کورونا ایس او پیز

جمعرات 4 جون 2020

Pir Mohammad Farooq Bahawal Haq Shah

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ

2020 کا سورج طلوع ہونے سے پہلے کسے معلوم تھا کہ اس سال سے زندگی کے تمام معمولات تبدیل ہوجائیں گے۔ہم دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسے دور میں پہنچ جائیں گے گے جہاں پر زندگی گزارنے کا سارا عمل تبدیل ہوجائے گا۔کون سوچ سکتا تھا کہ چلنے پھرنے، سانس لینے،اپس میں بات کرنے کے آداب بدل جائیں گے۔کسے گمان تھا کہ مساجد میں جانا محال ہوجائے گا، تعلیمی ادارے بند ہو جائیں گے اور کاروباری مراکز کو تالے پڑجائیں گے۔

یہ کون سوچ سکتا تھا کہ بڑی تعداد میں لوگ اپنی نوکریوں سے محروم کر دیئے جائیں گے اور ہر کام کے لیے حیران کن اور اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کے مطابق ایک نئے انداز میں زندگی گزارنا پڑے گی۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں پر ایک خاص ضابطہ اور طریقہ کار کے مطابق زندگی گزارنا تقریبا ناممکن سمجھا جاتا ہے اور کوئی بھی کام کرنے سے پہلے قانون کو توڑنا ضروری سمجھا جاتا ہے، ایسے آزاد ملک میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ لوگ از خود ایک دوسرے سے سماجی دوری اختیار کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

کافی حد تک ماسک پہننے والے لوگ نظر آرہے۔عام لوگوں کی جیبوں اور ہاتھوں میں مخصوص سینٹائزرنظر آتے ہیں۔ مسجدوں کے اندر دائرے لگا دیے گئے ہیں اور لوگ ان دائروں کی پابندی کرتے ہیں۔تجارتی اداروں،دکانوں اور بینکوں کے باہر بھی دائر لگا کر کھڑا ہونے کے لیے اکثر لوگ لوگ ہدایات کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ہم اپنی آنکھوں سے یہ زمانہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جب لوگ معمولی زکام ہونے پر بھی ڈاکٹر کی طرف دوڑتے تھے اب بخار کے باوجود بھی اسپتال جانے سے کتراتے ہیں۔

ہر شخص کے دل میں یہ خوف جاگزیں ہو گیا ہے کہ اس کو ہونے والا موسمی بخار کہیں کرونا والا بخار نہ ہو۔لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور ہم اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور ابھی تک کچھ معلوم نہیں کہ یہ کب تک ہوتا رہے گا۔۔کرو نا جیسے خاموش دشمن نے غیر منظم قوموں کو نظم کا پابند بنا دیا ہے۔اور پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے یہ کام اسی سال کے پہلے اور دوسرے مہینے میں شروع کردیا گیا تھا۔

ہمسایہ ممالک سے ملنے والی تمام سرحدوں کو بند کر دیا گیا تھا اور ایئرپورٹ پر اترنے والے مسافروں کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے بعد پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی تھی۔
ایس او پیز سے کیا مراد ہے
میرے خیال میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے میڈیا میں جو لفظ سب سے زیادہ استعمال کیا وہ ایس او پی ہے۔در اصل یہ سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کا مخفف ہے۔

بنیادی طور پر یہ الفاظ استعمال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے اقدامات اختیار کرنا یا ایسے اصول و ضوابط وضع کرنا جن پر عمل کرکے کرونا وائرس کو مزید پھیلنے سے روکا جائے۔یہ ضابطہ کار قومی ادارہ صحت پاکستان نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ہدایت کی روشنی میں تیار کی ہیں۔تاہم ان کی تیاری میں دیگر محکموں اور اداروں سے بھی مدد لی گئی ہے۔ان کو وفاقی اور مختلف صوبائی حکومتوں نے اپنے طور پر بھی جاری کیا ہے۔

قومی ادارہ صحت کی کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق اب تک 24 سے زیادہ ایسے ایس او پیز جاری کیے جا چکے ہیں ہیں جن میں مختلف حوالوں سے رہنما اصول وضع کیے گئے۔
حکومت کی طرف سے جاری کردہ مختلف ایس او پیز کا جائزہ
قومی ادارہ سے پاکستان نے، بین الاقوامی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق سب سے پہلے بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کے لئے مخصوص طریقہ کار وضع کیا۔

ایئرپورٹ پر مسافروں کی سکریننگ کرنے، ان کا ریکارڈ رکھنے،اور پھر تمام افراد کی نگرانی کرنے کے عمل کا بھی ذکر تھا۔چونکہ ابتدائی دنوں میں وائرس کے پھیلاؤ کا زیادہ سبب ایران کے بارڈر سے آنے والے لوگ تھے لہذا حکومت سندھ نے سب سے زیادہ ان اصولوں پر عمل کیا اور لوگوں کی مستقل طور پر نگرانی کی۔جن لوگوں میں کرونا وائرس کے اثرات پائے گئے ان کو دوسرے لوگوں سے الگ کیا گیا۔

حکومت پاکستان کی جانب سے عام لوگوں کی نقل و حرکت، بازار میں کاروبار کے طریقہ کار،ہسپتال میں مریضوں کی آمدورفت، ڈاکٹرز اور طبی عملہ کے لئے الگ الگ ایس او پیز جاری کیے گیے۔انکو مخصوص لباس پہننے کی ہدایات کی گئی۔سیکورٹی اہلکاروں اور عملے کے لیے بھی الگ سے قواعد و ضوابط مرتب کیے گئے۔اسی طرح وہ تمام افراد مختلف فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے فیلڈ میں کام کر رہے تھے ان کے لیے مخصوص ضوابط وضع کرکے ان کو اس پر عمل کرنے کا پابند بنایا گیا۔

حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے ایس او پیز کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والے مریض کے لیے الگ،ان کے گھر والوں اور ملنے جلنے والوں کے لئے الگ سے ہدایت نامہ جاری کیا گیا گیا یہاں تک کہ جو شخص کرونا وائرس کی وجہ سے انتقال کر جائے اس کی میت کو دفنانے کے ایس او پی جاری کیے گئے۔
سماجی دوری کے ایس او پیز
یکم جون 2020 وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں ایس او پیز کے تحت معمولات زندگی کو بحال کیا جائے۔

اب یہاں پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ سماجی دوری اختیار کرنے کے لیے کیا ایس او پیز ہیں۔ 1. شہریوں سے کہا گیا کہ وہ ایک دوسرے سے ہاتھ نہ ملائیں نہ ہی گلے ملیں۔بلکہ اتنا فاصلے سے کھڑے ہو کر گفتگو کریں کہ چھینک کے اثرات آپ تک نہ پہنچ سکے۔2. زیادہ کوشش کی جائے کہ بغیر وجہ کے گھر سے باہرنہ نکلیں اپنے آپ کو گھر کے اندر محدود کر لیں لیکن اگر گھر سے باہر جانا پڑے ے تو کسی کے بھی زیادہ قریب جائیں،ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے اجتناب کریں۔

3.جس سے بھی بات کریں اس سے کم از کم چھ فٹ دور رہ کر بات کریں کسی کو اپنا موبائل فون نہ دیں۔ اور نہ ہی کسی کا موبائل کا استعمال کریں۔ اس کے علاوہ دیگر اشیاء جو آپ کے ہاتھ میں ہیں جیسے چابیاں وغیرہ ان کو جراثیم کش ادویات سے سپرے کریں۔4, خریداری کرتے ہوئے ماسک دستانے پہن کر جائیں اور اپنے ساتھ سینٹائز رکھیں۔دکان کے اندر بھی سماجی دوری اختیار کریں۔

5. بینک یا دفاتر میں جانے کے لیے بھی حفاظتی تدابیر اختیار کریں۔ وہاں موجود چیزوں کو بلاوجہ چھونے سے اجتناب کریں۔اور اگر کسی کاغذ یا پیسوں کو ہاتھ لگایا ہے تو اپنیہاتھ کو سینٹائز سے صاف کریں۔کوشش کریں کہ لوگوں سے فون یا سی میل کے ذریعے رابطہ کریں۔
بیماری کی علامات کے ایس اوپیز
اگر خدانخواستہ کا آپ میں کرونا کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں تو خود کو گھر میں محدود کر لیں اگر آپ کو بخار کھانسی، سانس لینے میں دشواری، سینے میں مسلسل درد یا بوجھ محسوس ہو، ہونٹ اور چہرہ سرخ ہو جائیں تو اس صورتحال میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور آپ کو گھر میں ہی قرنطینہ کر لیں۔

جب تک ٹیسٹ کا رزلٹ نہیں آجاتا۔۔اس کے ساتھ ساتھ محکمہ صحت کی طرف سے گھر میں قرنطینہ رہنے کے الگ سے بھی ایس او پیز جاری کیے گئے ہیں اور ساتھ ساتھ اس مریض کے رشتہ داروں اور لواحقین کے لیے بھی طریقہ کار وضع کیا گیا ہیکہ کس طرح ان کے ساتھ اپنے معاملات زندگی کو گزارنا ہے۔۔
مساجد کیلئے ایس او پیز
حکومت کی طرف سے عید کے موقع پر مساجد کھولنے کا اعلان کیا گیا اور ساتھ ایک بیس نکاتی فارمولہ بھی جاری کیا گیا جس پر عمل کرکے اس بیماری کو پھیلاؤ روکنے کے اقدامات ہو سکتے ہیں۔

اور ساتھ ہی مساجد میں عبادت کا اہتمام بھی ہوتا رہے۔مساجد کے لیے جاری کردہ ایس او پیز کے مطابق نماز اور نماز جمعہ کے لیے صفوں میں کم از کم تین میٹر کا فاصلہ، مسجد کے فرش سے قالین ہٹانے، مسجد کے فرش کو جراثیم کش ادویات سے دھونے،نمازیوں کا وضو گھر سے کرکے آنے، جائے نماز ساتھ لانے،نماز مسجد کی صحن میں ادا کرنے کے ایس او پیز جاری کیے گئے،ساتھ یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ مساجد میں ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے افراد یا ایسے افراد جن کو نزلہ زکام کھانسی یا بخار ہو وہ مسجد میں نہ آئیں۔

مساجد میں ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی برقرار رہے گی۔اگرچہ دین بیزار طبقہ کی طرف سے مساجد کھولنے کے اقدامات کی شدید مخالفت کی گئی اور خصوصی طور پر مساجد کو ٹارگٹ کیا گیا لیکن اس کے باوجود حکومت کی طرف سے عبادات کا اہتمام کرنے اور مساجد کھولنے کی اجازت دینا ایک دلیرانہ فیصلہ ہے۔مساجد کے حوالے سے علماء نے انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے تمام ہدایات پر مکمل عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی اور اس پر عمل کیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ افسوس سے یہ بات کرنی پڑ رہی ہے کہ جتنی سختی سے مساجد پر یہ احکامات نافذ کئے گئے یے اس سے نصف سختی بھی بازاروں اور مارکیٹوں پر نہ کی گئی۔جس کا نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ پاکستان میں کرونا کیسز کی تعداد میں روز بروز تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے۔۔
مزدوروں کیلئے ایس او پیز
وزیراعظم کی تقریر میں میں یہ بات بڑے بڑے اہتمام سے کہیں گی کہ ملک کی پانچ کروڑ سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے ہے اور ان کا گزر ہر سوال مزدوری کے اور کچھ نہیں نہیں لہٰذا مزدوری پر پابندی کسی صورت بھی ممکن نہیں۔

لہذا متعلقہ اداروں کی طرف سے صنعتی مزدوروں اور اور دیگر مزدوروں کے لئے لیے ہدایات وضع کی گئی۔کام کرنے والے مزدوروں کو سختی سے اس بات کی ہدایت کی گئی گی کہ وہ ہر صورت اپنے چہرے کو ڈھانپ کر رکھیں۔کسی بھی بیماری کی صورت میں ہرگز کام پر نہ جائیں۔اداروں کے مالکان کو کہا گیا یا کہ وہ اپنے مزدوروں کا طبی معائنہ کروائیں اور اگر اگر کسی مزدور میں کرونا کی علامات ظاہر ہوں تو اس کو تنخواہ کے ساتھ رخصت دیں۔


شہریوں کی زمہ داری
وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے عوام اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔حکومت اس موڈ میں نظر نہیں آتی کہ مکمل لاک ڈاؤن ہو۔وزیراعظم کی سوچ اس حوالے سے منقسم نظر آتی ہے۔وہ مکمل لاک ڈاؤن کو غریب طبقہ کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ تمام صوبے اس حوالے سے ایک پیج پر نظر نہیں آتے۔

ان ہدایات پر عمل درآمد کرانے کے لیے سیاسی طاقت کی ضرورت ہے،جس سے حکومت محروم نظر آرہی ہے۔اس مشکل دور میں تمام طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہیے تھا جو کہ بدقسمتی سے نہیں ہو سکا۔شہریوں کو اپنی حفاظت کا انتظام کرتے ہوئے حکومتی ہدایات پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔ملک میں قائم تمام دفاتر،بینک، کاروباری ادارے، صنعتی ادارے،اور تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ایس او پیز پر عمل کرنا ہوگا۔حکومت اور ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرنے میں ہی عوام کی بھلائی اور بہتری ہے۔اور اگر ان ہدایات پر عمل نہ کیا گیا تو تباہ کن نتائج ہمارے منتظر ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :