ترمیم توہوگئی لیکن۔۔۔

بدھ 14 جنوری 2015

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

پتہ نہیں کب دَورِکرب شگفتِ بہارمیں تبدیل ہوگا ،پتہ نہیں کب نا اُمیدیوں کے لق ودق صحرا میں میں اُمیدکی کلیاں کھلیں گی ،پتہ نہیں کب ہماری ہی ضیاء سے منورہونے والے ہم سے کراہت وبیگانگی کاوطیرہ چھوڑیں گے ،پتہ نہیں بے برگ وثمر کھیتیاں کب ہری بھری ہونگی ،پتہ نہیں کب صحنِ چمن میں کوئل کوکے گی اور پپیہا ”پی کہاں“ کی رَٹ لگائے گا اور پتہ نہیں کب ہماری دعائیں عرشِ بریں تک پہنچیں گی۔

لیکن ایساتو تبھی ہوگا جب ہم اپنے مَن میں ڈوب کر زندگی کا سراغ لگانے کے اہل ہونگے ۔ آقاﷺ نے توفرمایا ”وہ طویل سفرمیں ہے ،پراگندہ حال ،غبارآلود ،دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھاکر کہتاہے ،اے رَب ،اے رَب! مگر اُس کاکھانا حرام ،پیناحرام ،لباس حرام اورغذا حرام ۔بھلا ایسے شخص کی دعاکیسے قبول ہوسکتی ہے “۔

(جاری ہے)

ہماری دعائیں بھی تبھی مستجاب ہونگی جب ہمارے ایمان وایقان کوقُرآن وسنت کی وہی بنیادفراہم کردی جائے گی جسے مضبوطی سے تھام لینے پرکبھی گمراہ نہ ہونے کاوعدہ خودمیرے آقاﷺ نے فرمایاہے ۔

لیکن ہم تومن حیث القوم تارکِ قُرآں ہیں۔اِس کتابِ حکمت کی حفاظت کاذمہ توخود ربِ لَم یزل نے لیاہے لیکن تفسیر،تشریح اورتاویل ہماری اپنی اپنی ۔یہی وجہ ہے کہ معاملہ مذہبی ہو، مسلکی یا ملکی ہم کہیں بھی یکسونظر نہیںآ تے ۔ اکیسویں ترمیم منظورہوگئی اور کھلی آنکھوں سے تویہی نظر آرہاتھا کہ یہ ترمیم ”مقتدرقوتوں“کی خواہش ،ایماء اورطاقت کی بناپر پایہٴ تکمیل کوپہنچی لیکن مقتدرقوتیں بھی اِس ترمیم کومتفقہ قراردلوانے میں ناکام رہیں ۔

جب پہلی اوردوسری آل پارٹیزکانفرنسوں میں سب کچھ طے ہوچکا تھا توپھر تیسری کانفرنس میں پتہ نہیں اچانک کیاہوا کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے پارلیمنٹ میںآ نے سے انکار کردیا ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ سانحہ پشاورکے معصوموں کے لہوکی خوشبوابھی تک فضاوٴں میں ہے لیکن ہم بکھرچکے ۔سول سوسائٹی کو اکیسویں ترمیم منظورنہیں ،وکلاء اِس ترمیم کے خلاف کمربستہ ،اعلیٰ عدالتوں میں اسے چیلنج کیا جاچکا ،نئی آئینی بحثوں اور قانونی موشگافیوں کے دروازے کھُل چکے ،الیکٹرانک میڈیا پر بحث جاری ،اینکرز اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکرمیں ملّی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے کمربستہ ،مساجد ،مدارس کے معاملے پردینی جماعتیں میدان میں آچکیں،سندھ میں ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی باہم دست وگریباں اور محترم عمران خاں بھی سانحہ پشاورکو فراموش کرکے ایک دفعہ پھر سڑکوں پر آنے کے لیے بیتاب ۔

کیاقومی اتحاد اسی کانام ہے اورکیا جنگیں ایسے ہی لڑی جاتی ہیں؟۔ کیا تاریخِ عالم میں کبھی ایساہواکہ پارہ پارہ قومی اتحادکے دامن سے فتح ونصرت کے شادیانوں کی گونج سنائی دینے لگے۔
مسلٴہ اتنابڑا تونہیں تھا کہ حل نہ ہوپاتا ۔آج وزیرِاعظم کہتے ہیں”ہم سب کوساتھ لے کرچلنا چاہتے ہیں اور ملک کوجو حالات درپیش ہیں ،کوئی بھی جماعت تنہا اُنکا مقابلہ نہیں کرسکتی ،آئینی ترمیم پر تحفظات دورکیے جائیں گے “۔

سوال مگر یہ ہے کہ ایسا پہلے کیوں نہیں کیاگیا ،وکلاء اور سول سوسائٹی کواعتماد میں کیوں نہیں لیاگیا اور دینی جماعتوں کے تحفظات کیوں دور نہیں کیے گئے اورنواز لیگ کو اکیسویں ترمیم کی منظوری کروانے کاسہرا اپنے سَر بندھوانے کی اتنی جلدی کیوں تھی ۔اگر دوچار دن اورصبر کر لیاجاتا تو کونسی قیامت ٹوٹ پڑتی ۔دینی جماعتوں کو اعتراض ہے تو فقط اتناکہ دہشت گردی کی جو تعریف کی گئی ہے وہ صرف مذہب ،عقیدے اور مسلک کے گردگھومتی نظرآتی ہے ۔

نیوزچینلز اوراخبارات میں بھی یہی اشتہارات آتے رہتے ہیں کہ مسجدوں اورمدرسوں پر نظررکھیں اورجہاں کہیں دہشت گردنظر آئے اُس کے بارے میں رپورٹ کریں جبکہ ہمارے وزیرِداخلہ اوروزیرِاطلاعات ونشریات یہ بھی فرماتے ہیں کہ صرف دَس فیصد مدارس ایسے ہیں جہاں دہشت گردوں کو پناہ دی جاتی ہے یا دہشت گردی کی تعلیم ۔مذہبی جماعتوں میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو دہشت گردوں کے خلاف ایکشن کی مخالفت کرتی ہویا اُسے ملٹری کورٹس پراعتراض ہو ۔

اعتراض ہے توصرف یہ کہ دہشت گردکا کوئی مذہب ہوتاہے نہ مسلک جبکہ اکیسویں ترمیم صرف مذہب ،مسلک اورفرقے کے گردگھومتی نظر آتی ہے اِس لیے دہشت گردی کی یہ تعریف نہ صرف ادھوری بلکہ مہمل بھی ہے ۔عالمی قوتیں تو پہلے ہی دہشت گردی کے ناطے اسلام سے جوڑنے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں ،اگراِس ترمیم کوصرف مذہبی انتہاپسندی تک محدودکر دیاگیا توپھر ہم نے گویا اُنکی بات پر مہرِتصدیق ثبت کردی ۔


وثوق سے کہا جاسکتاہے اگر اکیسویں ترمیم کی آڑمیں صرف مذہب ،مسلک اور عقیدے کودہشت گردی کی بنیادبناکر مدارس اورمساجد کونشانہ بنانے کی کوشش کی گئی توملٹری کورٹس توناکام ہونگی ہی ،ملک میں انارکی بھی پھیل جائے گی ۔ہماری ایجنسیوں کے پاس کم وبیش ایسے دوسو مدارس کی مکمل معلومات ہیں جو جہاں دہشت گردوں کو پناہ دی جاتی ہویا جہادکے نام پر دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہو ۔

ایسے مدرسوں کے خلاف ایکشن پرکسی دینی جماعت کواعتراض ہے نہ ہوناچاہیے لیکن ایجنسیوں کے پاس ایسی معلومات سیاسی جماعتوں کے بارے میں بھی ہیں ۔پھرصرف مساجداور مدارس کیوں،عسکری ونگ رکھنے والی ،ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوروں کی سرپرستی کرنے والی لسانی اورسیاسی جماعتیں کیوں نہیں ۔شرجیل میمن کہتے ہیں کہ سندھ میں ٹارگٹ کلنگ اوربھتہ خوری کے تین ہزارکیسز زیرِالتواء ہیں ۔

کیاہماری ایجنسیاں نہیں جانتیں کہ اِن ٹارگٹ کلرزاور بھتہ خوروں کی غالب اکثریت کاتعلق کس
جماعت سے ہے ؟۔عروس البلاد اورروشنیوں کاشہر کہلانے والاکراچی عرصہٴ درازسے خونم خون ہے ۔اِس شہرِکم نصیب میں صرف طالبان اور القاعدہ ہی نہیں،لسانی ،فرقہ واریت اور سیاسی عناصربھی ٹارگٹ کلنگ میں مصروف ہیں اور اب تویہ حال ہے کہ کراچی میں جنگجووٴں کی بھرتی کے مرکزتک کھُل چکے ہیں ۔

کیاکراچی میں ہونے والی دہشت گردی کسی کونظر نہیں آتی ؟۔کیایہ غلط ہے کہ ایک سیاسی جماعت ہردوسرے دِن کراچی محض اس لیے بندکروا دیتی ہے کہ پولیس اور رینجرز کے مطابق جودہشت گردقرار پاتاہے ،وہ اُسی جماعت کامعصوم اوربے گناہ کارکُن نکلتاہے ؟۔مسجد ،مکتب اور مسلک کی آڑ میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف بھرپور آپریشن پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن یہ آپریشن صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتاہے جب سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر بِلا امتیاز کیاجائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :