کی توجہ اور داد حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈہ مہم کا سہارا لازمی لیتی ہے مگر قابل افسوس تو یہ پہلو ہے بجٹ جوکہ ایک انتہائی اہم اورحساس دستاویزات کا مجموعہ ہوتا ہے اُس میں بھی اگر جھوٹ بالخصو ص ترقیاتی کاموں سے وابستہ جھوٹ بولا جائے تو پھر مالیاتی بجٹ کی سرکاری ساکھ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدارکو بھی یقینی طورپر خبر نہیں ہوگی کہ بجٹ ٹیم نے فقط انہیں ڈیرہ غازی خان کے حوالے سے جن ترقیاتی منصوبہ جات کی کامیابی کی نوید سُنائی ہے اُن میں سے چند منصوبہ جات کی کامیابی جھوٹ پر مبنی ہے۔

بجٹ میں بہت سے ایسے منصوبہ جات بیان ہیں جو کئی سال قبل مکمل ہو چکے ہیں مگر بجٹ ٹیم نے انہیں گذشتہ مالی-20 2019کی کامیابیوں میں شمار کر دیا ہے۔
ایک بہت بڑی غلطی کچھ یوں ہے کہ اے ڈی پی بجٹ 2020-21میں فوڈ سیکٹر صفحہ نمبر 45پر گندم کے کنکریٹ سائیلوز (Silos) بمقام مانہ احمدانی ڈیرہ غازی خان کے منصوبہ کی تکمیل کا ذکر گذشتہ بجٹ 2019-20 میں قابل فخر انداز میں بیان کیا گیا ہے جو کہ سراسر غلط بیانی ہے کیو نکہ یہ منصوبہ چار سال قبل مکمل ہو چکا تھا ۔

بے شک کنکریٹ سائیلوز کا یہ میگا منصوبہ اگر کرپشن کی بھینٹ نہ چڑھتا تو واقعی ہی ضلع ڈیرہ غازیخان میں محکمہ فوڈ کا ایک شاندار اور میگا منصوبہ ہوتا۔
عبدا للہ خان سنبل کی بجٹ ٹیم کی اصلاح کے لیے عرض ہے کہ یہ منصوبہ پی ٹی آئی کے تینوں بجٹ 2018-19، 2019-20اور 2020-21کے اے ڈی پی میں نہ ہی جاری سکیم اور نہ ہی نئی سکیم میں کہیں شامل ہے ۔ یہ میگا منصوبہ سابقہ نون لیگی حکومت کے مالی سال 2012-13 کا تھا اور پی ٹی آئی کی حکومت سے قبل ہی نون لیگی حکومت کے افسران بالا و مقامی نے اِس منصوبہ کواپنی اپنی کرپشن کی بناپر تباہ و برباد کر دیا ہے۔

محکمہ بلڈ نگ ڈیرہ غازی خان کی رپورٹ کے مطابق حکومت پنجاب نے محکمہ فوڈ پنجاب ڈیرہ غازی خان کی30ہزار میٹرک ٹن گندم کومحفوظ بنانے کے لیے 2012میں مانہ احمدانی میں تقریباً 33کینال زمین رقبہ پر 8عدد کنکریٹ سائیلوز بنانے کے منصوبہ کابنایا ۔ 29مئی 2012کو PDWPمیںاِس کی منظوری دی گئی۔ اِس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ لاگت 278.938ملین روپے تھا۔اِس منصوبے کا آغاز مورخہ 22نومبر 2012اوراختتام ایک سال کی مدت میں مورخہ 21نومبر 2013تک ہونا تھا۔

مگر صد افسوس اِس منصوبے کو مال ِمفت دل ِبے رحم سمجھ کرکرپشن کی جہنم میں پھینک دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ سات سال بیت جانے کے باجودآج تک یہ منصوبہ فعال ہی نہیں ہو سکا۔ 13جون 2016سے محکمہ بلڈنگ اِس منصوبے کی تکمیل کا دعوی کر رہا ہے مگر محکمہ فوڈ پنجاب نے ناقص تعمیر اور دیگر خامیوں کی بناپر اِس منصوبہ کو اپنی تحویل میںلینے سے انکار کر دیا ۔

جبکہ دوسری جانب اِس منصوبے پر سرکاری خزانے سے 2012-13 تا2015-16تک PC-IVکے مطابق 329.060ملین روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ اِس میگامنصوبہ کی کرپشن کہانی میں محکمہ بلڈنگ اور دیگر متعلقہ محکمہ جات کے اعلی افسران براہ راست ملوث ہیں۔ بظاہر اِس میگا پروجیکٹ کے لیے MS/NESPAKکو بطور Supervisory Consultant لیا گیا مگراِس منصوبے کی کرپشن کاآغازاُس وقت ہوا جب اِس کا ورک آڈر ایک ایسے سرکاری ٹھیکہ دار کو دیا گیا جو کہ عام تعمیراتی مستری مزدور کے تجربہ کا حامل تھا۔

حالانکہ یہ منصوبہ ٹیکنیکل الیکٹرو میکینکل نوعیت کا تھا۔
UETلاہور کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد نے 2016میں اِ س منصوبہ کی140صفحات پر مشتمل ایک انسپکشن رپورٹ تحریر کی ہے جس میں تمام ناقص تعمیر و غیر معیاری الیکٹرو میکینکل آلات کا تفصیلی احوال موجود ہے۔ اگر یہ منصوبہ کرپشن کی نذر نہ ہوتا تو گذشتہ چھ سالوں سے ہر سال 30ہزار میٹرک ٹن گندم جدید طریقے سے محفوظ ہو رہی ہوتی اور قومی خزانے سے خرچ شدہ 329ملین روپے کا ضیاع بھی نہ ہوتا۔


بجٹ ٹیم نے اِس منصوبہ کی تکمیل سردار عثمان خان بزدار کے کھاتہ میں ڈال کر اُن کی نیک نامی نہیں کی بلکہ اُن پر نیب کا ایک اور کیس بنوانے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ یقینی طور پر سردار عثمان خان بزدار اِس تمام صورت حال سے بے خبر ہیں۔ ورنہ کرپشن زدہ میگا منصوبے کا کریڈٹ حکومت پنجاب کبھی بھی نہ لیتی۔ سردار عثمان خان بزدار کو بجٹ ٹیم کی سرزنش کر نی چاہیے اور اپنے ضلع ڈیرہ غازیخان کے اِس کرپشن زدہ منصوبے کی تحقیقات کے لیے قومی احتساب بیورو کو باقاعدہ لیٹر جاری کرنا چاہیے تاکہ سرکاری رقم کے اِس ضیاع کے قصورواران کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے ورنہ نیب کا ایک اور کیس اُن کے کھاتہ میںڈال دیا جائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :