ہمیں ہجوم سے قوم بننے میں مزید کتنا وقت درکار ہے؟

پیر 16 مارچ 2020

Shahida Zubair

شاہدہ زبیر

میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں مقیم ہوں۔ یہ دسمبر 2019 کے آخری ہفتے کی بات ہے جب کرونا   وائرس کی وبا منظر عام پر آئی ۔ یہ کہاں سے شروع ہوئی چینی حکومت نے کیا اقدامات اختیار کئے یہ تفصیلات آپ سب جانتے ہیں۔ اس حوالے مزید بات کرنا اب اظہرمن الشمس ہے۔ چینی قوم نے  وبا کے دوران اپنے نظام کی اطاعت کی ایسی مثالیں قائم کی ہے کہ بڑی بڑی جمہوریتیں اور نام نہاد مہذب معاشرے بھی  چینی قوم کے معترف ہوگئے ہیں۔

دوسری طرف میرے وطن میں ہر سنجیدہ مسئلے کی طرح وباء بھی ایک  مذاق بن کر رہ گئی ہے۔
چین کی قوم نے  ووہان سے لے کر آبادیوں کے لاک ڈاؤن تک ہر پابندی کو اپنے لئے فائدہ مند سمجھا اور  حکومت کی جانب سے جاری کی جانے والی ہر ہدایت پر من وعن عمل کیا ۔

(جاری ہے)

ڈیڑھ ارب کی آبادی میں کوئی  پریشانی کی لہر نہیں دوڑی۔ اجتماعات پر پابندیاں لگیں ، جگہ جگہ درجہ حرارت اور شناخت چیک کی گئی ،کہیں کسی نے اپنی ہتک محسوس نہیں کی۔

  اس دوران ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے واقعات بھی سامنے نہیں آئے۔ ایک کروڑ بیس لاکھ طلبہ نے انٹرنیٹ پر تعلیم کا متبادل تلاش کر لیا۔ گھروں میں ورزش کو معمول بنالیا۔ یہ ہے قوم،آج الحمداللہ چین  ایک  قوم کی صورت میں  اس وبا کو شکست دین کے قریب  ہے۔
اب کچھ ذکر کرتے ہیں اپنے  وطن عزیز کا جہاں بھانت بھانت  کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔

    ہر کوئی اپنا اپنا راگ آلاپ رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا کیا کہ سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہوگیا۔ ہر شخص اپنے اپنے انداز میں ردعمل کا اظہار کر رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے حکومت کی طرف سے جار ی حکم نامے پر طنز و مزاح  کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسی ایسی ویڈیوز پوسٹ ہو رہی ہیں جن میں کرونا زندہ باد کے نعرے لگائے جا رہے ہیں ۔

کہیں کہا جا رہا ہے کہ تعلیمی ادارے ایسے بند کر دئیے ہیں جیسے وائرس چائنا سے پاکستان تعلیم حاصل کرنے آرہا ہے۔ کہیں کوئی کہہ رہا ہے چھٹیوں کے اعلان کے بعد بچے محفوظ مقام نانی اما ں کے گھر شفٹ  ہونےکے لئے تیار ہیں۔ کوئی راگنی سنا  رہا ہے کہ تعلیمی ادارے بند، بازار اور دفتر کھلے ،کیا وہاں کرونا نہیں پھیل سکتا؟ کوئی حکومت کو کوس رہا ہے کہ چھٹیوں کا اعلان کیوں کیاِ؟ جتنے منہ اتنے اتنی باتیں۔


ایک طرف حکومتی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے تو دوسری طرف قرنطینہ مراکز پکنک پوائینٹ بنے ہوئے ہیں۔ نان پکوڑے دہے بھلے اور پان سگریٹ تک کے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔  ہمیں اب میچور ہونا ہوگا اور غیر سنجیدہ رویوں کو ترک کرنا ہوگا۔ صرف حکومت تنہا اس وبا کی روک تھام کے لئے کچھ نہیں کر سکتی ۔ ہمیں بطور قوم اجتماعی شعور کا مظاہر ہ کرنا ہوگا۔


یہ وائرس اللہ کا عذاب ہے جو شامت اعمال کی صورت ساری دنیا پر مسلط ہو چکا ہے ۔لاکھوں افراد کو متاثر کر چکا ہے۔ کئی زندگیوں کو نگل چکا ہے ، ہزاروں  گھروں کو ویران کر چکا ہے دنیا بھر کی معیشت پر اس کے نہایت  منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس  کریش ہو چکی  ہیں ایئرپورٹس، شاپنگ مال  اور  عبادت گاہیں ویران ہوگئی ہیں۔


الحمدللہ پاکستان اب بھی  اللہ کے فضل و کرم سے کرونا وائرس کے لحاظ سے محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ یہاں پر کرونا وائرس کی شرح سب سے کم ہے ۔پاکستان میں لاک ڈاؤن کی فضا اس لیے قائم کی جارہی ہے تاکہ  کسی بھی ناگہانی صورت حال سے بچا جا سکے۔ عالمی ادارہ صحت نے  کووڈ-19 کو عالمی وبا قرار دے دیا ہے۔ پاکستان میں کچھ کیسز رپورٹ ہونے کے بعد بھی لوگوں کا رویہ کافی غیر سنجیدہ تھا۔

پی ایس ایل میچز ہو رہے تھے، اجتماعات جاری تھے ۔غیر ملکی میڈیا کی نظر میں بھی یہ سب کچھ  آ رہا تھا ایسے میں اگر خدانخواستہ یہ مرض پھیل  جاتا  ہے تو پاکستان کو ایک غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دار ملک قرار دیا جانا تھا اس لئے وبا پر قابو رکھنے کے لیے حکومت کے اقدامات کو سراہا نے کی ضرورت ہے نہ کہ طنزومزاح سے کام لیا جائے ۔
ہم نے اپنی تاریخ میں  بہت سے سانحات دیکھے ہیں۔

ہر حادثے کے بعد ہم کچھ دیر کے لئے قوم بنتے ہیں اور پھر اس کے بعد وہی ہجوم بن جاتے ہیں جس کو جو چاہے اپنے مطابق ہانک لے۔ ہمارے پاس دین کی ہدایت موجود ہے، قران کی رہنمائی موجود ہے اور اللہ کی رحمت  کا بے شمار نزول ہے۔ آئیے کسی نئے حادثے کے انتظار کے بغیر کی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور تفرقے میں پڑے بغیر  اس وباء سمیت ہر چیلنج کا مقابلہ کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :