احتساب اور ریاستِ مدینہ ۔ آخری قسط

پیر 3 ستمبر 2018

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

وزیرِاعظم نے اپنے خطاب میں سادگی، احتساب اور ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا اعلان فرمایا تھا۔ سادگی کی ہلکی سی جھلک تو ہم اپنے پچھلے کالم میں نذرِقارئین کر چکے، اب کچھ ذکرریاستِ مدینہ اوراحتساب کا۔ خلفائے راشدین نے تیس سال تک حضورِاکرمﷺ کے اقوال، افعال اور اعمال کے عین مطابق اسلامی ریاست کی سربراہی کا فریضہ سرانجام دیا۔

اِسی کو خلافتِ راشدہ کہتے ہیں اور یہی ریاستِ مدینہ تھی جس کے تصور کو وزیرِاعظم عمران خاں عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ریاستِ مدینہ تشکیل دے کر کپتان ”امیرالمومنین“ بننے کے خواب دیکھ رہے ہوں تاکہ ووٹوں کی بھیک سے نجات ملے اور درگاہوں پر سجدہ ریزی کی ضرورت باقی بچے نہ تعویذگنڈوں کی۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر اُن کے امیرالمومنین بننے پر بھلا کس کافر کو اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اُنہوں نے اپنے گرد جو ”ہجومِ مومنین“ اکٹھا کر رکھا ہے، کیا وہ ریاستِ مدینہ کی تشکیل میں کپتان کے دست وبازو بنیں گے؟ ۔

(جاری ہے)

کیاجہانگیر ترین، علیم خاں، شاہ محمودقریشی، فواد چودھری، بابراعوان، فروغ نسیم اور عثمان بزدار جیسے ڈال ڈال پھدکنے والے لوگ ریاستِ مدینہ تشکیل دیں گے یا پھر فیاض چوہان جیسے وزیر جس کی بدزبانی و بدکلامی اظہرمِن الشمس؟۔ کیا وہ لوگ ریاستِ مدینہ کے خواب کو حقیقت کا روپ دیں گے جن کی ساری سیاست اُن کی ذاتی منفعت کے گرد گھومتی رہتی ہے؟۔

بھان متی کا یہ کنبہ قوم کا آزمودہ اور عوام اِن سے آزردہ، اِن سے خیر کی توقع عبث۔ خود کپتان صاحب کا یہ عالم کہ اُن کے یوٹرن مشہور، نرگسیت معروف اور غیرپارلیمانی الفاظ مرغوب۔
وزیراطلاعات فوادچودھری نے کہا کہ وزیرِاعظم ہاوٴس سے بنی گالہ تک سفر کے لیے یا تو پچاس گاڑیوں کا پروٹوکول ہوتا اور سڑکیں بند کی جاتیں یا پھر ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا جاتا کیونکہ وزیرِاعظم کی جان بہت قیمتی ہے۔

کپتان نے بھی کہا کہ عوام کی سہولت کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بجا ارشاد مگر ریاستِ مدینہ کے چار خلفائے راشدین میں سے تین شہید ہوئے پھر بھی نہ کوئی پروٹوکول اور نہ حفاظتی حصار۔ ایک دفعہ قیصرِ روم کا ایلچی امیرالمومنین حضرت عمر سے ملاقات کے لیے آیا۔ مدینہ پہنچ کر اُس نے ایک صحابی سے سوال کیا ”آپ کے شہنشاہ کا دربار کہاں ہے؟“۔

صحابی نے جواب دیا ”ہمارے ہاں کوئی شہنشاہ ہوتا ہے نہ اُس کا دربار۔ ہمارے ایک خلیفہ ہیں جو پتہ نہیں اِس وقت کہاں ہوں گے“۔ پھر ایک صحابی اُس ایلچی کو مسجدِنبوی تک لے گئے جہاں حضرت عمر مسجد کی صفائی کے بعد تھک کر وہیں چٹائی پر سو رہے تھے۔ ایلچی کے مُنہ سے بے ساختہ نکلا ”اصل شہنشاہ تو یہ ہیں“۔ لیکن ہمارے حکمران تو موت کے خوف سے اپنے چاروں طرف کئی حفاظتی حصار قائم کرتے ہیں اور
 بات کرتے ہیں ریاستِ مدینہ کی۔

لاریب موت تو برحق جوسات پردوں میں بھی آجاتی ہے۔ اگر موت کا اتنا ہی خوف ہے تو پھر وزارتِ عظمیٰ کا لالچ کیوں جہاں بقول فواد چودھری ہر وقت موت کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔
ایک دفعہ امیرالمومنین حضرت عمر نے مجمعے میں فرمایا ”لوگو! اگر میں اللہ اور اُس کے رسول کے احکامات کے خلاف جاوٴں تو تم کیا کروگے؟“۔ ایک صحابی اُٹھے اور کہا ”ربّ ِ کعبہ کی قسم میں تمہاری گردن اُتار دوں گا“۔

اِس جواب پر حضرت عمر نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اُنہیں راسخ العقیدہ مسلمانوں کا ساتھ حاصل ہے۔ عامی تو درکنار کیا کسی وزیر با تدبیر میں بھی اتنی ہمت ہے کہ وہ کپتان کے سامنے ایسی بات کرنے کی جرأت کر سکے؟۔ ہمارے وزیرِاعظم متواتر کڑے احتساب کی بات کر رہے ہیں لیکن شاید وہ احتساب بیگانوں کے لیے ہے، اپنوں کے لیے نہیں کیونکہ جو کچھ اُن کی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے، وہ زمانے کو تو نظر آتا ہے، کپتان کو نہیں، حالانکہ حساب تو اِس کا بھی ہونا ہے۔

آقاﷺ کا فرمان ہے ”تم میں سے ہر ایک راعی ہے جس سے روزِ قیامت اُس کی بھیڑوں کا حساب ضرور لیا جائے گا“۔ سوال یہ ہے کہ کیا کپتان صاحب اپنی ”ٹیم“ کے اعمال کے ذمہ دار نہیں؟۔ کیا اُنہوں نے وزیرِاعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جواب طلبی کی کہ وہ حکومتی ہیلی کاپٹر پر اپنے خاندان کو کیوں سیر کرواتے پھرے؟۔ حضرت عمربِن عبد العزیز نے تو اپنے خادم کو اِس بات پر ڈانٹ پلا دی تھی کہ اُس نے بیت المال کے تیل سے جلنے والا دِیا کیوں گُل نہیں کیا۔

لیکن یہاں تو عالم یہ کہ خیبرپختونخوا کے وزیرِتعلیم بھی ایک پرائمری سکول کے افتتاح کے لیے حکومتی ہیلی کاپٹر پر تشریف لاتے ہیں اور باتیں ہو رہی ہیں ریاستِ مدینہ کی۔
اسلامی ریاست میں احتساب کا یہ عالم کہ ایک دفعہ فاطمہ نامی ایک عورت چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی تو رسول اللہ ﷺنے اُس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ صحابہ اکرام نے عرض کیا کہ وہ عورت ایک طاقتور قبیلے سے تعلق رکھتی ہے، اِس لیے دَرگزر فرمایا جائے۔

آپ نے فرمایا ”رَبّ ِ کعبہ کی قسم اگر اِس عورت کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا“ (مفہوم)۔ یہ میرے آقاﷺ کی تربیت ہی کا اثر تھا جو حضرت عمر نے فرمایا ”اگر کسی کی وجاہت کے خوف سے عدل کا پلڑا اُس کی طرف جھک جائے تو پھر اسلامی حکومت اور قیصر وکسریٰ کی حکومت میں کیا فرق ہوا؟“۔ کپتان باتیں تو بلاامتیاز احتساب کی کرتے ہیں لیکن جب معاملہ خاورمانیکا کی ذات تک جا پہنچتا ہے تو خاموشی میں ہی عافیت۔

خاتونِ اوّل بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاورمانیکا کے معاملے نے اتنا طول پکڑا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اَز خود نوٹس لینا پڑا۔ شنید ہے کہ خاورمانیکا پاکپتن میں پولیس ناکے پر نہیں رُکے جس پر پولیس نے اُن کا پیچھا کرکے گاڑی روک لی۔ مانیکا نے اِسے اپنی توہین گردانا اور معاملہ اعلیٰ ترین خاتون کے نوٹس میں لے آئے جنہوں نے احسن جمیل گجر کو حکم دیا کہ وہ وزیرِاعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے رابطہ کرے۔

عثمان بزدار نے فوری طور پر آر پی او ساہیوال اور ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو اپنے آفس میں طلب کیا۔ جب وہ لوگ آفس پہنچے تو بقول رضوان گوندل وزیرِاعلیٰ نے احسن جمیل گجر کا تعارف اپنے بھائی کے طور پر کروایا۔ گجر نے نہ صرف رضوان گوندل سے تلخ کلامی کی بلکہ خاورمانیکا کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگنے کے لیے بھی کہا۔ رضوان گوندل کے انکار پر رات کے 12 بجے اُن کا تبادلہ کرکے او ایس ڈی بنا دیا گیا۔

اب معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور ہمیں یقین کہ ”بابا رحمت“ مبنی بَر انصاف فیصلہ کریں گے۔ سوال مگر یہ کہ ریاستِ مدینہ تشکیل دینے کے دعویداروں نے عثمان بزدار کے خلاف کیا ایکشن لیا؟۔ امیرالمومنین حضرت عمر نے تو ایک عام شخص کی شکایت پر حضرت عمرو بِن العاص جیسے گورنر اور جید صحابی کو بھی کوڑے مارنے کا حکم صادر فرمایااور حضرت عمروبن العاص کی جان ہرجانہ دے کر چھوٹی لیکن عثمان بزدار کو تو کسی نے پلٹ کر پوچھا تک نہیں، دعوے پھر بھی ریاستِ مدینہ کے۔


ہمارے وزیرِاعظم تو اپنے خلاف مقدمات میں عدالتوں میں حاضر ہونا پسند ہی نہیں فرماتے۔ جہاں کہیں ضرورت محسوس ہو، اُن کے وکلاء پہنچ جاتے ہیں جبکہ ریاستِ مدینہ میں امیرالمومنین قاضی کی عدالت میں بذاتِ خود حاضر ہوا کرتے تھے۔ امیرالمومنین حضرت علی کی ”زرہ “ گم ہو گئی۔ ایک دِن اُنہوں نے وہی زرہ ایک یہودی کے پاس دیکھی۔ معاملہ قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا۔

قاضی صاحب نے حضرت علی سے گواہ طلب کیے۔ اُنہوں نے حضرت حسن اور اپنے غلام قنبر کو بطور گواہ پیش کیا۔ قاضی شریح نے غلام کی گواہی تو قبول کر لی لیکن حضرت حسن کی گواہی یہ کہتے ہوئے رَد کر دی کہ وہ حضرت علی کے بیٹے ہیں اور باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی۔ چونکہ دوسرا گواہ موجود نہیں تھا اِس لیے فیصلہ حضرت علی کے خلاف آیا۔

جب یہودی نے اسلامی نظامِ عدل کی یہ جھلک دیکھی تو پکار اُٹھا کہ زرہ حضرت علی ہی کی ہے۔ یہاں معاملہ مگر ”میٹھا میٹھا ہَپ ہَپ، کڑوہ کڑوہ تھو تھو“ کے مصداق۔ فیصلہ جب میاں نوازشریف کے خلاف آتا ہے تو بلند آہنگ سے اُس کی تحسین کی جاتی ہے لیکن ایسا ہی فیصلہ جہانگیر ترین کے خلاف آنے پر اُسے دِل کے مزید قریب کر لیا جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ جہانگیر ترین تو تحریکِ انصاف کے اے ٹی ایم ٹھہرے۔


 ریاستِ مدینہ کے خلفاء کا تو یہ عالم کہ حضرت عمر اناج کی بوری کندھے پہ رکھے بیوہ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو غلام نے کہا ”یہ بوجھ مجھے دے دیجئے“۔ امیرالمومنین نے فرمایا ”کیا روزِ قیامت میرے گناہوں کا بوجھ بھی تم اٹھا لو گے؟“۔ اگر ریاستی انتظام و انصرام کا یہی عالم رہنا ہے تو پھر کپتان ریاستِ مدینہ کی تکرار چھوڑ ہی دیں تو اچھا ہے۔ جنرل ضیاء الحق بھی اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر 10 سال تک حکومت سے چمٹے رہے اور سیکولر ذہن رکھنے والوں نے یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ (نعوذ باللہ) دَورِجدید میں اسلامی نظام قابلِ عمل نہیں۔ اللہ نہ کرے کہ کپتان کے دَورِ حکومت میں زبانیں پھر دراز ہو جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :