پنجاب پولیس کا ناکام احتسابی نظام اور کورٹ مارشل کی صدا

منگل 17 نومبر 2020

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

پنجاب نصف پاکستان ہے۔ پنجاب کا امن و امان براہ راست پاکستان سے وابستہ ہے ۔ شہریوں کو اُن کی جان،مال اور عزت کا تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ ریاست یہ ذمہ داری اپنے نظام پولیسنگ سے پوری کر تی ہے۔عوام کو خدمات فراہم کرنے والوں اداروں میں پولیس ایک اہم ترین ادارہ ہے۔ مگر بد قسمتی کی بناپر محکمہ پولیس قیام پاکستان سے تاحال اصلاحات کے عمل سے دوچار ہے اور گذشتہ 73سالوں میں ریاست اپنے اِس کلیدی ادارے کو آج تک اپنے پاکستا نی معروضی حالات سے اہم آہنگ نہیں کرسکی۔

یہی وجہ ہے کہ عوام سب سے زیادہ تنقید اور شکایات محکمہ پولیس کی بیان کرتی ہے۔
انگریز سرکار قابل تعریف ہے کہ وہ پسماندہ ملک ہندوستان میں پولیس کی معرفت اپنا راج قائم کرنے میں بآسانی کامیاب ہوئی ۔

(جاری ہے)

اُس نے یہاں کے مقامی افراد کو زیر کنٹرول رکھنے اور سماجی امور کی انجام دہی کے لیے دوسو سال قبل پولیس کا جو نظام متعارف کرایا اُس نظام نے ہندوستانیوں کو انگریز سرکار کے سامنے ”بندے کا پُتر“ بنا کر رکھا۔

انگریزوں کا دو سو سال قبل بنایا گیا نظام پولیس اور قوانین پولیس آج بھی   پاکستا نی نظام پولیس کی اساس ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک پولیس اصلاحات کے لیے متعدد کمیشن اورکمیٹیاں بنی ہیں مثلاً منتخب کمیٹی 1832، پولیس کمیشن 1860 اور 1902،لمسڈن کمیٹی 1926،پولیس کمیشن 1961،پاکستان پولیس کمیشن 1969،پویس اسٹیشن انکوئری کمیٹی 1976،پولیس ریفارم کمیٹی 1976، پولیس کمیٹی 1976،پولیس اصلاحات عمل درآمد کمیٹی 1990،پنجاب گورنمنٹ کمیٹی 2001اور فوکل گروپ آن پولیس ریفارم 2000 وغیرہ وغیرہ مگر کوئی بھی کمیشن یا کمیٹی نیا نظام پولیس متعارف نہیں کر اسکی۔

اِن تمام کمیٹیوں کی کارکردگی انگریز سرکار کے بنائے گئے نظام پولیس و قوانین میں ترامیم کی حد تک محدود رہی جبکہ پاکستانی آج تک کوئی نیا جامع پولیس نظام خود متعارف نہیں کر اسکے۔ یہی سب سے بڑی نا اہلیت آج تک نظام پولیس کی تباہی اور ناکامی کا باعث ہے۔
مغلیہ دور حکومت میں پولیسنگ کا نظام دیہاتوں میں مقامی بڑے زمینداروں اور گاﺅں کے ہیڈ مینوں پر قائم تھا جبکہ شہروں میں کوتوال پولیسنگ نظام کا انچارج ہوتا تھا۔

یہ لوگ جرائم پیشہ افراد کو پکڑنے، قانون نافذ کرنے اور محصولات جمع کرنے جیسے اہم فرائض اد ا کرتے تھے۔ جبکہ گاﺅں کے چوکیدار پٹرولنگ پولیس کا کام کرتے تھے۔ انگر یز سرکار آئی تو اُس نے ہندوستان میں زمینداروں کی بجائے مجسٹریٹ سسٹم متعارف کرایا۔ 1808میں بنگال کے کلکتہ، ڈھاکہ ، مرشدآباد ڈویژن کے لیے پہلی بار سپریٹنڈنٹ کو متعارف کرایا گیا۔

پھر دو سال بعد اِسی نظام پولیس کو پٹنہ، بریلی اوربنارس میں قائم کیا گیا۔ 1816میںمدارس میں تحصیلداروں کومحصولات اور نظام پولیسنگ کے فرائض سونپے گئے۔ 1827میں ممبئی میں اِسی طرح کا نظام متعارف کرایا گیا۔بعد ازاں ڈویژنل کمشنر کی تقریری کے ساتھ ہی سپریٹنڈنٹ کادفتر ختم کر دیا گیا۔   انگر یز سرکار کے سر چارلس نیپئرنے آئرش کانسٹیبلری سے متاثر ہوکر سندھ میں ایک الگ پولیس تنظیم تیار کی۔

اور پھر اِسی سندھ ماڈل کو 1853اور 1859میں بمبئی اور مدراس میں نافذ کیا گیا۔ 1860میں پنجاب میں پولیس کو سندھ پولیس ماڈل پر منظم کیا گیا۔ اِس کے ساتھ مرکزی حکومت ہند نے پنجاب میں مروجہ نظام پولیس میں اصلاحات کے لیے پولیس کمیشن 1860قائم کیا۔ جس نے پولیس کے فوجی دستے کا خاتمہ کیا۔صوبائی انسپکٹر جنرل آف پولیس اور ضلعی سطح پر ضلعی سپریٹنڈنٹ کی تعیناتی کی سفارش کی۔

جبکہ پولیس فرائض کے لیے ضلعی مجسٹریٹ پولیس کی تعیناتی کی سفارش بھی کی۔ حکومت ہند نے Act V 1861بل کو پاس کیا جو بمبئی کے سوا تمام صوبوں میں پولیس ایکٹ 1861کے نام سے نافذ کر دیا گیا۔ یہی ایکٹ پاکستانی نظام پولیس کی آج بھی اہم اساس ہے۔
کیپٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) لاہور محمد عمر شخ جو کہ سینئر ترین پولیس آفیسر ہیں اور آج کل میڈیا میں بریکنگ نیوز میں چھپائے ہوئے ہیں۔

اُن پر اپوزیشن والے شدید تنقید کر رہے ہیں جبکہ بزدار حکومت اور وزیر اعظم عمران خان اُن پر بھر پور اعتماد کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اُن کی بطور سی سی پی او تعیناتی مستقبل میں کیا رنگ لاتی ہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔تاہم اُن کے چند اقدامات جو ماہ اکتوبر 2020میں منظر عام پر ظاہر ہوئے ہیں وہ نہایت قابل تحسین ہیں۔ محمد عمر شیخ نے انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کو ایک سرکاری مراسلہ لکھا ہے جس میں اُنہوں نے مروجہ پولیس سسٹم میں باوردی پولیس افسران اور ملازمین کے خلاف انضباطی کاروائی کے موجودہ احتسابی قانون E&D Rules-1975 اور دیگر سٹاف کے لیے سروس سرونٹ رولز 1999کو غیر موثر قرار دیا ہے۔

سرکاری مراسلے میں گذشتہ پانچ سالوں میں انضباطی کاروائی کی بناپر سزا پانے والے سرکاری ملازمین کی کل تعداد 355004 بیان ہے۔ 2015میں محکمانہ انکوئری کے بعد 57318ملازمین کو سزا ملی۔ 2016میں 61422ملازمین،2017میں 92521ملازمین، 2018میں 82170ملازمین،اور 2019میں61573 61422ملازمین کو محکمانہ انکوئری کے بعد سزائیں دی گئیں۔ باالفا ظ دیگر ہر سال 25تا 30فیصد ملازمین کو قابل احتساب بنایا جا رہا ہے مگر اِن کی تعداد میں کمی نہیں ہو رہی۔

جوکہ ڈسپلن فورس کی کارکردگی کے ضمن میں باعث تشویش ناک صورت حال ہے۔ پولیس عوام دوست ایک ڈسپلن فورس ہے مگر حقیقت تو یہ ہے پاکستانی عوام پولیس کو دیکھ کر احساس ِتحفظ محسوس کرنے کی بجائے خوف زدہ ہوجاتی ہے۔ اُس کی بنیادی وجہ فقط یہی 25تا 30فیصد کرپٹ کالی بھیڑیں ہیںجو مسلسل محکمانہ قوانین و ضوابط کو پامال کرتے ہیں اور عوام کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔


پنجاب پولیس کی سرکاری رپورٹس کے مطابق ڈی ایس پی افسران ،انسپکٹرز، سب انسپکٹرز، اسسٹنٹ سب انسپکٹرز ، ہیڈ کانسٹیبل اور کانسٹیبلان میں کرپشن ، غفلت ، نااہلیت، اختیارات کا ناجائز استعمال، ناقص تفتیشی، اندارج مقدمہ میں تاخیر، چالان کی تیاری میں تاخیر اور چھوٹے ملازمین میں ڈیوٹی سے غیر حاضری کرنے کا جرم کثرت سے پایا جاتا ہے۔ زیادہ ترانہی سرکاری فرائض میں جرم کی محکمانہ انکوئریاں ہوتی ہیں۔

مگر غیر موثر سروس قوانین کی بناپر اکثرو بیشتر ملازمین اِن جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود بچ جاتے ہیں۔ کیونکہ دیگر ڈسپلن فورسز کے برعکس پولیس کا نظام احتساب کمزور ہے اور ملازمین سزاﺅں سے بے خوف ہیں۔اِسی بناپر نظام پولیس گذشتہ 73سالوں سے عوام دوست بننے میں بُری طرح ناکام رہا ہے ۔
سی سی پی او محمد عمر شیخ نے اِنہی حالات کا طاہرانہ جائزہ لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب سے پولیس ملازمین کے کورٹ مارشل کی تجویز پیش ہے جوکہ بہت ہی عمدہ اور قابل عمل تجویز ہے۔

اگر صوبائی حکومت اِس پر قانون سازی کرتی ہے تو یقینی طور پر نظام پولیس بدل جائے گا ۔ روز اول سے یہ حقیقت منکشف ہے کہ انسان قانون شکنی کا عادی ہے اور اُس کو قانون پسندبنانے کے لیے اُس کے جرم کی پاداش میں اُسے سخت سزا ئیں دینا بہت لازمی ہے۔کورٹ مارشل کی اِس تجویز پر تنقید برائے تنقید کے عادی لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس کو پہلے افواج پاکستان جیسی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔

بے شک پولیس کو بھی بہترین ہمہ قسمی سرکاری سہولیات کی فراہمی بہت ضروری ہے۔ مگرقلت سہولیات کی بنیاد پر کرپشن کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی۔
سی سی پی او کے سرکاری مراسلہ میں پویس کے اکاﺅنٹس شعبہ میں واضح انداز میں کرپشن کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پنجاب پولیس کی کل منظور شدہ آسامیاں 200666ہیں۔ جن کی بنیادی تنخواہ کے لیے امسال کے بجٹ 2020-21میں 45894252000روپے مختص شدہ ہے۔

جبکہ دیگر الاﺅنسز الگ ہیں۔امسال پنجاب پولیس کا کل بجٹ 119177ملین روپے ہے۔ جس میں سیلری بجٹ 100543ملین روپے اور نان سیلری بجٹ 18634ملین روپے ہے۔ زیادہ تر کرپشن جن الاﺅنسز میں کی جاتی ہے۔ اُن میں سرفہرست گاڑیوں کی مرمت کا ہیڈ امسال بجٹ 14323000 روپے، سپیشل اسمائمنٹ الاﺅنس ہیڈامسال بجٹ 35526000روپے، پولیس لا اینڈ آڈر الاﺅنس امسال بجٹ 7673306000روپے، ہاٹ اینڈ کولڈ ویدر چارجز امسال بجٹ4993500روپے، ٹی اے الاﺅنس امسال بجٹ 436851000روپے، پو او ایل چارجز امسال بجٹ5279033000روپے، سیٹشنری امسال بجٹ 263035000روپے، پرنٹنگ اینڈ پبلیکیشن امسال بجٹ 124156000روپے، خفیہ خدمت خرچہ امسال بجٹ 418298000روپے، انوسٹی گیشن کاسٹ امسال بجٹ 259254000روپے، کیش انعام امسال بجٹ 270515000، کیشن انعام برائے مخبر امسال بجٹ 20500000روپے، اینٹریمنٹ اینڈ گفٹ امسال بجٹ 5830000روپے وغیرہ ہیں۔


کمزور ا حتسابی نظام کی بناپر کرپٹ پولیس ملازمین میں ہوس زر بہت زیاد ہ ہیں کیونکہ یہ خود نظام پولیسنگ سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ اِس لیے انہیں پکڑنے جانے کا خوف دیگر سرکاری ملازمین کی نسبت بہت کم ہوتا ہے۔ سرکاری بجٹ میں لوٹ مار کے ہمراہ پولیس افسران عوام الناس سے بھی براہ راست لوٹ مار کرتے ہیں۔ تھانہ جات میں پوسٹنگ کے لیے رشوت دی جاتی ہے پھر منتھلی رشوت بھی دی جاتی ہے جس کا بوجھ بالآخر عوام الناس کو برادشت کرنا پڑتا ہے۔

آجکل تھانہ جات میں ریکوری اصطلاح متعارف ہے۔ اِس ریکوری کی آڑ میں بھاری کرپشن کی جاتی ہے۔ جس میں متعلقہ ایس ایچ او صاحبان کے علاوہ افسران بالا بھی حصہ دار ہوتے ہیں۔ ریکوری کے نام پر ہر روز تھانوں میں بے گناہ غریبوں کو ذلیل کیاجاتا ہے اور تشدد کی صورت میں افسران کی باہمی رضا مندی سے قانون کے گھرو ں میں انصاف کا قتل عام کیا جاتا ہے۔


کئی سالوں سے لاہور میں تعینات پولیس ملازمین نے ایک مافیا کا روپ اختیار کر رکھا ہے ۔ اِسی مافیا نے محمد عمر شیخ کی پوسٹنگ پر میڈیا وار شروع کرائی تھی۔ یہ مافیا ہر قسمی جرائم کی پشت پناہی کرتا ہے۔ جرائم کی دُنیا کے رکھوالے یہ تنخواہ دار سرکاری ملازمین کروڑ پتی نہیں بلکہ ارب پتی بن چکے ہیں۔ مگر عدم ثبوتوں کی بناپر یہ بآسانی ہر بار بچ جاتے ہیں۔

اِس مافیا کے خلاف بارش کے پہلے قطرے کے طورپر سی سی پی او محمد عمر شیخ نے کورٹ مارشل کی تجویز کے سنگ، ایک اور تحریری مراسلہ بنام جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو پنجاب کو تحریر کیاہے۔ اِس مراسلہ کے ہمراہ لاہور پولیس سرکل کے ڈویژن سٹی، سول لائن، کینٹ، ماڈل ٹاﺅن، اقبال ٹاﺅن، صدر، AVLS، سی آئی اے سٹاف تھانہ جات کے ایس ایچ اوز اور انوسٹی گیشن ونگ کے ڈی ایس پی اور انسپکٹرز و سب انسپکٹرزکے ناموں کی فہرست بمعہ لاہور میں تاریخ پوسٹنگ بھی تحریر کی ہے۔

جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو پنجاب سے استدعاکی گئی ہے کہ وہ اِن تمام پولیس ملازمین کی جائیدادیں، اثاثہ جات، تنخواہ کے علاوہ دیگر ذریعہ آمدن اور عوام الناس میں اِن افسران کی شہرت عامہ کی خفیہ طورپر پٹرتال کرئے تاکہ کرپٹ ملازمین کو اب قابل احتساب بنایا جاسکے۔
سرکاری قوانین کے مطابق ہر سرکاری ملازم سالانہ طور پر اپنے اثاثہ جات کا گواشورہ ( فارم ) محکمہ کو پیش کرنے کا پابند ہے۔

اگر اِن گواشورہ جات کی چھان بین میںمتعلقہ انٹیلی جنس ایجنسیاں حسب مراسلہ شامل ہو جائیں تو لازمی طورپر اِس سے بہت فوائد حاصل ہوں گے اور وہ کرپٹ ملازم جنہوں نے عوام کو لوٹ کر اپنی آمدن سے زیادہ اثاثہ جات بنا رکھے ہیں وہ سب بآسانی قابل احتساب بنائے جاسکتے ہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ ملازمین کی آمدن اور اثاثہ جات کی چھان بین کا دائرہ کار فقط لاہور تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اِس کا دائرہ کار ضلعی سطح تک بڑھایا جائے۔ بلکہ ستمبر 2018میں پنجاب اسمبلی میں کرپشن پر سزائے موت دینے کی سزا کی آواز بلندہوئی تھی اُس آوازکو اب باقاعدہ قانونی بل کی شکل دینے کا وقت آگیا ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :