قوم پھر ”نظریہٴ ضرورت“ کی گرفت میں
ہفتہ 21 جولائی 2018
10 مئی 1955ء کو جسٹس منیر نے فیصلہ دیا کہ ”جو عام حالات میں غیرقانونی ہوتا ہے، اُسے ضرورت کے تحت قانونی قرار دیا جا سکتا ہے“۔
(جاری ہے)
پھر اِسی نظریہٴ ضرورت نے ظفرعلی شاہ کیس میں پرویز مشرف کو تین سال کے لیے حقِ حکمرانی بخشا۔ 31 جولائی 2009ء کو سپریم کورٹ نے کہا”نظریہٴ ضرورت ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا“ طُرفہ تماشہ یہ کہ یہ فیصلہ اُس چیف جسٹس کی سربراہی میں دیا گیا جو خود دو دفعہ عبوری آئینی حکم (نظریہٴ ضرورت) کے تحت حلف اُٹھا چکے تھے۔
یہ” نظریہٴ ضرورت“ بھیس بدل کر آج بھی اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ زندہ ہے۔ اب کی بار اِس کا نشانہ نوازحکومت بنی۔ پہلے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ایک انتہائی متنازع فیصلے کے تحت تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے میاں نوازشریف کو گھر بھیج دیا۔ بات یہیں پہ ختم نہیں ہوئی کہ ”مائنس“ صرف میاں نوازشریف ہی نہیں، پوری نوازلیگ ہی مطلوب ومقصود تھی۔ معاملہ نیب سے ہوتا ہوا احتساب عدالت تک پہنچا اور پھر ساڑھے نَو ماہ بعد ایک ایسا فیصلہ سامنے آیا جسے بین الاقوامی ماہرینِ قانون بھی درست تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ جج محمد بشیر صاحب نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ استغاثہ منی لانڈرنگ یا کرپشن ثابت کرنے میں تو ناکام رہا لیکن گمان یہی ہے کہ استغاثہ نے جو کہا، وہی سچ ہے اِس لیے میاں نوازشریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 سال اور کیپٹن(ر) صفدر کو ایک سال قیدِ بامشقت کی سزا دی جاتی ہے۔ ہم نے تو یہی سنا تھا کہ شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دیا جاتا ہے لیکن یہاں معاملہ اُلٹ ہو گیا، استغاثہ کو بغیر کسی ثبوت کے سچ مان لیا گیا اور ملزمان کو مجرمان قرار دے دیا گیا۔ کیا یہ فیصلہ نظریہٴ ضرورت کے تحت نہیں دیا گیا؟۔ کیا تاریخِ عالم میں ایسی کوئی نظیر پیش کی جا سکتی ہے؟۔پاکستان کی تاریخ تو یہی ہے کہ سزا کے خوف سے لوگ ملک سے فرار ہو جاتے ہیں اور پھر وہیں کے ہو رہتے ہیں۔ لیکن میاں صاحب نے تو لندن میں سزا سُنی اور واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ بزرجمہر تو یہی کہتے تھے کہ میاں نوازشریف قصّہٴ پارینہ بن چکے۔ اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے لیکن میاں صاحب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاء اپنی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کو لندن کے ہسپتال میں چھوڑ کر سزا کاٹنے کے لیے پاکستان آگئے حالانکہ ڈاکٹرز کا اصرار تھا کہ اہلیہ کو اِس مخدوش حالت میں چھوڑ کر جانا کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔ میاں صاحب کی آمد کی اطلاع ملتے ہی پنجاب کی نگران حکومت بوکھلاہٹوں کا شکار ہو گئی۔ پنجاب حکومت کے انتہائی نامناسب اقدامات نے 70 کی دہائی کی یاد تازہ کر دی۔ اِس کے باوجود کہ پورا پنجاب عملی طور پر مفلوج کر دیا گیا، 50 سے 60 ہزار ”لاہورئیے“ تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے اپنے قائد کے استقبال کے لیے لاہور ایئرپورٹ کے مضافات تک پہنچے۔ یہ جذبہ وجنوں کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک عامی بھی جانتا تھا کہ میاں صاحب اور مریم نواز کو لاہور ایئرپورٹ کے اندر سے ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل پہنچا دیا جائے گا، نَیب کے بار بار یہی اعلانات سامنے آ رہے تھے، مقصد یہی کہ لوگ بَددل ہو کر گھروں میں بیٹھ رہیں لیکن پھر بھی کارکُن نکلے اور خوب نکلے ۔ اب میاں صاحب اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ اڈیالہ جیل میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی جا چکی۔ دیکھتے ہیں کہ یہاں بھی نظریہٴ ضرورت کی حکمرانی ہوتی ہے یا ۔۔۔۔۔
میاں نوازشریف کا قصور ہے تو محض اتنا کہ وہ ووٹ کو عزت دلوانا چاہتے ہیں۔ یہی تو بانیٴ پاکستان نے کہا تھا۔ قائدِاعظم نے 1943ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں فرمایا ”پاکستان کے آئین اور حکومت کا پاکستان کے فیصلہ عوام کریں گے“۔ اُنہوں نے 14 مئی 1947ء کو رائٹر کے نامہ نگار ڈون کیمپ بل کوانٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ”پاکستان کی حکومت مقبول ، نمائندہ اور جمہوری ہی ہو سکتی ہے۔ اِس کی کابینہ اور پارلیمنٹ حتمی طور پر رائے دہندگان اور عوام کے سامنے جوابدہ ہوں گی۔ عوام قطعی اور حتمی حاکم ہوں گے“۔ لیکن یہاں سوال ووٹ کو عزت دینے کا نہیں، نظریہٴ ضرورت کا ہے کہ مہربان اقتدار کا ہُماکسی اور کے سَر پر بٹھانا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔
علامہ اقبال نے کہا
نیست ممکن جُز بہ قُرآں زیستن
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.