کرکٹ کا بخار

جمعرات 27 مارچ 2014

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

بخار کی کئی قسمیں ہوتی ہیں جن میں سب سے خطرناک” کرکٹ کا بخار“ ہے جس میں ہم اکثر مبتلاء رہتے ہیں ۔میچ جیتنے کی صورت میں افاقہ بھی ہو جاتا ہے لیکن اکثر بخار کا پارہ چڑھا ہی رہتا ہے ۔یہ بخار اُس وقت اپنی ساری حدیں پار کر جاتا ہے جب پاکستان اور انڈیا کا میچ ہو رہا ہو ۔یوں تو میچ سے پہلے الیکٹرانک میڈیا پر متواتر یہ نغمہ الاپا جاتا رہتاہے کہ ”تُم جیتو یا ہارو ، ہمیں تُم سے پیار ہے“ لیکن میچ ہارنے کی صورت میں وہی الیکٹرانک میڈیا طنز کے تیر برساتا ہے اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والی قوم جو تبصرے کر رہی ہوتی ہے اُسے اگر کھلاڑی اپنے کانوں سے سُن لیں تو شاید ہمیشہ کے لیے کھیلنے سے توبہ کر لیں ۔

کھیل تو کھیل ہوتا ہے جس میں ایک ٹیم نے ہارنا ہی ہوتا ہے لیکن ہماری تو یہ ضد ہے کہ ”ہم ہیں پاکستانی ، ہم تو جیتیں گے“ ۔

(جاری ہے)

جس دن کرکٹ میچ ہو ، اُس دن پوری قوم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے ”لسوہڑے“ کی طرح ٹیلی وژن سے چپک رہتی ہے اور پھر ہر بال پر جو تجزیے اور تبصرے ہوتے ہیں اُنہیں سُن کر تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے ہمارے لکھاری تو ”کَکھ“ بھی نہیں پیدائشی تجزیہ نگار تویہ قوم ہے جو میچ کے دوران ”الہامی کیفیات“ میں مبتلاء ہو جاتی ہے ۔

میرا ڈاکٹر بیٹا میچ والے دن ڈاکٹر کم اور تجزیہ نگار زیادہ بَن جاتاہے ۔اُس نے میچ بھی دیکھنا ہوتا ہے اور بار بار یہ بھی کہنا ہوتا ہے کہ ”میچ فِکس ہے اِس لیے دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں“ البتہ ہمارا کوئی کھلاڑی اگر چوکا یا چھکّا لگائے تو سب سے بلند نعرہ بھی وہی لگاتا ہے ۔وہ اکیلا ہی کافی تھا لیکن اب اُس کے ساتھ شریف بھی مل گیا ہے ۔

یوں تو اُس ”ذاتِ شریف“ کا ہوٹل کا کاروبار ہے لیکن میچ والے دن کونسا ہوٹل اور کہاں کا ہوٹل ۔نصیحت البتہ وہ بھی سبھی کو یہی کرتا ہے کہ میچ دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ہر میچ اور ہر بال ”فِکس“ ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں ایشیا کپ میں انڈیا کے خلاف چھکّے لگا کر شاہد آفریدی نے جاوید میانداد کی یاد تازہ کر دی ۔ایک چھکّا لگانے پر”مالا مال “تو جاوید میانداد بھی ہوئے تھے لیکن آفریدی کے چھکّوں نے تو اُسے ”نہال“ ہی کر دیا اوریہ 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کا ثمر تھا جو محترم عمران خاں صاحب شوکت خانم جیسا عظیم کینسر ہسپتال بنانے میں کامیاب بھی ہوئے اور آج خیبر پختونخوا حکومت کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں ۔


افسوس، صد افسوس کہ اب کی بارہم نےT 20 ورلڈ کپ کے میچ میں دِلّی کے لال قلعے پر سبز ہلالی پرچم لہرانے کا سنہری موقع کھو دیا ۔اگر ہماری کرکٹ ٹیم ”جذبہٴ ایمانی“ سے سرشار ہو کر کھیلتی اور ناقص فیلڈنگ ، بیٹنگ اور باوٴلنگ نہ کرتی تو یہ جھنڈا تو ہم نے لہرا ہی دیا تھا ۔چلیں انڈیا نہ سہی آسٹریلیا تو ہم نے فتح کر ہی لیا ۔ویسے بھی آسٹریلیا امیر ملک ہے اور انڈیا میں غربت ہی غربت اِس لیے آسٹریلیا کی فتح قوم کو مبارک ہو ۔

ہم نے اِس سے پہلے بھی کئی بار انڈیا کو شکست دی لیکن وہ ہمیشہ ”روندی “ مارتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ ”اب کے مار“ لیکن ہم اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کے ہاتھوں مجبور ہیں اِس لیے اُسے بار بار تو نہیں مار سکتے نا۔اور کچھ ہو نہ ہو ، ہماری کرکٹ ڈپلومیسی ہمیشہ کامیاب رہی ہے ۔اگر میچ انڈیا میں ہو رہا ہو تو ہمارے سربراہان بِن بلائے ہی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔

اسی کرکٹ ڈپلومیسی کے تحت ایک بار ہمارے صدر ضیاء الحق مرحوم انڈیا میچ دیکھنے گئے اور اُس وقت کے وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کے کان میں ایٹمی جنگ چھیڑنے کا سندیسہ تک دے ڈالا جس پر راجیو جی کا رنگ پیلا پڑ گیا اور ٹانگیں کانپنے لگیں ۔ہمارے ”گدی نشیں “ بھی میچ دیکھنے گئے تھے لیکن وہ میچ ہم ہار گئے ۔تب قوم کا تبصرہ یہ تھا کہ ہمارے وزیرِ اعظم تو کرکٹ ٹیم کو میچ ہارنے کا پیغام دینے گئے تھے ۔

ہمارے ”چڑیا والے“ چیئر مین کرکٹ بورڈ کو بھی رپورٹر یہی کہتے تھے کہ وہ جو میچ بھی دیکھنے جاتے ہیں ، ہم وہی ہار جاتے ہیں ۔آسٹریلیا سے میچ جیتنے کے بعد ہمارے چیئرمین فخر سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔اُنہوں نے میڈیا کو مخاطب کرکے کہا ”دیکھ لو ! میں بنگلہ دیش میں ہوں، اِس کے باوجود ہم میچ جیت گئے ہیں“۔ہمارے پیارے ”ٹُک ٹُک“ مِصباح کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ جس میچ میں وہ ”ہاف سینچر ی“ کر لیں ، وہ میچ ہم ہار جاتے ہیں۔

ایشیا کپ فائنل میں مِصباح نے یہ روایت بر قرار رکھی ۔جونہی اُن کی ہاف سینچری ہوئی کرکٹ کے سبھی شوقین پکار اُٹھے ”لو جی ! ہم میچ ہار گئے“ اور ہوا بھی ایسے ہی ۔
بہرحال ”دیر آید ، درست آید “ کے مصداق ہماری کرکٹ ٹیم نے آسٹریلیا سے میچ جیت لیا اور ہم نے بھی میچ جیتنے کی خوشی میں مبارک باد کی مٹھائی انٹر نیٹ پر ڈال دی ۔جسے”شوگر“ نہ ہو ، وہ شوق فرما سکتا ہے ۔

ویسے کسی نے ہمیں” میسج“ بھیجا کہ ہم نے” اُس کی مٹھائی“ چوری کرکے نیٹ پہ رکھی ہے ۔اُس ”بھولی بادشاہ“ کو اتنا بھی علم نہیں کہ ہم پاکستانی ہیں جو چھوٹی موٹی چوریوں کو ”لفٹ“ نہیں کروایا کرتے ۔بات اگر کروڑوں ، اربوں کی ہوتی تو ہم بھی اپنی ”اشرافیہ “کی طرح سینہ تان کر اپنی ”کاریگری“ پر فخر کرتے لیکن ایسی چھوٹی موٹی چوریاں ہماری توہین کے مترادف ہیں جس پرہم ہتکِ عزت کے دعوے کا حق محفوظ رکھتے ہیں ۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مٹھائی ہے تو زبردست لیکن اسے دیکھ کر صرف ”للچایا“ جا سکتا ہے ، کھایا نہیں جا سکتا ۔لیکن ہم کہتے ہیں کہ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے ۔اگر یہ قوم گزشتہ66 سالوں سے صبر کرتے ہوئے ایسے ”حکمرانوں “ کو بھگت سکتی ہے تو ہماری مٹھائی پر بھی صبر کر لے ۔ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن یہ مٹھائی انٹر نیٹ سے ضرور باہر آئے گی ۔

یہ الگ بات ہے کہ بقول جنابِ آصف زرداری ”وعدے قُرآن و حدیث نہیں ہوتے“۔ویسے بھی آجکل انٹر نیٹ کا دَور ہے اور اگر انٹرنیٹ سیاسی جماعتیں ہو سکتی ہیں تو انٹر نیٹ مٹھائی کیوں نہیں ؟۔کچھ عرصہ پہلے تک تحریکِ انصاف کو بھی ”انٹرنیٹ پارٹی “کہا جاتا تھا لیکن اب وہ بھی انٹر نیٹ سے باہر نکل کر صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت سنبھالے بیٹھی ہے ۔

اسی طرح سے ہماری مٹھائی کے بھی انٹرنیٹ سے باہر آنے کے روشن امکانات ہیں ، بس تھوڑے صبر کی ضرورت ہے ۔
بات ہو رہی تھی دلّی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کی ۔ہماری کرکٹ ٹیم نے تو یہ موقع گنوا دیا لیکن اب قوم کی نظریں جماعت الدعوةکے حافظ سعید صاحب پر گَڑی ہیں جنہوں نے” احیائے نظریہٴ پاکستان مارچ “سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” ہم نے مسلم اکثریتی علاقے بھارت سے چھڑوا کر تکمیلِ پاکستان کے ایجنڈے کو مکمل کرنا ہے “۔

دیگر مقررین نے بھی کہا کہ ہندو ہمارا از لی دشمن ہے جس سے دوستی اور تجارت نہیں ہو سکتی ۔ہمارے امیرِ جماعتِ اسلامی سیّد منور حسن صاحب نے بھی فرمایا
”بھارت سے دوستی کا مطلب کشمیریوں سے دشمنی ہے ۔نواز شریف بھارت سے دوستی کی باتیں کرکے کشمیریوں کے زخموں پر نمک نہ چھڑکیں “۔سیّد صاحب اور حافظ سعید صاحب کے ارشادات سے مفر ممکن نہیں ۔

تحقیق کہ یہ ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے اور قوم کا بچہ بچہ یہ سمجھتا ہے کہ ہندو بنیا کبھی ہمارا دوست نہیں ہو سکتا ۔ہم لاکھ امن کی آشاوٴں کے دیپ جلائیں، اُدھر سے نفرت ہی ملے گی ، محض نفرت ۔سوال مگر یہ کہ کیا دینِ مبیں کے حکم کے مطابق ہم نے اپنے گھوڑے تیارکر رکھے ہیں؟۔ اگر نہیں تو پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا زور تو صِرف ملّی نغموں اور ”کَرش انڈیا“ جیسے نعروں پہ صَرف ہوتار ہے اور دشمن اپنی چال چل جائے۔

ماضی میں بھی ”کَرش انڈیا“ کا گلی گلی میں شور تھا لیکن ہوا یہ کہ انڈیا نے ہمیں ہی کَرش کرکے دو، دو پاکستان بنا دیئے جن میں سے ایک اب بنگلہ دیش کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ اِس لیے بہتر یہی ہے کہ یا تو ہم اپنے آپ کو اِس قابل بنا لیں کہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں یا پھر کرکٹ کے میدانوں میں ہی انڈیا کو” کَرش“ کرکے اپنا شوق پورا کرتے رہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :