ہمت نہ ہارنا

پیر 10 مارچ 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

پیپلز پارٹی کے سینیٹررحمٰن ملک نے کہا ”طالبان کے تمام گروپوں کی نانی ایک ہی ہے ۔مذاکرات کے لیے حکومت کی نیت سو فیصد صاف اور طالبان سو فیصد بَد نیت ہیں “۔سچ کہا ہے اپنے رحمٰن ملک سیالکوٹی نے کیونکہ کھرے کھوٹے کی پہچان بھلا ملک صاحب سے زیادہ کِس کوہے ۔بھٹو مرحوم کی پھانسی پر چوہدریوں کے محل میں مٹھائیوں کے ٹوکرے لے جانے والے ملک صاحب کو پیپلز پارٹی کے دوبارہ بَر سرِ اقتدار آتے ہی ادراک ہو گیا کہ ”کھَری“ صرف پیپلز پارٹی ہی ہے ، باقی سب ”کھوٹے“ ہیں ۔

اِس سے پہلے ضیاء الحق مرحوم نے پیپلز پارٹی کو ”رَگڑا“ ہی اتنا دیا تھا کہ ملک صاحب نے مٹھائیاں بانٹنے ہی میں عافیت جانی کیونکہ اُس وقت تو بڑے بڑے بزرجمہروں کا بھی پیپلز پارٹی کے بارے میں یہی خیال تھا کہ
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
لیکن ضیاء الحق مرحوم نے پیپلز پارٹی کو جتنا دبایا وہ اُتنی ہی اُبھری اور ملک صاحب بھی پھُدک کر ”اپنی جماعت“ میں آ گئے ۔

(جاری ہے)

اب وہ نواز لیگ کے بارے میں ”میٹھی میٹھی“ باتیں کر رہے ہیں اور اُنہیں نواز لیگ کی نیت بھی سو فیصد صاف نظر آنے لگی ہے اِس لیے ہمیں کچھ شَک سا ہونے لگا ہے کہیں ملک صاحب کا اگلا ٹارگِٹ نواز لیگ ہی نہ ہو کیونکہ ہواوٴں کا رُخ پہچاننے والے ملک صاحب کی ”آنیاں ،جانیاں“ہمیشہ باکمال ہوتی ہیں ۔ویسے ہم اکابرینِ نواز لیگ کو یہ ”مُفت مشورہ “دیں گے کہ اگر ایم کیو ایم کی زباں بندی مقصود ہو تو ملک صاحب کی خدمات حاصل کر لیں کیونکہ صرف اُنہی کی ”گیدڑ سنگھی“ سے ایم کیو ایم مَدہوش ہوتی ہے ۔


ملک صاحب نے یہ بھی بالکل بجا کہا کہ طالبان کی ”نانی“ ایک ہی ہے لیکن یہاں وہ تھوڑی ”ڈنڈی“ مار گئے ہیں کیونکہ صرف طالبان ہی نہیں بلکہ ساری اشرافیہ اور سارے صاحبانِ جاہ و حشم کی نانی بھی ایک ہی ہوتی ہے۔یہ نانیاں ، دادیاں تو ہم جیسوں کی ”وَکھو ،وَکھ“ ہوتی ہیں جن سے ہم بچپن میں جنوں بھوتوں کی کہانیاں سُننے کا کام لیتے ہیں لیکن صاحبانِ اقتدار چونکہ خود ”جِن بھوت“ ہوتے ہیں اِس لیے وہ ایک ہی ”نانی“ پر اکتفا کر تے ہیں اور یہ نانی بھی ایسی ”کائیاں“کہ سب کچھ اپنے نواسوں کے مُنہ میں ہی ٹھونستی رہتی ہے ۔

کوئی بھوکوں مرتا ہے تو مَرے ، اِن کی بَلا سے ۔
تھَرپارکر میں پچھلے تین ماہ میں 126 بچوں نے بھوک کے ہاتھوں بِلک بِلک کے جان دے دی لیکن ہمارے حاکموں نے سندھی ثقافت اجاگر کرنے کے لیے 3 ارب روپے پھونک ڈالے ۔سندھ کے وزیرِ خوراک کہتے ہیں کہ اُنہوں نے تو گندم مہیا کر دی لیکن اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وہ خود جا کر گندم تقسیم کرتے پھریں۔بجا کہا وزیرِ خوراک نے کیونکہ وہ حضرت عمر تو ہیں نہیں کہ امیر المومنین ہونے کے باوجود اپنے کندھے پر اناج کی بوری اُٹھائے بیوہ عورت کے گھر کی طرف رواں دواں ہوں ۔

غلام نے کہا کہ ”اناج کی بوری مجھے دے دیجئے “ ۔تب فاروقِ اعظم  نے یہ تاریخی جملہ کہا ”کیا روزِ قیامت میرے گناہوں کا بوجھ بھی تم اُٹھاوٴگے “؟۔وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر بلاول زرداری کہتے تو یہی وزیرِ خوراک کندھے پر گندم اُٹھائے ننگے پاوٴں بلاول کے محل کی طرف دوڑ اُٹھتے۔ہمارے انتہائی محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ تصدق حسین جیلانی نے سابق چیف جسٹس محترم افتخار محمد چوہدری صاحب کے خط پر از خود نوٹس لے لیا ہے ۔

اگر افتخار محمد چوہدری صاحب ریٹائر نہ ہوگئے ہوتے تو اُنہوں نے بہت پہلے ”دھماکہ“ کر دینا تھا لیکن اب تو اُن کے دَورِ منور کی صرف یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ملک ریاض صاحب نے بھی تھر کے قحط زدگان کے لیے 20کروڑ روپے دینے کا نہ صرف اعلان کر دیا بلکہ اُن کا ذاتی طیارہ اور ہیلی کاپٹر ڈاکٹروں ، نرسوں کی ٹیم لے کر تھر پہنچ بھی گیا ۔اُنہوں نے تھر کے قحط زدگان کے لیے” بحریہ دسترخوان “ قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے
رحمٰن ملک صاحب نے تو کہہ دیا کہ سارے طالبان کی نانی ایک ہی ہے لیکن ہمارے وزیرِ داخلہ نے سابقہ وزیرِ داخلہ کے بیان کی تردید اپنا فرضِ عین سمجھتے ہوئے یہ فرمایا کہ طالبان کی اکثریت ملک دُشمن نہیں بلکہ محبّ ِ وطن اور امن کی خواہاں ہے ۔

وزیرِ داخلہ کے اِس بیان کا قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید صاحب نے بہت بُرا منایا حالانکہ وہ نواز لیگ کی باتوں کا کَم کم ہی بُرا مناتے ہیں ۔ خود حکومتی حلقوں میں بھی اِس معاملے میں بہت بے چینی پائی جاتی ہے ۔ہمارے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے تو اپنے سیالکوٹی بھائی رحمٰن ملک کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ” اگر طالبان نے جنگ بندی کرنی ہے تو مکمل ہونی چاہیے ۔

جنگ بندی کی خلاف ورزی پر آپریشن ہو سکتا ہے جِس میں کئی ماہ نہیں لگیں گے ۔مارچ کے مہینے میں ہی مارچ کرنا پڑے گا ، اب حملہ ہوا تو اُسی زبان میں جواب دیا جائے گا ، طالبان کا یہ جواز قبول نہیں کر سکتے کہ کوئی اور گروپ حملے کر رہا ہے “۔ اُن کے خیال میں صورتِ حال اتنی خوفناک ہے کہ وہ اِس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتے ۔گویا خواجہ آصف صاحب کا نقطہٴ نظر بھی یہی ہے کہ سارے طالبان کی نانی ایک ہی ہے اِس لیے اگر مکمل جنگ بندی نہ ہوئی تو ”مکمل آپریشن“ ضرور ہو گا اور عنقریب ہو گا ۔

اب پتہ نہیں وزیرِ داخلہ سچ کہتے ہیں یا وزیردفاع لیکن اتنا اندازہ تو ہو گیا کہ خود اکابرینِ حکومت بھی ایک صفحے پر نہیں ۔جب حکومتی حلقوں کا یہ حال ہے تو پھر دیگر سیاسی جماعتوں نے کیا خاک ایک صفحے پر ہونا ہے۔
دوسری طرف وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کی شدید ترین خواہش ہے کہ آپریشن کی نوبت نہ آئے۔شاید اسی بنا پر طالبان سے مذاکرات کا دوبارہ ڈول ڈالا گیا ہے ۔

شنید ہے کہ اب کی بار طالبان سے براہِ راست خفیہ مذاکرات کیے جائیں گے اور فوج بھی مذاکراتی عمل کا حصّہ ہو گی۔ہمارے ہاں یہ رواج سا ہوگیا ہے کہ جہاں کہیں فوج کا ذکر آئے ، سیاسی جماعتیں اپنی سیاست ”بگھارنا“ شروع کر دیتی ہیں ۔سیّد خورشید شاہ کہتے ہیں کہ فوج کو مذاکرات میں شامل کرنا انتہائی خطرناک ہو گا ۔غلام احمد بلور کہتے ہیں کہ فوج کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا تو مارشل لاء لگ جائے گا ۔

چوہدری شجاعت حسین بھی مذاکراتی عمل میں فوج کی شرکت کے شدید مخالف ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن توآجکل اپنے آپ سے بھی روٹھے ہوئے ہیں ۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا یہ فوج ہماری اپنی نہیں ؟۔کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قُربانیاں فوج ہی نے نہیں دیں ؟۔کیا طالبانی گروہوں کے بارے میں سب سے زیادہ با خبر افواجِ پاکستان نہیں؟۔ اور کیا یہ بھارتی فوج ہے جس کی شمولیت سے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں ۔

یہ تو طے ہے کہ مذاکراتی عمل میں فوج کی شرکت یا عدم شرکت ، ہر دو صورتوں میں اگر مذاکراتی عمل ناکام ہوتا ہے تو پھر بھرپور آپریشن ہی آخری حل ہے۔اِس لیے مذاکراتی عمل میں فوج کی شرکت سے کون سے ”خطرناک نتائج“ نکل سکتے ہیں اور کِس مارشل لاء کا خطرہ ہے؟۔ حقیقت یہ ہے کہ ملکی حالات کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے میاں صاحب یہ چاہتے ہیں کہ وہ یک سو ہو کر توانائی کے بحران کی طرف توجہ دیں ۔

اُنہوں نے خود کہا کہ ”سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلے سکیورٹی ٹھیک کریں یا توانائی کا بحران“۔لیکن اچھّی بات یہ ہے کہ تمام تر تفتیش کے باوجود میاں صاحب کا عزم جواں ہے ۔اُنہوں نے کہا ”ہمت نہیں ہاریں گے ، چیلنجز کا مقابلہ کریں گے“۔اگر ہمارے ”محبّ ِ وطن“ سیاست دان اپنا اپنا راگ الاپنا بند کرکے ملکی سلامتی کی خاطر حکومت کے دست و بازو بننا پسند فرمائیں تو ناممکن کچھ بھی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :