مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں ہمارا کردار

بدھ 8 اپریل 2015

Prof.Mazhar

پروفیسر مظہر

اقوامِ مغرب اوراسرائیل خوش کہ عالمِ اسلام باہم دست وگریباں ،گولی مسلمان کی اورسینہ بھی مسلمان کا، خونِ مسلم کی ارزانی کایہ عالم کہ ٹپکنے والالہو مسلمان کااور لہو ٹپکانے والابھی مسلمان ۔ارسطونے کہا ”ہرغلطی آپ کوکچھ نہ کچھ سکھاسکتی ہے بشرطیکہ آپ کچھ سیکھناچاہیں “لیکن رہنمایانِ عالمِ اسلام کچھ سیکھنے کوتیار ہی نہیں ۔

روزِ روشن کی طرح عیاں کہ عشروں سے طاغوتی طاقتیں عالمِ اسلام کوآپس میں لڑانے اورداخلی انتشارپیدا کرنے کے لیے سرگرم لیکن عالمِ اسلام کوسوچ بچارکی فرصت ہی نہیں ۔پہلے ایران عراق جنگ ،پھر عراق کویت تصادم اور فائدہ کس کو؟امریکہ اوراُس کے اتحادیوں کو ۔اب عراق شام اوریمن میں خون ریزفسادات جولاریب پورے عالمِ اسلام کواپنی لپیٹ میں لے لیں گے لیکن ہم ایمان وایقان کی منہدم بنیادوں کے ساتھ مصلحتوں کے اسیراور نرغہٴ وہم وگماں میں۔

(جاری ہے)

عالمی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال کوشیعہ سنی جنگ بناکر عالمِ اسلام کوبدنام کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں حالانکہ یہ شیعہ سنی جنگ نہیں۔عالمی اہل سنت ولجماعت کی مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ واضح کردیا گیاہے کہ حوثی قبائل کاتعلق شیعہ فرقہ سے نہیں بلکہ اہلِ سنت سے ہے اوریہ جنگ شیعہ سنی کی نہیں بلکہ علاقائی مفادات کی جنگ ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ حوثی قبائل اوراُن کے اتحادی یمن میں اقتدارمیں شراکت چاہتے ہیں اورایران اُن کی درپردہ حمایت کررہاہے جبکہ حوثی قبائل کی یہ بغاوت سعودی عرب کے مفادات سے ٹکراتی ہے اِس لیے سعودی شاہ سلیمان بِن عبدلعزیزنے شرم الشیخ میں ہونے والے عرب لیگ سربراہی اجلاس میں واضح اوردو ٹوک الفاظ میں یہ کہا کہ یمن میں مکمل استحکام تک فوجی کارروائی نہیں رکے گی ۔

سعودی حکومت نے داخلی استحکام کے لیے پاکستان سے فوجی دستے بھیجنے کامطالبہ کیالیکن ایٹمی پاکستان کاتویہ عالم کہ لینے کے پیمانے اور ،دینے کے اور ۔حرمین شریفین کی حرمت پہ کٹ مرنے کی تواناآوازیں چارسو لیکن اِس کے آگے خبثِ باطن ہی خبثِ باطن ۔وزیرِاعظم میاں نوازشریف صاحب نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی مکمل حمایت کاعزم ظاہرکیا لیکن سعودی عرب میں فوج بھیجنے کامعاملہ پارلیمنٹ پرچھوڑدیا ۔

چہ عجب کہ ہم امریکہ کی ایک ڈانٹ پراپنا سب کچھ نثارکر دیتے ہیں لیکن اُس سعودی عرب کی پکارپر گومگوکا شکارہو جاتے ہیں جو ہرمشکل اورکڑے وقت میں ہمارے کندھے سے کندھاملا کرکھڑا ہوتاہے ۔موجودہ مالی بحران کے دوران جب ہمارے اثاثے چھ ارب ڈالرکی کمترین سطح تک پہنچ چکے تھے توبِن مانگے ڈیڑھ ارب ڈالرکی امداددی۔ 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے موقعے پرجب امریکہ پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگا رہاتھا تب بھی سعودی عرب نے امریکہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کوتیل کی مفت فراہمی شروع کردی اورسعودی فرمانروا شاہ فیصل بِن عبد العزیز توپاکستان کواپنا دوسراگھر قراردیتے رہے ۔


ہم دوسروں سے حاصل کی جانے والی امدادکوتو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں لیکن جب کوئی مددکے لیے پکارے توآئیں بائیں شائیں اور بہانے بسیار ۔جنابِ آصف زرداری کہتے ہیں”حرمین شریفین کے دفاع کے لیے میں خود جاکر لڑنے کوتیار ہوں لیکن افغانستان اورپاکستان میں خون بہہ رہاہے اِس لیے حکومت دوسروں کی مددسے پہلے اپنا ملک دیکھے ۔ ہمیں اپنے آپ کونقصان پہنچاکر کسی اسلامی ملک کی مددنہیں کرنی چاہیے جتنی ہم برداشت کرسکیں ۔

ماضی میں دوسروں کی لگائی آگ سے ہمارااپنا گھرجَل گیا“۔ عمران خاں بھی یہی کہتے ہیں”مکہ مدینہ کے لیے ہرمسلمان جان دینے کوتیار ہے لیکن ہمیں اِس جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہیے ۔دس کروڑ عوام دووقت کی روٹی نہیں کھاسکتے ،تعلیم وصحت کابرا حال ہے ۔افغان جدوجہد کاحصہ بنیں تو کلاشنکوف کلچرپھیل گیا ۔ہم پارلیمنٹ میں یمن میں فوج بھیجنے کی بھرپورمخالفت کریں گے “۔

بنی گالامیں کورکمیٹی کے اجلاس میں تحریکِ انصاف نے پارلیمنٹ میں جانے کافیصلہ کرلیا ۔سانحہ پشاورپر تحریکِ انصاف کودھرناختم کرنے کابہانہ مل گیااور اب جنگِ یمن کابہانہ بناکر تحریکِ انصاف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرکے قومی دھارے میں شامل ہورہی ہے ۔اس شرکت سے تحریکِ انصاف کی اخلاقی پوزیشن انتہائی کمزور ہوجائے گی کیونکہ جس جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی شرط کے ساتھ تحریکِ انصاف اسمبلیوں میں جانے کوتیار ہوئی اُس کے بارے میں تو ابھی تک حکومت نے سپریم کورٹ کوخط بھی نہیں لکھا ۔

دودِن پہلے جہانگیرترین ایک ٹاک شومیں کہہ رہے تھے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کے معاملے پرتحریکِ انصاف میں اتفاق نہیں کیونکہ ابھی تک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نہیں ہوئی اورنہ ہی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیاہے کہ محض ایک صدارتی آرڈیننس پرتحقیقاتی کمیشن کی تشکیل ہوبھی سکتی ہے یانہیں ۔کمیشن کی تشکیل کے بعدبھی یہ خطرہ بہرحال موجود ر ہے گاکہ کوئی بھی اِس تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکتا ہے ۔

جوڈیشل کمیشن کوایک طرف رکھتے ہوئے تحریکِ انصاف نے جنگِ یمن کابہانہ تراشااور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جانے کافیصلہ کرلیا لیکن ساتھ ہی محترم خاں صاحب نے یہ بھی کہہ دیاکہ وہ جوڈیشل کمیشن میں اور سڑکوں پر بھی دھاندلی کے خلاف آوازبلند کریں گے کیونکہ نوازلیگ کو 2013ء کے انتخابات میں70 لاکھ جعلی ووٹ پڑے ہیں۔خاں صاحب کافرمان بجالیکن جس بلند آہنگ سے وہ اسی پارلیمنٹ کومتواتر چوروں، ڈاکووٴں اورجعل سازوں کی بدبودارجعلی اسمبلی قراردیتے رہے ہیں،اب اُسی پارلیمنٹ میں وہ کس مُنہ سے جائیں گے ؟۔

ویسے قوم سپیکرقومی اسمبلی محترم ایازصادق سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اُنہوں نے کس آئین کے تحت سات ماہ تک تحریکِ انصاف کے پارلیمنٹیرینز کے استعفے منظورنہیں کیے؟۔اِس سوال کاجواب آج نہیں تو کل بہرحال سپیکرصاحب کودینا ہی ہوگا۔
بات دوسری طرف نکل گئی ،آمدم برسرِ مطلب عرض ہے کہ میاں صاحب سعودی عرب کواقرار کرسکتے ہیں نہ انکار۔

سعودی عرب ہماری عقیدتوں اور محبتوں کا مرکزہی نہیں بلکہ شاہ فیصل سے لے کرشاہ سلیمان تک ہر سعودی حکمران ہمیشہ پاکستان کے بے لوث دوست رہاہے اِس لیے پاکستان کسی بھی صورت میں سعودی عرب کودو ٹوک اندازمیں انکارنہیں کرسکتا ۔سردمہری اورلیت ولعل کی صورت میں بھی گلف میں موجوداُن لاکھوں پاکستانیوں کے لیے مصیبت کھڑی ہوجائے گی جوہر سال اربوں ڈالر کازرِ مبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جبکہ دوسری طرف فوج بھیجنے کی صورت میں حکومت کوشدید ترین تنقیدکا سامنا کرناپڑے گا ۔

اِن حالات میں میاں صاحب سعودی عرب میں فوجی دستے بھیجنے کارسک لیتے نظرنہیں آتے ۔اب صرف ایک ہی راہ بچتی ہے یعنی متحارب گروہوں کو مذاکرات کی ٹیبل تک لانا ،جس کے لیے میاں صاحب صبح ومسا تگ ودَو کررہے ہیں اورتحقیق کہ یہی راہ فلاح کی راہ بھی ہے کیونکہ میرے آقاﷺ کا فرمان ہے ”کیامیں تم کوایسی چیز نہ بتاوٴں جو نماز ،روزہ اورصدقہ وخیرات سے بڑھ کرہے ،وہ آپس میں صلح صفائی ہے کیونکہ آپس میں جھگڑا اورفساد ہلاکت میں ڈالنے والی چیزیں ہیں“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :