کورونا لاک ڈاؤن کے دوران طلباء کی مدد

جمعہ 8 مئی 2020

Tasweer Ahmad

تصویر احمد

میں یہ تحریر ابھی حکومت کی طرف سے 15جولائی تک تعلیمی اداروں میں تعطیلات میں توسیع کے اعلان کے بعد لکھ رہا ہوں۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت اِن تعطیلات میں توسیع کے فیصلے میں حق بجانب ہے چونکہ گزشتہ دو ہفتوں سے کورونا مریضوں اور ہلاکتوں میں مُسلسل تیزی آرہی ہے اور عنقریب حالات کے معمول پر آنے کے امکانات بھی بہت کم ہیں ۔

لیکن چونکہ میں ایک educationist،instructor اور گزشتہ کئی سالوں سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوں ،اِس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ محکمہ تعلیم کو تعطیلات میں اضافے کے ساتھ ساتھ طلباء کیلئے جزوی تعلیم ، متبادل تعلیم یا ہنر مندی سے متعلق کچھ گائیڈ لائنز بھی مہیا کرنی چاہیے تھیں جس میں محکمہ تعلیم ،سرکاری یا نجی سکولوں، کالجوں اور ٹریننگ اداروں (TEVATA)کو اِس طریقہ کار کا پابند کرتیں جسکے تحت یہ ادارے متبادل یا آن لائن ایجوکیشن کو کسی حد تک جاری رکھ سکتے۔

(جاری ہے)


میں اِس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے طلباء،اساتذہ اور policy makersکے سامنے کچھ سفارشات رکھنا چاہتاہوں۔ اِس ضمن میں روایتی تعلیم کو جاری رکھنے کیلئے پہلا طریقہ جو اپنایا جاسکتا ہے وہ ہے سوال وجواب کا سیشنQ&A Session))جو کہ فون، وڈیو ، آڈیو یا دونوں(وڈیواینڈآڈیو)پر ہو سکتاہے۔درسگاہیں اساتذہ کرام کو ٹائم ٹیبل کے مطابق پابند کریں کہ وہ موبائل فون یا انٹرنیٹ فون کالز(آڈیو وڈیو میسج)ریسو کریں اور طلبہ کو درپیش مسائل کا کوئی حل یا اِس مسلئے کا متبادل فراہم کریں ۔

اِس طرح سے طالبِ علم اور اُستاد کے درمیان علم کا تبادلہ (Knowledge sharing)ہو سکتی ہے۔دوسرا طریقہ online meetingکا ہے جس کے لیے تیز انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آن لائن میٹینگ کیلئے zoom Appیا اِس سے ملتی جُلتی Go To meeting, Google Hangout meeting, join.me, BlueJeansایپز وغیرہ کمپنیوں اور یونیورسٹیز میں میٹینگ کے لیے اِستعمال ہورہی ہیں۔اِن appsکے ذریعے اساتذہ آن لائن لیکچرز، webinarsاور میٹینگ ترتیب دے سکتے ہیں لیکن اِسکے لیے تیز انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو شاید ہر طالبعلم کی پہنچ میں نہ ہو۔

روایتی تعلیم کے تسلسل کے لیے تیسرا طریقہ جو professional/formal teachersاختیار کر سکتے ہیں وہ ہے اپنے طالبعلموں کے ساتھ مُسلسل رابطے میں رہنا، جس کے لیے اساتذہ فون کالز، وڈیو کالز اور یا پھر بذریعہ ڈاک اپنے طالبعلموں سے رابطہ رکھ سکتے ہیں۔اساتذہ اپنے سٹوڈنٹس کو پڑھنے اور کچھ نیا سیکھنے کے لیے motivatedرکھ سکتے ہیں اور اُنہیں وقت کو صحیح اِستعمال سے مُتعلق نصیحت کر سکتے ہیں۔

اِس مقصد کے لیے اساتذہ کو اِنتہائی درجے کی dedicationدکھانی پڑے گی جس میں ہو سکتا ہے کہ طالبعلم ابتداء میں شاید اساتذہ کی نصیحت پر کان نہ دھریں، لیکن اساتذہ کو دل بڑا کر کے پھر بھی یہ سفر جاری رکھنا ہو گا۔home schoolingبھی روایتی تعلیم کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جس میں والدین ، بڑے بہن بھائی یا دیگر قریبی پڑھے لکھے رشتہ دار وں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے وقت میں سے بچوں کے لیے کچھ وقت نکالیں۔

یہ عین مُمکن ہے کہ گھر کے یہ پڑھے لکھے افراد بچوں کی مُکمل رہنمائی نہ کر سکیں لیکن یہ کاوش کسی حد تک تعلیمی تعطل کو کم کر سکتی ہے۔
دوسرے مرحلے میں ،مَیں طالبعلموں میں کچھ غیر روایتی تعلیم اور skill setکو بڑھانے کے متعلق بات کروں گا،جس میں بچے پینٹگ(Painting)، خطاطی(Calligraphy)یا دونوں ہاتھوں سے لکھنا(Two hands writing)جیسی مہارت سیکھ سکتے ہیں۔ اِن سِکلز کو سیکھنے کے لیے زیادہ سرمایہ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی آپ کسی بھی کتابوں یا پینٹ کی دُوکان سے پینٹ یا خطاطی کی اشیاء خرید سکتے ہیں اور کوئی بڑا معجزہ(Miracle)کر سکتے ہیں۔

مثلاً Rainbow Village Thailandایک ایسا گاؤں ہے جس کی تمام دیواروں پر تصاویر اور رنگ برنگی پینٹگ بنی ہوئی ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تھائی لینڈ حکومت نے اِس گاؤں کو مسمار کرنا اور اِسکی جگہ کوئی نئی عمارت بنانا چاہتی تھی لیکن پھر ایک سر پھرا شخص راتوں رات اُٹھا اور اُس نے پورے گاؤں کی دیواروں کو رنگ کرنا شروع کر دیا۔ اُس شخص کو دیکھا دیکھی اُور لوگ بھی اِس کام میں اُسکے ساتھ شامل ہوگئے ، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ گند امندا سا گاؤں ایک بہت ہی دلفریب نظارہ پیش کرنے لگا۔

اِس کے ساتھ ہی وہی تھائی حکومت جو کچھ عرصہ پہلے اِس گاؤں کو گرانا چاہتی تھی اب اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئی۔اب تھائی لینڈ کے اِس Rainbow villageکو دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں اور لاکھوں تھائی باتھ(Thai Baht)خرچ کرکے جاتے ہیں۔اِسی طرح ملائیشیا کے دارلحکومت کوالالمپور میں Bukit Bintangکے قریب ایک Rainbow streetہے جس گلی کی دیواروں پر رنگ برنگ کی دلفریب paintingsاور تصاویر بنائی گئی ہیں جو ملائیشین کلچر کی عکس بندی کرتی ہیں۔

رین بو ویلج کی طرح رین بو سٹریٹ کو دیکھنے کے لیے بھی ہزاروں سیاح Bukit Bintangآتے ، اِن پینٹگ کے ساتھ تصاویر بناتے اور قریبی شاپنگ مالز اور Souveinors shopsپر خریداری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔میں بذاتِ خود دو مرتبہ اِس رین بو سٹریٹ میں گیاہوا ہوں اور اِن دونوں جگہوں (رین بو ویلج اورسٹریٹ)کی تصاویر انٹرنیٹ پر دیکھی جاسکتی ہیں۔یہاں میرانقطئہ نظر یہ ہے کہ ہم اِس کورونا لاک ڈاؤن کے دوران کیوں نہیں کو ئی Rainbow villageیا Rainbow streetبناسکتے جن کو دیکھنے کے لیے سیاح یا دیگر لوگ آسکیں۔

یا اگر اِس ideaکو آپ تعلیم کیلئے اِستعمال کرنا چاہتے ہیں تو ہم لوگ کیوں نہیں اپنی گلی ،محلوں کی دیواروں پر نیوٹن کے قوانین، مسلئہ فیثا غورث یا اوہم لاء لکھ یا پینٹ کرواسکتے ، جنکو آنے جانے والے سکولوں کے بچے پڑھ سکیں تاکہ اُن کے شوق میں بھی اضافہ ہوسکے۔
اِس لاک ڈاؤن کے دوران طالبعلم ایک اور دلچسپ مہارت بھی سیکھ سکتے ہیں اور وہ ہے دونوں ہاتھوں سے لکھنے کا ہُنر۔

ہندوستان کے ایک دورداز گاؤں میں ایک سکول ہے جس میں بچوں کو دونوں ہاتھوں سے لکھنا سکھایا جاتا ہے، اور کچھ ذہین طلباء کو تو دونوں ہاتھوں سے دو مختلف زبانوں میں بھی لکھنا سکھایا جاتاہے ، مثلاًدائیں ہاتھ سے اُردو اور بائیں ہاتھ سے انگریزی۔ہمارے بچے بھی لاک ڈاؤن کے دوران دونوں ہاتھوں سے لکھنے کی اِس سِکل کو سیکھ سکتے ہیں۔ گھر پر والدین home schoolingکے دوران یہ initiativeلے سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو دونوں ہاتھوں سے لکھنا سکھا سکتے ہیں۔

ویسے بھی میڈیکل سائنس یہ کہتی ہے کہ جو لوگ right-handedہوتے ہیں وہ اپنے دماغ کا بایاں حصہ اِستعمال کر رہے ہوتے ہیں اور جو لوگ left-handedہوتے ہیں وہ اپنے دماغ کا دایاں حصہ اِستعمال کر رہے ہوتے ہیں ۔جبکہ double handedلوگوں کے دماغ کے دونوں حصے کام کررہے ہوتے ہیں۔ اور مذید یہ کہ left-handedلوگ زیادہ تخلیقی، آرٹسٹک اور ملنسار ہوتے ہیں اِس لیے بھی double handed writingاِس صلاحیت کو مذید بڑھاسکتی ہے۔


میری مذید اِس ضمن میں محکمئہ تعلیم سے مذید گزارش یہ ہے کہ وہ اساتذہ کرام کو مصروف رکھنے کا بھی کوئی بندوبست کرے،اساتذہ کیلئے اِس امر کو یقینی بنایا جائے کہ وہ اِن چھٹیوں کے دوران ایک مہینے میں کم ازکم 2-3سلف ہیلپ ، پرسنل ڈیویلپمنٹ یالیڈرشپ کی کتابیں ضرور پڑھیں۔ اِن اساتذہ سے اِن پڑھی گئی کتابوں کے نوٹس بنوائے جائیں اور اِن کتابوں میں بتائے گئے اُصولوں پر عمل کروایا جائے۔یہ پریکٹس کم ازکم سرکاری سُکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کے لیے لازمی قرار دہ جائے، جس کی خلاف ورزی پر اِن اساتذہ کی تنخواہوں یا دیگر مراعات میں کٹوتی کی جائے۔اگرچہ یہ بڑا سخت فیصلہ ہو گالیکن قوم اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے آپکو ایسے فیصلے کرنا پڑیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :