لیاری کا مسیحا

بدھ 18 ستمبر 2019

Syed Musab Ghaznavi

سید مصعب غزنوی

جب وہ الیکشن جیتا میں نے اسے احساس ذمہ داری سے روتے ہوئے دیکھا تھا۔ دوسروں کی طرح کوئی جشن نہیں منایا گیا، کوئی ڈھول کی تھاپ نہیں کوئی ہلڑ بازی نہیں بس وہ شخص احساس ذمہ داری سے روتا ہوا پایا گیا۔ پھر میں نے اسے سنا جب سپیکر اسمبلی نے کہا ''''سید عبدالرشید'''' اپنی پہلی تقریر کریں گے، اس کی شخصیت متاثر کن تھی۔ جب تقریبا نئے آنے والے تمام ممبر صوبائی اسمبلی فوٹو سیشن اور سیلفیوں میں مصروف تھے اور اسمبلی کی شان و شوکت سے مرعوب ہورہے تھے۔

وہ نہایت با اعتماد انداز سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتا ہے، اس کے چہرے پر گھبراہٹ یا پریشانی ہرگز عیاں نہیں ہورہی تھی۔ اس کی گفتگو بڑی دلچسپ تھی، پہلی ہی تقریر میں اس نے بڑے اطمینان کے ساتھ اپنا پیغام، اپنا ویژن، اپنے علاقے کے مسائل، شہر کراچی کے مسائل تمام اسمبلی تک پہنچائے اور پھر اختتام پر ایک مظبوط مسلمان ہونے کا ثبوت بھی دیا۔

(جاری ہے)

اس کی شخصیت کا یہ تعارف بہت متاثر کن تھا۔
سید عبدالرشید نے ایک ہفتہ قبل ایک احتجاجی کیمپ ''''لیاری کے حقوق'''' کے عنوان سے لگایا اور اس بات کا اعلان کیا کہ جب تک لیاری کو حقوق نہیں دیئے جاتے یہ احتجاج جاری رہے گا۔ اور اگر ہماری آواز نہ سنی گئی تو میں اکیلا وزیراعلی ہاؤس جاکر دھرنا دوں گا اور لیارے کے حقوق لے کر رہوں گا۔ اہلیان لیاری نے اس احتجاجی کیمپ کی بھر پور حمایت کی اور اس میں اپنی شرکت روزانہ کی بنیاد پر یقینی بنائی۔

میں اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے تھا اور میرے لیئے یہ بات ہرگز بھی حیران کن نہیں تھی۔ کیونکہ یہ وہی عبدالرشید تھا جس نے اپنی تنخواہ اور اسمبلی سے ملنے والے الاؤنس کی پائی پائی لیارے کیلئے خرچ کر دی، لیاری کو جب بھی کوئی مسئلہ پیش آیا عبدالرشید سب سے پہلے وہاں پایا گیا۔ ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی ہو یا پینے کے صاف پانی کی عبدالرشید نے اسے فورا حل کروایا۔

لیاری کے اندر سیوریج کا نظام انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے انتہائی خراب ہے، مگر عبدالرشید اپنے رضاکاروں کے ساتھ وہاں پر خود کام کرتے پایا گیا۔ لیاری میں بارش کی وجہ سے سڑکیں تالاب بن گئیں تو پانی نکالنے کیلئے عبدالرشید اور اس کی ٹیم سارا سارا دن مصروف عمل دیکھی۔ بارش کی وجہ سے حالات اس قدر بگڑے کہ گھروں میں کھانا پکانے میں دشواری ہورہی تھی۔

تو اس خدا کے بندے نے پکا پکایا کھانا منگوا کر اہلیان لیاری کے گھروں میں تقسیم کیا۔ گو کہ اہلیان لیاری کو جہاں ایک ساتھی یا دوست کی ضرورت پڑی وہاں انہوں نے سید عبدالرشید کو اپنے درمیان پایا۔
سید عبدالرشید کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔ اور جماعت اسلامی کا سندھ اسمبلی میں واحد ممبر سید عبدالرشید ہی ہے۔ مگر میں نے اسے کبھی کبھار پوری اسمبلی پر بھاری اور حاوی دیکھا ہے، بات حق کی ہو تو اپوزیشن میں ہونے کے باوجود اپوزیشن کے بھی خلاف کھڑا ہوجاتا ہے۔

اور بات حق کی ہو تو اپوزیشن میں ہونے کے باوجود حکومت کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے، گو کہ اسے کوئی ذاتی یا جماعتی مفاد کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اسے اس کی بے باکی پر کئی مرتبہ دھمکیاں بھی دی گئیں مگر وہ خدا کا بندہ کبھی کسی بھی لمحے خوفزدہ نہیں ہوا بلکہ میں نے اسے اور پرجوش کام کرتے ہی دیکھا۔سید عبدالرشیدنے اپنی تمام تنخواہ اور الاؤنسز اپنے علاقے کیلئے وقف کیئے ہوئے ہیں،انتہائی درویش صفت کہ موٹرسائیکل پر اسمبلی آتا جاتا ہے۔


سید عبدالرشید نے دن رات محنت کرکے لیاری کو اس کی پرانی رونقیں لوٹانے کی بھرپور کوشش کی، اور بہت حد تک اس میں کامیاب بھی ہوا۔ لیاری جو کہ مسائلستان بن چکا تھا اب وہ دھیرے دھیرے ان تمام مسائلوں سے نکل رہا ہے، اور سید عبدالرشید اپنی تمام کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
 میں نے لیاری کے کچھ نوجوانوں سے اور لوگوں سے رابطہ کیا اور ان سے وہاں کے حالات و واقعات کے بارے دریافت کیا تو ان کی گفتگو سے میں نے انہیں بہت حد تک مطمئن پایا۔

میں نے لیاری کے بچوں، نوجوانوں، بڑوں اور بزرگوں کی آنکھوں میں وہ چمک اور امید دیکھی ہے جو اس سے پہلے بجھ چکی تھی۔ اور میں نے ان کے دلوں میں عبدالرشید کیلئے عزت ، محبت اور خلوص کو دیکھا ہے۔
 مجھے امید ہے کہ عبدالرشید ''''لیاری کے حقوق'''' کی جو جنگ لڑرہا ہے، وہ اس میں کامیاب ہوگا اور لیاری ایک مرتبہ پھر سے ہنستا، مسکراتا اور شاداب لیاری بن جائے گا جو کراچی کی جان ہے، اور کراچی کا پہیہ ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ لیاری کی تمام رونقیں بہت جلد دوبارہ بحال ہوں گی۔ ان شاء ا للہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :