کچھ اپنوں کے بارے میں

ہفتہ 5 ستمبر 2015

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

عمرِ عزیزکے بہت سے ماہ وسال درس وتدریس کی نذرکرنے کے بعدہمیں کالم نگاری کاشوق چرایااور پھرہوا یوں کہ ہم کالموں ہی کے ہورہے۔ ۔اب تو زندگی کالم لکھنے ،پڑھنے کے گردگول گول گھومتی رہتی ہے ۔ویسے ہمیں کالم لکھنے سے زیادہ پڑھنے کاشوق ہے حالانکہ اِس ”قبیلے“ کے لوگ تو اپنالکھا بھی نہیں پڑھتے ،کسی دوسرے کالکھاکیا خاک پڑھیں گے ۔

کچھکالم ایسے کہ جنہیں پڑھ کر”کَکھ“ پلے نہیں پڑتا لیکن کچھ ایسے بھی کہ جنہیں باربار پڑھنے کوجی چاہے۔لکھاری قبیلے کے نَووارد ناصرمحمود ملک کاپچھلے دنوں لکھا گیاکالم کچھ ایساہی تھا ۔یہ کالم دراصل محترم وجاہت مسعودکا خاکہ تھاجو ایسا چٹ پٹا کہ یقیناََ وجاہت صاحب نے بھی ”چَسکے“ لے لے کرپڑھا ہوگا۔ ناصرملک کاہر جملہ شائستہ وشُستہ۔

(جاری ہے)

بھاری بھرکم الفاظ کاایسا استعمال کہ سلاست وروانی میں کہیں رکاوٹ نہیں۔ ہرجملے میں پہلوداری کاایسا عمدہ استعمال کہ پڑھنے والا”بحرِمزاح“ میں بہتا چلاجائے ۔ہم توجس ناصرملک کوجانتے ہیں وہ تو ہمیشہ سنجیدگی کی ”بُکل“ مارے رہتاہے مگریہ” چھپارستم“ پتہ نہیں کون ہے ؟۔اِس ”مولوی ٹائپ“ناصرملک کی حسِ مزاح اتنی تواناکہ الحفیظ والاماں۔

ہوسکتا ہے یہ گلِ نوخیزاختر کی صحبت کااثر ہوکہ
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
ناصرملک کے اندربیٹھے ”شریربچے“ نے وجاہت مسعود کے”لَتّے لینے “میں کوئی کسرنہیں چھوڑی لیکن اندازایسا کہ کہیں طنزکے نشترنہیں ۔ویسے اُس نے جو کچھ لکھا ،اُس سے ہمیں بھی کُلّی اتفاق کہ ہم نے جب بھی وجاہت مسعودکے کالموں کو پڑھنے کا”حوصلہ“ کیااپنے پاس پانی کاگلاس اورسَردرد کی گولیاں رکھ کرہی کیا پھربھی لاکھ ٹامک ٹوئیاں مارنے کے باوجود ”کَکھ“ پلّے نہ پڑا۔

مشکل پسندی تووجاہت مسعود کے چہرے ہی سے ٹپکتی ہے ۔ اسی لیے ہمیں اُن کی علمی ”وجاہت“ کا اُسی طرح اقرارجس طرح مرزا غالب کی شاعری کے پہلے دَور (جسے مشکل پسندی کادَور کہاجاتا ہے)کے مشاعروں میں اُنہیں بے تحاشہ داد ملتی۔وجہ اُس دادکی یہ کہ مرزاصاحب کے اشعار اہلِ محفل کے سَروں سے کئی سو گز اوپرسے گزر جاتے لیکن اپنی کم علمی اورکَج فہمی کو ایک دوسرے سے چھپانے کی خاطروہ بڑھ چڑھ کر دادوتحسین کے ڈونگرے برساتے رہتے۔

آپس کی بات ہے کہ بھائی وجاہت مسعودکے کالم ”پلّے“ ہمارے بھی نہیں پڑتے اورنہ آئندہ پڑنے کی توقع کیونکہ ہم نے تواُن کے کالموں کا ایک ایک جملہ الگ کرکے بھی تفہیم کی کوشش کی پھربھی ”پلّے“ کچھ نہ پڑا۔اُدھر ہم ٹھہرے اردوادب کے اُستاد، اِس لیے اپنی ”اُستادی“ کا بھرم رکھنے کے لیے ہم ”شرموکشرمی“داددیتے رہتے ہیں۔ ایک دِن ہم نے اپنے میاں(پروفیسرمظہرصاحب)سے وجاہت مسعود کے کالموں کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیئے جس کے بعد ہمارے لیے اوربھی ضروری ہوگیا کہ ہم بھی داددیتے رہیں کیونکہ یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ ہم اپنے میاں کے سامنے اپنی کج فہمی کااقرار کرلیں ۔

ویسے آخری خبریں آنے تک یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ ہمارے میاں کے پلّے بھی کچھ پڑتاہے یا وہ بس”ایویں ای“ ہم پر” رعب شُعب“جماتے رہتے ہیں۔ایک اوربات جو خالصتاََہمارے ارسطوانہ ذہن کی پیداوارہے ،یہ کہ پرائیڈآف پرفارمنس کا فیصلہ کرنے والی ”کمیٹی“ کے پلّے بھی یقیناََ ”کَکھ“ نہیں پڑا ہوگا اسی لیے اُس نے بھی اپنی علمیت کابھرم رکھنے کے لیے بھائی وجاہت مسعود کو پرائیڈآف پرفارمنس کا حقدار ٹھہرادیا حالانکہ اِس کے اصل حقدار تو ”ہم“ خود تھے یاپھر گلِ نوخیزاختر جسے عرصہٴ درازتک توہم ”محترم “ کی بجائے ”محترمہ“ ہی سمجھتے رہے۔

یہ عقدہ توبہت بعدمیں واہوا کہ وہ تو ”صنفِ نازک “ کی بجائے ”صنفِ کرخت“ سے تعلق رکھنے والاایسا شخص ہے جومزاحیہ کالم نگاری میں تیزی سے ارتقائی منازل طے کرتا جارہا ہے ۔اُسے جُگت بازی میں ملکہ حاصل ہے۔جہاں قہقہے پورامحلہ سُن رہاہو ،سمجھ لیجئے وہاں ”جانِ محفل“ گلِ نوخیزاختر موجودہے۔یہ توہو ہی نہیں سکتا کہ نوخیز موجودہو اورمحفل زعفران زارنہ ہو۔

پروفیسرصاحب سے اُس کا ”اِٹ کھڑکا“ چلتاہی رہتاہے۔یوں تو وہ اپنے آپ کو”وارُستہ طبع “ ثابت کرنے کی بھرپور سعی کرتاہے لیکن ہے اندرسے ”پَکّامولوی“۔ اسی لیے مظہر صاحب نوخیزکے بارے میں اکثر کہتے ہیں کہ”قلبِ اُو مومن ،دماغش کافراست“۔مظہرصاحب اورگلِ نوخیزاختر کی ”چشمک“کی وجہ یہ کہ مظہرصاحب ٹھہرے پَکّے رجعت پسنداور نوخیزاُن سے ہمیشہ ”پُٹھے پُٹھے“ سوال کرتا ہے۔

شایدوہ گھرسے یہ ارادہ باند ھ کے نکلتاہے کہ
جی چاہتا ہے چھیڑ کے ہوں اُن سے ہمکلام
کچھ تو لگے گی دیر سوال و جواب میں
اُس کی انہی ”حرکات“ کی وجہ سے مظہرصاحب کاپارہ آسمانوں کو چھونے لگتاہے ۔وہ ڈرائینگ روم میں بیٹھے چیختے بلکہ چنگھاڑتے رہتے ہیں اورہم لاوٴنج میں بیٹھے اُن کی دھاڑ ، چنگھاڑبلکہ للکارسے لطف اندوزہوتے ہیں۔

شروع شروع میں توہم ڈرجاتے تھے کہ کہیں یہ ”اِٹ کھڑکا“تصادم میں نہ ڈھل جائے اورہمارا ڈرائینگ روم بھی ”پارلیمنٹ“ کاسامنظر پیش نہ کرنے لگے لیکن اب ہمیں بھی ادراک ہوگیا کہ یہ سب ”پھوکی بڑھکیں“ ہیں۔گلِ نوخیزاکثر ہمارے ہاتھ کے پکے کھانوں کی تعریف کرتا ہے۔ہم تو اُس کی تعریفوں پر پھول کر”کُپّا“ ہوجاتے ہیں لیکن مظہرصاحب کے خیال میں وہ صرف ”مکھن“ہی لگارہا ہوتاہے ۔

اُس نوجوان کی ایک لائقِ تحسین خوبی یہ کہ اُس کاماضی کھلی کتاب ہے، ایسی کتاب کہ جسے وہ خودہی پڑھ پڑھ کرلوگوں کو سناتا رہتاہے ۔ بعض اوقات تو وہ اپناماضی اتنے دردناک پیرائے میں بیان کرتاہے کہ جھوٹ کاگماں ہونے لگے ۔پچھلے دنوں PFUC کی سالانہ ورکشاپ میں اُس نے یہی ”آزمودہ گُر“ آزمایا اورساری محفل کی ہمدردیاں سمیٹ کریہ جا، وہ جا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :