کرونا وباکو کنٹرول کرنے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال

منگل 28 اپریل 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

اکیسویں صدی کا ایک بہت بڑا تحفہ انفارمیشن ٹیکنالوجی تک رسائی اور اس کا عالمی سطح پر پھیلتا ہوا استعمال ہے ۔آج کے دور میں سمارٹ فونز، انٹرنیٹ اور گوگل سروسز کا استعمال ترقی یافتہ ممالک کیساتھ ساتھ ترقی پذیر ملکوں میں بھی عام دکھائی دیتا ہے۔کروناوبا(CoVID-19) نے سب سے پہلے چین میں جنم لیا اور چین نے ہی سب سے پہلے اِس وبا پر قابو پایا۔ چین کے اِس وبا پر قابو پانے میں بہت بڑا کردار چین کی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انفارمیشن انڈسٹری کا بھی ہے۔


چائنہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی ، مصنوعی ذہانت(Artificial Intelligence)اور روبوٹ (Robot)کا استعمال میں روزبروز بڑھتا جارہاہے۔ جہاں چائنہ نے (Digital money)اور (AliPay/WeChatPay)کو ریٹیل شاپنگ (Retail Shopping)کیلئے عام کیا ہوا ہے وہیں چائنہ آن لائن ڈیلیوری (Online delivery) بینکوں اورہوٹلوں میں سروسز بھی روبوٹس کے ذریعے فراہم کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

چائنہ کیطرح یورپ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال روزمرہ زندگی میں بڑھتا جارہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں اِس کرونا وبا کے دوران ربوٹس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مدد لی جارہی ہے۔یہ ربوٹس ہسپتالوں میں مختلف طرح کے کام سرانجام دینے کے علاوہ ڈاکٹروں کی مدد بھی کر رہے ہیں۔
 (UVD Robot)ایک قسم کا جراثیم کُش روبوٹ ہے جو ہسپتالوں میں مریضوں کے کمروں اور آپریشن تھیٹروں کو صاف کرنے اور جراثیم کو تلف کرنے کیلئے اِستعمال ہو رہا ہے ۔

یہ روبوٹ ڈنمارک کی کمپنی نے ڈیزائن کیا جسکی الٹراوائیلٹ روشنی جراثیم کے خلیات کے (DNA/RNA)کو تلف کر دیتی ہے۔ اِسطرح کے تقریباً 200روبوٹس چائنہ میں کرونا وائرس کے تدارک کیلئے مختلف ہسپتالوں میں اِستعمال کیے گئے۔یہ روبوٹ پہلے ایک دفعہ ہسپتال کی بلڈنگ کے اندر داخل ہو کر اِسکا نقشہ (3D-Map)بناتا ہے اور پھر اِس نقشے کے مطابق اُس بلڈنگ اور کمروں میں سپرے کیا جاتاہے۔

اِسی طرح چائنہ نے کرونا وبا کے دوران (Food delivery)اور (Grocery delivery)کیلئے بھی روبوٹس اِستعمال کیے۔ Food delivery Robotsووہان شہر کے ہسپتالوں میں مریضوں تک کھانا اور ادویات پہچانے کا کام سرانجام دیتے رہے ،اِسطرح سے خوراک پہچانے کا مقصد اِس وبا کے پھیلاؤکو کم کرنا تاکہ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف اِس وبا سے ُمتاثر نہ ہو سکیں۔
اِسی طرح Grocery delivery robotsبھی کرونا متاثرہ شہروں میں پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیاء کی ترسیل میں چین میں استعمال کیے گئے ۔

JD.comچائنہ کی آن لائن خریداری کی سب سے بڑی کمپنی ہے جس نے اس وبا کے دوران رہائشی علاقوں میں Parcel deliveryبھی روبوٹس پر شفٹ کردی تاکہ اِن علاقوں میں کرونا وبا کے پھیلاؤ کا اندیشہ کم سے کم ہو۔اِن delivery ربوٹس پر سینیٹائیززاور Disinfectantsبھی نصب کر دیے گئے تاکہ اِن ربوٹس کے اِستعمال کے دوران لوگ صفائی کا خیال رکھیں۔اِن ربوٹس کی ویڈیوز ،یوٹیوب پر بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔

Big Dataبھی انفارمیشن ٹیکنالوجی اور A.I.کی ایک بہت اہم شاخ ہے اور تائیوان نے اِس ٹیکنالوجی کا خاطر خواہ استعمال کرونا وبا کی روک تھام کیلئے کیا۔تائیوان نے Big Dataکو استعمال کرتے ہوئے اِیک detailed mapping systemبنایا جس میں اِنہوں نے مریضوں کے (disease patterns)جمع کیے اور اُن نمونوں کی بنیاد پر معلوم کیا کہ کون سا مریض کہاں سے کرونا وبا سے متاثر ہوا۔

اِس مقصد کیلئے اُنہوں نے تائیوان ،قومی ادارہ برائے صحت ، امیگریشن اور کسٹم ڈیٹا بیسز کو مربوط کیاتاکہ مریضوں کے گزشتہ 15دنوں کا ریکارڈ حاصل کیا جائے۔اِس ریکارڈ میں اُنہوں نے مریض کے رشتہ داروں، قریبی لوگوں ، ٹریول ہسٹری اور موبائل لوکیشن کا ڈیٹا اکٹھا کیا۔ مزیدیہ کہ اُنہوں نے foreign touristsکا داخلہ بھی عارضی طور پر تائیوان میں بند کر دیا اور اِن سیاحوں کو گورنمنٹ کیطرف سے موبائل فونز دیئے گئے تاکہ ان وزیٹرز کو ٹریک کیا جاسکے۔

تائیوان گورنمنٹ نے قرنطینہ کا نظام بھی بہتر بنایا اور اپنے لوگوں کو کرونا مریضوں کیساتھ شائستہ اور ہمدردانہ رویہ اپنانے کی ترغیب دی۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے شعبہ صحت نے eCARTکے نام سے اِیک (AI-based)ہیلتھ سسٹم بنا رکھا ہے جو مریضوں کی مکمل میڈیکل ہسٹری ، بائیو ڈیٹا اور ریکارڈ رکھتا ہے ۔ یہ سسٹم ڈاکٹروں کی رہنمائی کرتا ہے کہ مریض یا اُسکے خاندان کے لوگوں کو ماضی میں کیاکیا بیماریاں لاحق رہی ہیں۔

اِس سسٹم کی بنیاد پر ڈاکٹرز اُس مریض کا علاج کرتے ہیں۔اب یہ سسٹم شکاگو میں کرونا وبا پر قابو پانے کیلئے اِستعمال ہورہاہے جسکے تحت ڈاکٹرز مریضوں کو وینٹی لیٹرز اور دیگر طبی سہولیات فراہم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ امریکہ میں بھی اِس وبا کے دوران مریضوں کی تعداد زیادہ ہے اور طبی سہولیات کم پڑ رہی ہیں۔اِس لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹرز کس مریض کو یہ سہولیات مہیا کریں اور اِس کی زندگی بچائیں۔

اِس ضمن میں میرا تعلق انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ہے اور میں پاکستان کی ٹاپ یونیورسٹیز سے گریجویٹ ہونے کے باوجود گِلہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ ہماری انجینئرنگ یونیورسٹز(UETs, NUST, COMSATS) کوئی مفید ریسرچ نہیں کررہی، اور اِسی طرح ہمارے انجینئرنگ اداروں(PEC, NESCOM)کے داعوے بھی کھوکھلے ہیں۔انکے پاس بھی ایسا کوئی سمارٹ سسٹم موجود نہیں جو اِس مصیبت میں ہسپتالوں یا ڈاکٹروں کی کوئی مدد کر سکے۔

نیشنل ڈیزاسٹرمینیجمنٹ اتھارٹی(NDMA)کا ادارہ بھی پچھلے کئی سالوں سے لمبی تان کر سویا ہوا تھاجسکے پاس کرائسز سے لڑنے کیلئے کوئی پروفیشنل مہارت اور جدید آلات کا فقدان نظر آتاہے۔ یہ سارے قومی ادارے Tax payers moneyپر پلتے ہیں لیکن نہ جانے یہ مستقبل کی منصوبہ بندی کیوں نہیں کرپاتے۔ہمارے پروفیسر زحضرات اور ریسرچرز بھی اِس کرونا لاک ڈاؤن کے صرف چھٹیاں انجوائے کر رہے ہیں جبکہ Oxford, Stanford, Chicago, John Hopkins Universitiesمیں کرونا ویکسن کی تیاری یا اس وبا کے تدارک کیلئے تحقیق ہورہی ہے۔

مجھے اِن پروفیسرز، ریسرچرز، یونیورسٹیز اور انجینئرنگ اداروں سے بھی گِلہ نہیں کیونکہ یہ کام اِیک دن میں نہیں ہوسکتا اِسکے لیے مہینوں اور سالوں سال لگتے ہیں اوریہ حالتِ امن کی محنت اور کوشش ہوتی ہے جس کا صِلہ قومیں حالتِ جنگ(وبا)میں پاتی ہیں۔جبکہ ہماری قوم کو تو سرے سے حالتِ امن میں کام کر نے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کی عادت ہی نہیں ، ہم تو صرف اُس وقت کام شروع کرتے ہیں جب تک کہ کوئی مصیبت نہ آجائے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ڈاکٹرز فرنٹ لائن پر اس وبا کے خلاف برسرِ پیکار ہیں جبکہ باقی پوری قوم لاک ڈاؤن انجوائے کرنے اور تماشہ دیکھنے میں مصروف ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :