بھارت میں کورونا کی آڑ میں مسلمانوں پر تشدد

بدھ 29 اپریل 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جو کرونا وائرس سے متاثر نہ ہوا ہو۔یہ وائرس دنیا کے تمام براعظموں میں تباہی کی داستانیں رقم کرتا ہوا بر صغیر کی طرف بھی آ چکا ہے۔ان متاثرین ممالک میں ہندوستان سرفہرست ہے۔ہندوستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چند بڑے ممالک میں شامل ہے۔لیکن اس لحاظ سے ایک منفرد ملک ہے کہ یہاں پر خط غربت سے نیچے رہنے والے افراد کی تعداد خطے کے تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

اگرچہ انسانی حقوق کے حوالے سے ہندوستان کا ریکارڈ زیادہ اچھا نہیں ہے خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم نے ہندوستان کے چہرے سے سیکولرزم کا نقاب اب اتار پھینکا ہے۔تاہم پھر بھی ہندوستان کی حکومت اس بات پر مصر ہے کہ وہ ایک سیکولر ملک ہے۔

(جاری ہے)

جس موضوع پر آج میں نے قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے وہ دلچسپ بھی ہے اور افسوس ناک بھی۔دلچسپ اس حوالے سے کہ کرونا وائرس کو جس انداز میں ہندوستانی حکومت اور عوام سامنا کر رہے ہیں یہ انداز دنیا کے کسی ملک میں نہیں دیکھا گیا۔

افسوسناک اس حوالے سے ہے کہ اس وبا کو مذہبی رنگ جس طرح ہندوستان میں دیا گیا ہے دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں دیا گیا۔کرونا وائرس سے سب سے پہلی ہلاکت ہندوستان کے صوبے کرناٹک میں ہوئی جہاں پر ایک چھہتر سالہ شخص کرو نا کے باعث موت کا شکار ہوا جبکہ دوسری ہلاکت دہلی میں ہوئی جس میں ایک ساٹھ سالہ خاتون کرونا کی وجہ سے موت کا شکار ہوئیں۔ ہندوستانی حکومت نے کرونا وائرس کے باعث ہریانہ اور پنجاب کی تمام یونیورسٹیوں اور تمام تعلیمی اداروں کو تا حکم ثانی بند کرنے کا حکم دیا۔

اسی طرح چندی گڑھ میں بھی ابھی کرو نا سے بچاؤ کے لئے بڑے پیمانے پر حفاظتی انتظامات کی خبریں  ہندوستانی میڈیا پر پڑھنے کو ملیں۔ہندوستان میں بھی ایرانی زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری رہا،وہاں پر بھی زائرین کو 14 دن تک قرنطینہ میں رکھنے کے انتظامات ہوئے۔اس وبا سے نمٹنے کے لیے ہندوستان کی مسلم کمیونٹی نے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیا۔دہلی جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری نے نمازیوں سے اپیل کی کہ وہ جمعہ کے اجتماعات میں شرکت نہ کریں بلکہ اپنے اپنے محلہ کی مساجد یا گھروں میں نماز جمعہ یا ظہر کی نماز ادا کریں۔

انہوں نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنی تمام مذہبی تقریبات کو مختصر کریں شادی کی تقریبات کو سادگی سے نکاح کی تقریب تک محدود کریں۔مجلس علمائے ہند کے جنرل سیکرٹری کریں اور امام جمعہ لکھنؤ مولانا کلب جواد نقوی کے مطابق لکھنؤ میں نماز جمعہ ادا نہیں کی گئی بلکہ حکومتی ہدایات پر پوری طرح عمل کیا جا رہا ہے۔فرنگی محلی مسجد لکھنؤ کے امام مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے بھی لوگوں کو اپنے گھروں میں نمازیں ادا کرنے کی تلقین کی۔

مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتوں نے بھی ہندوستانی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوئے ان کی ہدایات پر من و عن عمل کیا۔لیکن بدقسمتی سے ہندوستانی عوام اور حکومت کا رویہ اس حوالے سے انتہائی متعصبانہ اور جانبدارانہ رہا۔ریاست کی طرف سے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا۔عوامی سطح پر مسلمانوں کے خلاف منظم مہم چلائی گئی۔اس منظم مہم سے یوں لگا کہ جیسے ہندوستان میں کرونا وائرس مسلمانوں کی وجہ سے پھیلا ہے۔

ہم انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ہندوستانی حکومت کی اس بات میں کس حد تک وزن ہے۔
نئی دہلی پولیس نے مسلمانوں کے تبلیغی مرکز کے خلاف ابتدائی الزامات کی ایک فہرست جاری کی ہے جس کی بنیاد پر بھارتی دارالحکومت میں ایک مذہبی اجتماع کرنے اور ملک بھر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی بنیاد اس مذہبی اجتماع کو قرار دیا گیا ہے جو کہ ہر لحاظ سے افسوسناک ہے۔

ہمیں یہ تجزیہ کرتے ہوئے اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے یے کہ ہندوستان میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں۔انکی تعداد کروڑوں میں ہے۔وہ ہندوستان کے ذمہ دار شہری ہیں۔اپنے مذہبی اجتماعات کے انعقاد میں ہندوستانی حکومت اور انتظامیہ کے تمام احکامات کی مکمل پیروی کرتے ہیں۔لہذا خالصتاً ایک دینی پروگرام کو اس وبا کی جڑ قرار دینا تعصب کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

ہندوستانی میڈیا کے مطابق یہ اجتماع اکیس مارچ کو دہلی میں منعقد ہوا اس وقت تک حکومت کی طرف سے سے نہ تو لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا اور نہ ہی اس اجتماع پر کسی قسم کی پابندی عائد کی گئی تھی۔اس اجتماع میں لگ بھگ 1750 افراد شریک تھے۔تبلیغی جماعت کی جانب سے منعقد کیے گئے اس اجتماع میں میں 200 غیر ملکیوں سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے متعدد شرکاء نے شرکت کی۔

اس اجتماع کے انعقاد کے 36 گھنٹوں کے بعد وزیر اعظم مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کرونا وائرس کی سنگینی سے قوم کو آگاہ کیا، اس کو ایک عالمی جنگ قرار دیتے ہوئے سماجی دوری کے اصول پر عمل کرنے اور اجتماعات سے دور رہنے کا کہا گیا۔تبلیغی جماعت کے منتظمین کے مطابق انہوں نے محکمہ صحت کے حکام اور شہر کے انتظامیہ سے مکمل تعاون کیا لیکن جب لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تو بستی نظام الدین کے مغربی حصہ میں تبلیغی جماعت کے مرکز میں سیکڑوں افراد موجود تھے۔

ان لوگوں کو نہ تو مرکز سے نکلے کا موقع فراہم کیا گیا کیا اور نہ ہی انہیں قرنطینہ کرنے کے انتظامات کئے گئے۔۔انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ برطانوی سامراجی دور کے کے وبائی امراض کے ایکٹ  1897 کے تحت تبلیغی جماعت کے خطیب مولانا سعد آزاد اور دیگر منتظمین کے خلاف اس وائرس کو پھیلانے اور اس دوران اجتماع منعقد کرنے کے جرم میں  مقدمہ درج کیا گیا۔

جبکہ مسلمانوں کی طرف سے حکومتی انتظامات کی نہ تو خلاف ورزی کی گئی نہ ہی انتظامات میں کسی نوعیت کی رکاوٹ ڈالی گئی کی لیکن اس کے باوجود  مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعصب پر مبنی جھوٹا مقدمہ درج کر کے مسلمانوں  کو نشانہ بنایا گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ دہلی کے وزیراعلیٰ جیسے ذمہ دار فرد نے بھی کرو نا کو پھیلانے کا ذمہ دار تبلیغی اجتماع کو قرار دیا یا حالانکہ یہ بات حقیقت کے مطابق نہیں ہے حقیقت یہ  ہے کہ اس وائرس کا تبلیغی جماعت یا مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا دور کا تعلق بھی نہیں ہے جس طرح کے جوڑا جارہا ہے۔

بھارتی مسلمان بھی عام لوگوں کی طرح وہاں کے باسی ہیں جس طرح باقی لوگ کرو نا کا شکار ہو رہے ہیں اسی طرح مسلمان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں لیکن اس کو خاص طور پر مسلمانوں سے یا مسلمانوں کی مذہبی عبادات سے جوڑنا یہ انتہائی قابل مذمت عمل ہے۔ وزیر اعظم مودی نے بھارت میں کئی روزہ قومی لا ڈاؤن کا اعلان کیا اس لاک ڈاون کے پہلے ہفتے کے اختتام پر مذہبی بنیادوں پر تشدد میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

وزیر اعظم مودی کی جانب سے چارگھنٹوں کے نوٹس کے بعد بعد دور دراز دیہاتوں سے آئے ہوئے مزدور پیشہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔بعض ٹرانسپورٹ نہ ملنے کے باعث اس طویل سفر پیدل طے کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں تک پہنچے تبلیغی اجتماع پر الزام لگانے والی بھارتی حکومت نے بستی نظام الدین میں ہونے والے اجتماع کے شرکاء کے انخلا کے لیے لیے مناسب انتظامات کرنے کے بجائے یے ان پر مقدمات قائم کرنے کرنے اور ان کو مختلف انداز میں ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔

بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں کے محلوں اور ان کے گھروں پر پولیس نے چھاپے مارنے شروع کر دیے جس سے یہ تاثر پختہ ہوا ہوا کہ اس وباء کی آڑ میں ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سرگرم کارکن خرم پرویز کا ایک بیان ان ایک ویب چینل پر جاری ہوا جس میں انہوں نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران ان بھارتی انتہا پسندوں نے مسلمانوں کو آسان ہدف بنا لیا۔

یہ دیکھنے کے بجائے کے اس مسئلہ کو بہتر انداز میں کیسے حل کیا جا سکتا ہے مسلمانوں کے خلاف نفرت کو مزید ہوا دی جارہی ہے۔نظام الدین مرکز کے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ اجتماع منعقد کرنے کا فیصلہ ایک سال قبل کیا گیا تھا اچانک لاک ڈاؤن کے باعث اس ملک بھر سے آئے ہوئے شرکا مرکز میں پھنس کر رہ گئے۔مرکز کی طرف سے مسلمانوں کو کے انخلا کے لیے باقاعدہ طور پر تحریری درخواست دی گئی لیکن حکومت نے اس پر کوئی جواب نہ دیا۔

مسلمانوں کے نمائندگان کی طرف سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان کے مطابق اس پورے عمل کے دوران ان مسلمانوں کی طرف سے سے کسی بھی موقع پر پر قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔لیکن بھارتی ریاستی اداروں کی جانب سے سے شرکاء کے ساتھ نامناسب سلوک کیا گیا۔
اس وقت پوری دنیا اس وبا کے سامنے سینہ سپر ہے اور اس کو جدید سائنسی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ہے لیکن بھارتی حکومت وہ واحد حکومت ہے جس نے اس وائرس کے متاثرین کو بھی مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم کر دیا ہے۔

بھارت میں اقلیتوں کی صورتحال ویسے ہی کوئی اتنی خوشگوار نہیں لیکن اس بیماری کے دوران ان بھارتی مسلمانوں پر پر مقدمات کے اندراج ان کو ہراساں کرنے کے مسلسل واقعات واقعات نے بھارتی حکومت کی اہلیت پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔پوری دنیا کے غیر جانبدار مبصرین اس عمل پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارتی حکومت اس طرح اس مسئلے کے ساتھ نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے۔

بھارتی حکومت کے کے اس متعصبانہ رویہ کے باعث اس ہندوستان کے مسلمان عدم تحفظ کا کا شکار ہو رہے ہیں۔ان کے ذہن میں یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ ہمیں مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔عالمی برادری کو کو اس حماقت کا فوری طور پر نوٹس لینا چاہیے اور بھارتی حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اس بیماری کا بیماری سمجھ کر کر سامنا کریں اور اس کی آڑ میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ نہ بنائے۔اگر یہ عمل جاری رہا تو بھارت میں موجود  توڑ پھوڑ اور تقسیم در تقسیم کا عمل مزید تیز ہو جائے گا جس کی ذمہ دار بھارتی حکومت ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :